"ژاں پال سارتر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← گزرا، سے، تہ، طلبہ، ہو گئے، سے
سطر 2:
== ابتدائی زندگی ==
 
مشہور فرانسیسی فلسفی۔ژاں پال سارتر پیرس میں پیدا ہوئےتھے۔ ان کے والد بحری فوج میں افسر تھے لیکن ابھی سارتر ایک سال ہی کے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور ان کی پرورش ان کی والدہ نے کی۔ ان کا بچپن اپنے نانا کے گھر میں گذراگزرا جہاں ایک بڑاکتب خانہ تھا جس میں سارے سارے دن سارتر دنیا بھر کے موضوعات کی کتابیں پڑھتے رہتے تھے اور مضامین لکھتے رہتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ نوعمری ہی میں انہیں بقول ان کے ادب کے جنون کا مرض لاحق ہو گیا تھا۔ مطالعہ اور تحریر کے اسی جنون کی بدولت سارتر سن ستر کے عشرے میں بینائی سے یکسر محروم ہوگئے۔ہو گئے۔
 
== تعلیم ==
سطر 26:
اس فلسفے کا بنیادی مقصد انسان کی کامل آزادی ہے۔ سارتر کے مطابق ناقص عقیدہ ’مووے فوئی‘ خود فریبی ہے کہ ہم یہ سوچ کر اپنے کرب سے نجات حاصل کریں کہ ہم آزاد نہیں اور ہمیں حالات پر کوئی اختیار نہیں۔ یہ بات اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے کہ ہم یہ یقین کر لیں کہ حالات اور زندگی ہمارے کردار، ہمارے روئیے اور طرز عمل کو متعین کرتے ہیں۔
 
غرض سارتر کا استدلال ہے کہ انسان کو اپنی ہستی اور وجود پر غور اور تجسس پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے وجود کو ایک حقیقت تسلیم کرلینا چاہیے اور اسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی کہ انسان آپ اپنا معمار ہے، اپنے کردار کا اور اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آپ اپنی زندگی کی سمت متعین کرے۔ یوں ہم سب آزاد ہیں ، مکمل اور بھر پور طور سے۔سے ۔
 
سارتر گو مارکسزم اور سوشلزم کے زبردست حامی تھے لیکن وہ کمیونسٹ پارٹی یا بائیں بازو کی کسی اور جماعت سے وابستہ نہیں رہے۔ البتہ وہ اپنے آپ کو فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی کا ’ہم سفر‘ ضرور کہتے تھے۔
سطر 38:
سارتر سن انیس سو اسّی میں اپنے انتقال تک جنگ کے خلاف تحریکوں میں انتہائی سرگرم رہے۔ چاہے وہ الـجزائر میں حریت پسندوں کے خلاف فرانس کی جنگ ہو یا ویت نام میں کمیونسٹوں کے خلاف امریکیوں کی جنگ یا عربوں کے خلاف فرانس، برطانیہ اور اسرائیل کی جنگ ، سارتر ان سب جنگوں کے خلاف مہمات اور مظاہروں میں پیش پیش رہے ہیں۔
 
انہوں نے انیس سو اڑسٹھ میں فرانس میں طلباءطلبہ کی بغاوت کی بھی بھر پور حمایت کی۔
 
== ادب کا نوبیل انعام مسترد کر دیا ==
سطر 44:
سارتر کو سن انیس سو چونسٹھ میں ادب کے نوبیل انعام کی پیشکش کی گئی تھی جسے انہوں نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ ایک ادیب کو اپنے آپ کو ایک ادارہ میں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ اور اپنی کامل آزادی برقرار رکھنی چاہیے۔
 
سارتر کی شخصیت تہہتہ دار تھی۔ وہ دانشور بھی تھے ایک فلسفی بھی۔ ناول نگار اور حیات نویس بھی تھے۔ سیاسی مہمات اور مظاہروں میں بھی پیش پیش تھے۔ پیانو بھی بہت اچھا بجاتے تھے اور اچھے گلو کار ہونے کا ساتھ اچھے باکسر بھی تھے۔
 
== مزید دیکھیے ==