"نظرنامہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
م خودکار: خودکار درستی املا ← نشان دہی، کی بجائے، سے، کیے، سے
سطر 1:
[[محمود نظامی]] کا ”نظر نامہ“ بیسویں صدی میں سفر نامے کے اس موڑ کی نشاندہینشان دہی کر تا ہے جہاں قدیم روایتی انداز سے صرف ِنظر کرکے فنی طور پر سفر نامے کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا گیا [[۔ڈاکٹر انور سدید]] نے جدید سفر نامے کی تعریف یوں کی ہے،
 
”سفر نامے کا شمار ادب کے بیانیہ اصناف میں ہوتا ہے اس صنف میں مشاہدے کا عمل دخل زیادہ اور تخلیق کا عنصر بے حد کم ہے سفر نامہ چونکہ چشم دید واقعات و حالات کا بیانیہ ہوتا ہے اس ليے سفر اس کی اساسی شرط ہے۔“
نظر نامہ کے بارے میں [[مولانا صلاح الدین]] فرماتے ہیں،
 
”کہنے کو تو یہ سفر نامہ ہے لیکن اصل میں یہ ان چند نادر تاثرات کا مجموعہ ہے جو صاحب مضمون نے اپنی عمر کے مختلف حصوں میں اپنے وطن سے دور دیار ِ فرنگ کی جلوتوں اور خلوتوں میں قبول کئےکیے ۔“
 
یہ سفر نامہ فنی اعتبار سے کیسا ہے ؟ اس کا ادبی معیار کیا ہے؟ کن خوبیوں سے متصف اور کن خامیوں کا مرتکب ہوا ہے ؟ مصنف نے ان مباحث میں پڑنے کی بجائے اُسے ”نظر نامہ“ کا نام دے دیا ۔ اور نہایت صاف گوئی سے یہ بھی کہہ دیا۔
سطر 14:
نظر نامہ محمود نظامی کے عالیٰ ذوق اور ادیبانہ اسلوب کی عکاسی کرتا ہے وہ کوئی باقاعد ہ ادیب نہ تھے اور نہ نظر نامہ سے پہلے ان کی کوئی ادبی کاوش منظر عام پر آئی تھی ۔ وہ ریڈیوپاکستان کے ملازم تھے اور اپنے فرائض منصبی کے سلسلے میں اکتوبر 1952ءکو [[یونیسکو]] کے زیر اہتمام دوسرے ملکوں کی نشرگاہوں کا جائزہ لینے کے ليے ملک سے باہر جانے کا موقع ملا چونکہ وہ ادب کا عمدہ ذوق رکھتے تھے اس ليے اس سفر سے واپسی پر انہوں نے اس کی روداد لکھ کر ہر خاص و عا م کی داد حاصل کی۔ نظامی کا اصل نام مرزا محمود بیگ تھا وہ زمانہ طالب علمی ہی سے خواجہ حسن نظامی سے بہت متاثر تھے ایک دفعہ اپنے والد کے ساتھ خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو خواجہ اپنے نوجوان عقیدت مند کی ذہانت اور صلاحیت سے بہت خوش ہوئے اور ازرائے شفقت انہیں اپنی کتابیں دیں اور کہا
 
کہ”صاحبزادے آج سے تم نظامی ہو۔“ محمود بیگ نے اس نسبت کو بڑی خوشی اور فخر سے قبول کیا اور مرزا محمود بیگ کےکی بجائے محمود نظامی کہلانے لگے۔آئیے نظر نامہ کاجائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں وہ کون سی خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے اس سفر نامے کو اردو ادب کا پہلاباقاعدہ سفر نامہ مانا جاتا ہے۔
 
== قدیم اور جدید کا امتزاج:۔ ==
سطر 66:
”میں سوچنے لگا کہ وینس Venusکا حسن دن کی نسبت رات کو کس قدر نکھر آتا ہے اس وقت اس میں ایک بے پنا ہ کشش پیدا ہو جاتی ہے جس کے سامنے باہر سے آنے والا مسافر اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے۔۔۔۔۔جوں جوں شام گزرتی ہے اور تاریکی کی گہرائی خود وینس کے حسین چہر ے کو اس طرح پر کشش بنا دیتی ہے ۔ جس طرح بعض اوقات سیا ہ ہلکوں میں لپٹی شفاف آنکھوں کا حسن کاجل کی سیاہی سے اُ بھر اآتا ہے۔“
 
ایسے مناظر کے بیان میں وہ شاعرانہ اسلوب برمحل تشبیہات اور دلکش الفاظ کا استعمال کرتے ہیں حسن جہاں کہیں اور جس رنگ میں بھی ہے محمود نظامی کی توجہ جذب کئےکیے بغیر نہیں رہ سکتا وہ حسن کے جلوئوں کو سرسر ی نہیں دیکھتے بلکہ اس کی کیفیات میں ڈوب جاتے ہیں ۔ بقول حفیظ ہوشیار پوری،
اپنی بھر پور شخصیت کے پورے اظہار کے ليے زبان و قلم کی بے ساختگی اور روانی کے ساتھ اُن کے حصے میں آئی تھی بولتے تو سننے والوں کے کان آنکھیں بن کر رہ جاتے ۔ لکھتے تو قلم سے موقلم کا کام لیتے ۔“
 
نظر نامے کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیاہے بازار مصر ، روم نامچہ ، برسبیل تذکرہ، سب طلوع پیرس، بلاخر میکسکو اس کے علاوہ عذر گناہ کے عنوان سے ایک دیباچہ بھی سفرنامے کی زینت ہے ۔یورپ کے شہروں کی گہما گہمی اور جلوہ سامانی ہو یا مصر کے چھوٹے چھوٹے گروندے روم کی فنی عظمت کے نمونے ہوں یا میکسیکو کے قدرتی مناظر انہوں نے ہر مقام کے بیان میں ایسا انداز اختیار کیا ہے کہ قاری خود کو اس جگہ محسوس کرتا ہے یہی ایک کامیاب سفر نامہ نگار کی نشانی ہے کہ وہ قاری کا ہاتھ پکڑ کر ان مقامات تک لے جاتا ہے جہاں وہ خود گھوما پھرا ہے ۔ اگر محمود نظامی نے مختلف ملکوں اور شہروں کا درمیانی فاصلہ آناً فاناً طے کیا ہے مگر جہاں کہیں انہیں قیام کا موقع ملا انہوں نے شہر وں کی تہذیبی زندگی تاریخی مقامات اور شہروں کے مضافات خصوصاً قاہر ہ روم پیرس اور میکسیکو جیسے شہروں کے معاشرتی حالات کا اچھی طرح چل پھر کر گہری نگاہ سے مشاہدہ کیا ہے ۔
 
ایک سچے سیاح کی طرح انہیں سیاسی اور معاشی تقسیم سے سخت نفرت ہے ۔ اور وہ ہر تعصب سے بالا تر ہو کر کسی جگہ کو دیکھتے ہیں اور بیان کرتے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ اس سفر نامے میں کرداروں کے حوالے سے کوئی شخصیت سامنے نہیں آتی ۔ کیونکہ وہ شخصیات کو پرکھنے کےکی بجائے مناظر قدرت اور مظاہر انسانی کے ذریعے عظیم خالق کی تخلیقات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں ان کے دل میں بے انتہا محبت اور خلوص ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ بنی نوع انسان کی بہتری کی شدید خواہش بھی رکھتے ہیں ، وہ تمام تفریقات ختم کردینا چاہتے ہیں۔ کیونکہ سماجی معاشی اور مذہبی تفریقات بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ اور مصنف نے اس تلخ حقیقت کوبڑی عمدگی سے سفر نامے کا حصہ بنایا ہے۔
 
== مجموعی جائزہ:۔ ==