"گلبرگہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← دار الحکومت، ہو گئے، اور، خود مختار، سے، \1 رہی، سے، \1 رہے
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 67:
}}
 
'''گلبرگہ''' ریاست [[کرناٹک]] کا ایک تاریخی شہر ہے۔یہہے۔ یہ تاریخی شہر گلبرگہ [[بنگلور]] سے 623 کلومیٹراور [[حیدرآباد دکن]] سے 200 سے زائدکلومیٹر ہے۔ یہ آزادی سے قبل حضور[[نظام]] اور[[سلطنت اصفیہ]] کے زیرنگین اورر[[حیدر آباد اسٹیٹ|یاست حیدرآباد]] کا حصہ تھا۔ فارسی میں گل کے معنی پھول کے ہیں اوربرگہ کے کہتے ہیں باغ کو۔ مطلب گلبرگہ پھولوں کے باغ کوکہتے ہیں۔ شاعرانہ زبان فارسی میں گلبرگہ پھول اور پتوں کوبھی کہاجاتاہے۔ ایک روایت یہ بھی ہیکہ پرانے دنوں میں گبرگہ کانام ‘کلابُرگی‘ بھی تھاجسے حالیہ دنوں میں ایک حکومتی فرمان (جی۔او۔جی۔ او۔) کے ذریعہ گلبرگہ کاپرانا نام کالابرگی رکھ دیاگیاہے۔
پہلے گلبرگہ کوگلبرگہ شریف بھی کہاجاتاتھا۔ اس تاریخی شہرمیں قلعہ گلبرگہ بھی واقع ہے۔یہہے۔ یہ قلعہ 0.25 مربع کلومیٹرپرپھیلاہواہے۔اسکلومیٹرپرپھیلاہواہے۔ اس قلعہ کو روزگارڈن پھولوں کاباغ یاگلبرگہ کے طورپرتعمیرکیاگیاتھا۔ یہ بھی کہاجاتاہے کہ ایک زمانے میں اس شہرکے زیادہ ترگھروں میں پھولوں کے باغ ہواکرتے تھے جس سے اس شہرکانام گلبرگہ پڑا۔ اس نام سے شہرکی جاہ وحشمت اوردولتمندی کابھی پتہ چلتاہے۔ ہندوستان کی آزادی کے بعدگلبرگہ لسانی بنیادپرریاستوں کی تنظیم جدید کے تحت ریاست کرناٹک میں چلاگیا۔
 
==تاریخ==
[[File:©India.Karnataka.Gulbarga.Government Museum.JPG|left|thumb|250px|سرکاری میوزیم۔]]
ویسے اس ضلع کی تاریخ کا آغازچھٹی صدی عیسوی سے ہوا۔ [[راشٹراکوٹہ]] نے علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیالیکن جلد ہی [[چالوکیہ خاندان]] اس کو دوبارہ اپنے قبضہ میں لے لیا۔چالوکیہلیا۔ چالوکیہ خاندان کی اس شہرپرتقریبادو سو سال تک حکومت رہی۔پھررہی۔ پھر کالاھریوں نے اسے اپنے کنٹرول میں لیتے ہوئے اس پر بارہویں صدی عیسوی تک حکومت کی۔12ویں صدی کے آخری برسوں میں [[دیواگری]] کے یادوں اور دواراسمدرا کے [[ہویاسالا]] نے چالوکیہ اور کالاچوری.کالاچوری۔ کے اقتدارکوتباہ کر دیا۔انھیدیا۔ انھی دنوں [[ورنگل]] کی [[کاکاتیہ سلطنت|کے کاکاتیہ]] سلاطین آتے ہیں اورگلبرگہ کے ساتھ [[رائچور]] کواپنی سلطنت میں داخل کرتے ہوئے دواضلاع کی تشکیل عمل میں لاتے ہیں۔لیکنہیں۔ لیکن 1321 عیسوی میں تاریخ کاوہ سنہرادوربھی شروع ہوتاہے جس میں سلاطین دہلی کی آمدہوتی ہے۔سلاطینہے۔ سلاطین دہلی گلبرگہ رائچورسمیت پورے [[سطح مرتفع دکن]] پرقبضہ کرتے ہوئے قانون کی بالادستی قائم کیا۔ اس طرح شہرگلبرگہ پہلی مرتبہ مسلم ریاست کے زیراقتدار آتا ہے۔
 
===بہمنی سلطنت===
[[بہمنی سلطنت]] جنوبی ہندوستان کے علاقے [[دکن]] میں پہلی آزاد اسلامی مملکت تھی۔ بہمنی سلطنت کوقرون وسطی کی عظیم سلطنتوں میں شمارکیاجاتاہے۔ علاو الدین حسن بہمن شاہ اس سلطنت کابانی ہے۔ علاو الدین حسن بہمن شاہ نے سلطان محمد بن تغلق سے بغاوت کی تھی۔جستھی۔ جس کے بعدسلطنت دہلی کاباغی نذیرالدین اسماعیل شاہ نے ظفر خان کے حق میں دستبرداری اختیارکرلی۔جساختیارکرلی۔ جس کے بعدظفرشاہ علاو الدین حسن بہمن شاہ کے خطاب سے تخت نشین ہوا۔یہہوا۔ یہ سلطنت دہلی سلطنت کے جنوبی صوبوں میں ایک تھی۔بہمنیتھی۔ بہمنی سلطنت کوجنوبی ہندکی ہندوریاست وجئے نگراسے سخت مقابلہ تھا۔1466-1481 کے بیچ محمودگاواں کے دوران وزارت بہنمی سلطنت کوعروج حاصل ہوا۔1518 کے بعدیہ مملکت پانچ ریاستوں میں بٹ گئی۔جنگئی۔ جن میں احمد نگر کی نظام شاہی۔گولکنڈا کی قطب شاہی۔بیدرکیشاہی۔ بیدرکی بَرِیدشاہی،برار کی عمادشاہی۔اوربیجاپورعمادشاہی۔ اوربیجاپور کی عادل شاہی شامل ہے۔انہے۔ ان سب ریاستوں کومجموعی طورپردکن کی سلطنتیں کہاجاتا ہے۔
 
===دکن کی ریاستیں===
تیرہویں صدی عیسوی میں سلطنت دہلی کمزورہوجاتی ہے جس کے باعث چھوٹی چھوٹی خود مختاراورازاد ریاستیں وجودمیں ائیں۔ ان ریاستوں میں بہمنی سلطنت بھی شامل رہی.رہی۔ 1347عیسوی میں حسن گنگو نے بہمنی سلطنت کاقیام عمل میں لایا۔ حسن گنگو نے اس وقت کے احسن اباد موجودہ گلبرگہ کو دار الحکومت بنایا (احمد شاہ ولی بہمنی نے 1424ء میں بیدر کواپنا پایہ تخت بنایا.بنایا۔ ) لیکن دیگرسلطنتوں کی طرح بہمنی سلطنت کا بھی ایک دن خاتمہ ہونا تھا اور ہوا۔ 1428عیسوی میں (1518ء میں پایہ تخت بیدر رکھنے والی )بہمنی سلطنت کا خاتمہ ہوا اور اس سلطنت کے کھنڈر سے پانچ ریاستیں ہندوستان کے نقشہ پرابھر ائیں۔ یہ ریاستیں ۔ریاستیں۔ بیدر۔ برار۔ بیجاپور۔احمدنگربیجاپور۔ احمدنگر اور گولکنڈہ ہیں۔ ان دنوں گلبرگہ کا کچھ حصہ سلطنت بیجاپوراورسلطنت بیدرکے زیرنگین تھا۔(تاریخی حقاءق کچھ اور ہیں ) آخرمیں ان سلطنتوں کو1687 میں مغل سلطان اورنگ زیب عالمگیر نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔
 
===سترہویں صدی سے 1956 تک===
[[مغلیہ سلطنت]] کے فرماں روا اورنگ زیب عالمگیرؒ کی جانب سے 17 صدی میں دکن کی فتح کے ساتھ، گلبرگا مغلیہ سلطنت میں داخل ہو گیا۔لیکنگیا۔ لیکن اٹھارویں صدی عیسوی میں مغلیہ سلطنت کا زوال ہو گیا۔اٹھارویںگیا۔ اٹھارویں صدی کے ابتدائی برسوں میں اورنگزیبؒ کے جنرل آصف جاہ گولکنڈہ کی خود مختاری کااعلان کر دیا۔اسدیا۔ اس طرح آخرکاریہ شہرریاست حیدرآباد میں داخل ہو گیا۔1947 میں ہندوستان کوآزادی حاصل ہوئی اور1948 میں ریاست حیدرآبادکاانڈین یونین میں انضمام ہو گیا۔لیکنگیا۔ لیکن 1956میں آندھرا پردیش سے گلبرگا کو الگ کر نیومیسور اسٹیٹ میں شامل کر دیاگیا۔
 
==آبادیات==
سطر 102:
==تاریخی عمارتیں==
 
اب ڈالتے ہیں گلبرگا کے تاریخی عمارتوں پرایک نظر۔گلبرگہ میں بہمنی سلاطین کاقدیم اورخستہ حال قلعہ بھی ہے۔لیکنہے۔ لیکن اس قلعہ میں کئی دلکش عمارتیں بھی ہیں۔جنہیں۔ جن میں جامع مسجد گلبرگابھی شامل ہے۔اسہے۔ اس قلعہ میں 15 میناربھی ہیں۔ گلبرگامیں بہمنی سلاطین کے گنبدیں بھی ہیں۔ گلبرگہ میںسریمیں سری کشیترا گھاناپور مندر ہے۔ سدھارتھ ٹرسٹ کا بُدھا وہار بھی ہے۔ ٹینک بند روڈ پر شاراناباساویشور گارڈن ہے۔ ساتھ ہی اس شہرمیں گلبرگہ یونیورسٹی بھی علم کے چراغ روشن کر رہی ہے۔
 
===قلعہ گلبرگہ===
[[ملف:Gulbarga Fort..jpg|تصغیر|قلعہ گلبرگہ]]
[[قلعہ گلبرگہ]] کوسب سے پہلے سلطنت ورنگل کے حمکراں راجہ گول چندنے تعمیر کیاتھا۔لیکنکیاتھا۔ لیکن بعد میں سلاطین دہلی سے علاحدگی کے بعد قلعہ گلبرگہ کو 1347 میں بہمنی حکمراں علاءالدین بہمنی نے توسیع کی۔دارکی۔ دار الحکومت کو یادگاربنانے کے لیے اس قلعہ میںشاندارمساجد،محلات،میں شاندارمساجد،محلات، گنبدیں، اوردیگر عمارتیں تعمیرکی گئیں۔جسگئیں۔ جس میں خوبصورت جامع مسجدبھی شامل ہے۔گلبرگہ 1327 سے 1424ءتک بہمنی سلطنت کادارالحکومت رہا۔لیکنرہا۔ لیکن بہترموسمی حالات اورپرفضاماحول کی وجہ سے 1424 کے بعدبہمنی سلطنت کے دار الحکومت کوقلعہ بیدرمیں منتقل کر دیاگیا۔
 
===جامع مسجد===
[[ملف:Great Mosque in Gulbarga Fort..jpg|تصغیر|جامع مسجد گلبرگہ]]
قلعہ گلبرگہ کی بات قلعہ کی جامع مسجدکے ذکربغیرادھوری رہتی ہے۔قلعہہے۔ قلعہ گلبرگہ میں واقع جامع مسجدکوایک مورش معمارنے تعمیرکیاہے۔یہتعمیرکیاہے۔ یہ مسجدچودہویں یاپندرہویںصدییاپندرہویں صدی کے دوران تعمیرکی گئی ۔جامع۔ جامع مسجد کواسپین کی ریاست قرطبہ میں موجود عظیم مسجد کی مشابہت رکھتی ہے۔ اس مسجدکو کیتھڈرل مسجدِ قرطبہ بھی کہاجاتاہے۔ گلبرگہ کی جامع مسجدہندوستان کی منفردمساجدمیں سے ایک ہے۔مسجدکےہے۔ مسجدکے مغربی کنارے ایک بڑاگنبد ہے جومسجدکے ایک بڑے حصے کوگھیرے ہوئے ہے۔جبکہہے۔ جبکہ مسجدکے چاروں اطراف واقع چھت کواوسط اورچھوٹے سائز کے گنبدوں سے خوبصورت بنایاگیاہے۔مسجدکےبنایاگیاہے۔ مسجدکے داخلے کے لیے موجودچاروں اطراف کے راستوں کی چھتوں پربھی 63 گنبدیںہیں۔گنبدیں ہیں۔ جامع مسجد گلبرگا کے مہراب کاڈیزائن حیدرآبادکے بیگم پیٹ میں واقع ہسپانوی مسجد کے اندرونی ڈیزائن کی شبیہ پیش کرتاہے۔ہندوستانکرتاہے۔ ہندوستان میں اس ڈیزان کی صرف یہ دومسجدیں ہیں۔گلبرگہ کی جامع مسجدساﺅتھ ایشیاکی شاندارمسجدشمارکی جاتی ہے۔اسہے۔ اس تاریخی مسجدکو(1358 سے 75کے بیچ تعمیرکیاگیاتھا۔جامعتعمیرکیاگیاتھا۔ جامع مسجدکی تعمیرمحمد شاہ اول نے اپنے دار الحکومت کومیں کروائی تھی۔مسجدکامرکزیتھی۔ مسجدکامرکزی دروازہ یعنی سنٹرل گیٹ شمال میںواقعمیں ہے۔مسجدکیواقع ہے۔ مسجدکی بیرونی دیواریں محراب دا رہیں۔جسرہیں۔ جس سے ضروری روشنی اورصحن کی تازہ ہوا فلٹرہوکرمسجدمیں داخل ہوتی ہیں۔ مسجدکے اندرونی ستونوں پرکوئی نقش ونگارنہیں ہے ان ستونوں کوسفیدچونے سے رنگاگیاہے۔ ہال میں کھڑے ہوئے یہ وسیع ستون مسجدکی فضاکوخوبصورت اورروحانی بناتے ہیں۔
 
==حضرت [[خواجہ بندہ نواز]] گیسو دراز==
[[File:Gulbarga-Dargah.JPG|thumb|حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کا آستانہ۔]]
گلبرگہ کوگلبرگہ شریف بھی کہاجاتاہے۔شایداسکہاجاتاہے۔ شایداس کی وجہ شہرمیں موجودصوفیااکرام کے مزرات ہیں۔شہرمیںہیں۔ شہرمیں کئی بزرگوں مزرات ہیں اوران مزرات پرشاندارگنبدوں کی تعمیرکے ذریعہ بادشاہان وقت نے بزرگوں سے اپنی عقیدت کااظہارکیاہے۔مشہورکااظہارکیاہے۔ مشہور درگاہوں میں سے ایک شہنشاہ دکن حضرت خواجہ بندہ نوازگیسودراز کی درگاہ ہے۔حضرتہے۔ حضرت [[خواجہ بندہ نواز]] گیسودراز سلسلہ چشتیہ کے مشہور صوفی بزرگ ہیں۔ملکہیں۔ ملک وبیرون ملکوں سے ہرسال ہزاروں زائرین عرس شریف میں شرکت کرتے ہیں۔وہہیں۔ وہ سلطان تاج الدین فیروز شاہ کی دعوت پر 1397 میںگلبرگہ تشریف لائے۔نومبرلائے۔ نومبر 1422ء اپ کا وصال ہو گیا۔ حضرت بندہ نوازگیسودراز کانام سیدمحمدتھا۔اپسیدمحمدتھا۔ اپ خواجہ بندہ نوازاورخواجہ گیسودرازکے نام سے معروف ہوئے۔اپہوئے۔ اپ حضرت شیخ نصیرالدین چراغ دہلی کے سجادہ نشین تھے۔اپتھے۔ اپ کاخاندانی شجرہ امام حسین سے ہوتے ہوئے حضرت علی سے ملتاہے۔ حضرت بندہ نواز سید یوسف حسینی عرف سید راجا کے گھرانہ میں پیداہوئے۔ چارسال کی عمرمیں اپ کے اباجان سلطان محمد تغلق کے دورمیں دیوگیرمنتقل ہو گئے۔ پندرہ سال کی عمرمیں خواجہ صاحب نے حضرت چراغ الدین دہلی میں بیعت کی۔ یہ 736 ہجری کی بات ہے۔ انیس سال کی عمرمیں شرعی علوم سے فارغ ہوئے۔ پرعلوم باطن کے لیے زبردست ریاضت کی۔حضرتکی۔ حضرت چراغ دہلوی نے انتقال کے وقت سیدگیسودراز اپناجانشین منتخب کیا۔جبکیا۔ جب اپ گلبرگہ تشریف لائے توسلطان فیروزشاہ نے اپنے خاندان والوں۔امیروں۔والوں۔ امیروں۔ دربارکے علمااورشاہی لشکرکے ساتھ شہرکے باہراستقبال کیا۔تویہکیا۔ تویہ تھی حضرت کی شان۔اسشان۔ اس کے علاوہ شہراورشہرکے اطراف کئی بزرگوں کے چھوٹے بڑے مزارات اور درگاہیں موجودہیں۔
 
==جغرافیہ ==
تاریخی ضلع گلبرگہ دکن کے سطح مرتفع یعنی سطح مرتفع پر واقع ہے۔ یہ شہر دو اہم دریاوں، [[دریائے کرشنا]] اور دریائے بھیما سیراب ہوتاہے۔اسہوتاہے۔ اس ضلع کی مٹی تقریباسیاہ ہے۔ضلعہے۔ ضلع میں ابپاشی کے کئی ذخائ رہیں۔ بالیٰ کرشنا پروجکٹ ضلع کااہم پراجیکٹ ہے۔ [[جوار]]، [[مونگ پھلی]]، [[چاول]] اور [[دال]] یہاں کی اہم فصلیں ہیں۔ [[تور]] کی دال کے لیے گلبرگہ کرناٹک بھرمیں مشہو رہے۔ صنعتی اعتبارسے گلبرگہ پسماندہ ضلع ہے۔ [[سیمنٹ]]، ٹیکسٹائل، چمڑے اور کیمیکل صنعتوں میں ترقی کے آثا رہیں۔ تعلیمی اعتبارسے یہ شہرملک میں اہم مقام رکھتاہے۔ شہرمیں گلبرگہ یونیورسٹی ہے اوردومیڈیکل کالجس ہیں۔ مہادیوپا رامپورے میڈیکل کالج اور کے۔بی۔ین۔کے ۔ بی۔ ین۔ میڈیکل کالج۔اسیکالج۔ اسی طرح گلبرگہ میں تین ڈینٹل کالجزہیں۔جبکہکالجزہیں۔ جبکہ 6 انجینئری کالجس طلبہ کوفنی تعلیم سے اراستہ کر رہے ہیں۔
==موسم==
محتلف موسموں میں درجہ حرارت کچھ یوں ہے: