"نظرنامہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 46:
== وطن کی یاد:۔ ==
 
محمود نظامی کی بحیثیت سفر نامہ نگار یہ بڑی خوبی ہے کہ وہ ہر شہر کوایک سچے سیاح کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن چشم تصور میں وطن عزیز کے گلی کوچے ان کی یادوں میں روشن دیکھے جا سکتے ہیں وہ بظاہر موجودہ منظر سے منسوب ہے ۔ہے۔ وطن کی یاد کو پورے سفر نامے میں نہ صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ کئی مثالوں کو بطور نمونہ پیش کیا جا سکتا ہے۔
 
” روم میں، میں نے کئی مناظر ایسے دیکھے اور کئی ایسی کیفیات سے دوچار ہوا جنہوں نے لاہور اور پنڈی کی یاد سے مجھے تڑپایا میں نے دیکھا کہ روم میں آسمان کی پیلاہٹ اس قدر گہر ی، دھوپ اتنی ہی شفاف اور زمین ایسی ہی سرسبز تھی جو لاہور میں نظرآتی ہے۔“
سطر 69:
اپنی بھر پور شخصیت کے پورے اظہار کے ليے زبان و قلم کی بے ساختگی اور روانی کے ساتھ اُن کے حصے میں آئی تھی بولتے تو سننے والوں کے کان آنکھیں بن کر رہ جاتے۔ لکھتے تو قلم سے موقلم کا کام لیتے ۔“
 
نظر نامے کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیاہے بازار مصر، روم نامچہ، برسبیل تذکرہ، سب طلوع پیرس، بلاخر میکسکو اس کے علاوہ عذر گناہ کے عنوان سے ایک دیباچہ بھی سفرنامے کی زینت ہے ۔ہے۔ یورپ کے شہروں کی گہما گہمی اور جلوہ سامانی ہو یا مصر کے چھوٹے چھوٹے گروندے روم کی فنی عظمت کے نمونے ہوں یا میکسیکو کے قدرتی مناظر انہوں نے ہر مقام کے بیان میں ایسا انداز اختیار کیا ہے کہ قاری خود کو اس جگہ محسوس کرتا ہے یہی ایک کامیاب سفر نامہ نگار کی نشانی ہے کہ وہ قاری کا ہاتھ پکڑ کر ان مقامات تک لے جاتا ہے جہاں وہ خود گھوما پھرا ہے۔ اگر محمود نظامی نے مختلف ملکوں اور شہروں کا درمیانی فاصلہ آناً فاناً طے کیا ہے مگر جہاں کہیں انہیں قیام کا موقع ملا انہوں نے شہر وں کی تہذیبی زندگی تاریخی مقامات اور شہروں کے مضافات خصوصاً قاہر ہ روم پیرس اور میکسیکو جیسے شہروں کے معاشرتی حالات کا اچھی طرح چل پھر کر گہری نگاہ سے مشاہدہ کیا ہے۔
 
ایک سچے سیاح کی طرح انہیں سیاسی اور معاشی تقسیم سے سخت نفرت ہے۔ اور وہ ہر تعصب سے بالا تر ہو کر کسی جگہ کو دیکھتے ہیں اور بیان کرتے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ اس سفر نامے میں کرداروں کے حوالے سے کوئی شخصیت سامنے نہیں آتی۔ کیونکہ وہ شخصیات کو پرکھنے کی بجائے مناظر قدرت اور مظاہر انسانی کے ذریعے عظیم خالق کی تخلیقات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں ان کے دل میں بے انتہا محبت اور خلوص ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ بنی نوع انسان کی بہتری کی شدید خواہش بھی رکھتے ہیں، وہ تمام تفریقات ختم کردینا چاہتے ہیں۔ کیونکہ سماجی معاشی اور مذہبی تفریقات بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ اور مصنف نے اس تلخ حقیقت کوبڑی عمدگی سے سفر نامے کا حصہ بنایا ہے۔