"مملکت یونانی ہند" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
درستی املا, اضافہ مواد, غیر ضروری مواد کا اخراج
سطر 32:
|}
 
[[اوتیدم اول]] نے '''آل دیودوت''' کی جگہ [[سلطنت یونانی باختر]] میں لینے کے بعد شمالی ہندوستان پر حملے شروع کیے اور اس کے بعد اس کا بیٹا [[دیمتریوس اول]] نے اپنی ریاست کو شمالی ہندوستان میں فتوحات کے ذریعذریعے وسیع کیا- مگر جب وہ مزید ہندوستان میں آگے بڑہابڑھا تو پیچھے سے [[اوکراتید میغاس]] نے بغاوت کی اور [[سلطنت یونانی باختر]] کے تخت پر قبضہ کر لیا- [[دیمتریوس اول]] کے پاس جو شمالی ہندوستان کے علاقے بچےبچےعلاقے کو '''مملکت يونانی ہند''' میں تبدیل کر دیا- اس نئی مملکت کے 30 عدد بادشاہ آئے اور گئے اور عموماً ایک دوسرے سے لڑتے اور جھگڑتے رہتے-
 
'''مملکت يونانی ہند''' کا نام بعد میں دراصل کئی مختلف یونانی ریاستوں کو کہا جانے لگا جن کی اپنے اپنے دار الحکومت تھے جیسے [[کاپيسا]]، [[ٹیکسلا]]، [[سرکپ]]، [[سیالکوٹ|ساگالہ]] اور [[پشکالاوتی]]- یہ ریاستیں کبھی ایک دوسرے پر حاوی ہو جاتیں تو کبھی ایک ہوکر کسی خارجی دبا‍‌‎ؤ کا مقابلہ کرتیں- اپنے اقتدار کے دو صدیوں کے دوران، انہوں نے یونانی اور ہندوستانی زبانوں اور علامات کو ملا کر استعمال کیا جیسا کے ان کے سکوں میں آج بھی دیکھا جاسکتا ہے- ان کے علاقے قدیم یونانی، [[بدھ مت]] اور [[ہندومت|ہندو مت]] کے مذہبی رسومات کا مرکب بنے، جیسا کہ ان کے شہروں کے آثار قدیمہ کی باقیات میں دیکھا جاتا ہے اور [[بدھ مت]] کی خصوصاً حمایت کا اشارہ بھی ان میں ظاہر ہے-
سطر 40:
 
==ابتدئی تاریخ==
باختریہ جس کا دار الحکومت بلخ تھا اور وہاں کی بغاوت کی قیادت ڈیوڈیٹسڈیوڈوٹس جو یونانی نژاد تھا کر رہا تھا۔ اس نے سغدیہ اور مرو کو متحد کر لیاِ اور سلوکیوں کا جوا اتار پھینکا۔ ادھر پارتھیا نے بھی بغاوت کردی، اس کی قیادت ایک مقامی سردار ارشک کر رہا تھا۔ اس بغاوت کو سرد کرنے کے لیے انٹی گوس دوم نے اپنے بھائی سلوکس سوم کے ساتھ مل کر 237 ق م میں پارتھیا پر چڑھائی کی اور بلخ کے حکمران ڈیوڈوٹس سے معاہدہ کرکے اسے بھی پارتھیا پر حملہ کرنے کے لیے راضی کر لیا۔ لیکن ڈیوڈوٹس فوت ہو گیا، ارشک نے موقع کو غنیمت جان کر کے اس کے بیٹے کر کے ڈیوڈوٹس دوم سے اتحاد کر لیا اور اس کو سلوکیوں سے مقابلہ کرنے کے لیے آمادہ کر لیا جس کی وجہ سے سلوکس کو راہ فرار اختیار کرنی پڑی۔
==عروج==
ڈیوڈوٹس کو ایک اور یونانی سردار یوتھی ڈیمس Ueothidemes نے شکست دی۔ اسے بھی نئے حکمران انطیوکس اعظم (223 تا 187 ق م) سے لڑنا پڑا۔ جس نے ایک طویل مقابلے کے بعد باختریہ کی خود مختیاریمختاری تسلیم کرلی۔ انطیوکس یوتھی ڈیمس کے بیٹے ڈیمتریوس Demetrues سے جو باپ کی طرف سے صلح کی گفت و شنید کر رہا تھا اس قدر متاثر ہوا کے اپنی بیٹی کی شادی اس سے کردی۔
یوتھی دیمس ایک طول عرصہ حکومت کے بعد 190 ق م میں وفات پائی۔ اس کا بیٹا ڈیمتریوس اس کا جانشین ہوا جس کی شہرت پہلے ہی دور تک پھیل چکی تھی۔ اس نے اپنی سلطنت مستحکم کرنے کے لیے وادی کابل پر حملہ کر کے پنجاب وسندھ کے بعض علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ لیکن اسے اپنے ہندی مقبوضات کی بڑی قیمت دینی پڑی۔ کیوں کیکہ اس کی عدم موجودگی ایک اور یونانی سردار یوکراٹائی یز Eucratsevess نے اس کے پایہ تخت بلخ پر قبضہ کر لیا۔ ڈیمتریوس نے اپنے ہندی مقبوضات اپنے قبضہ میں رکھے اور سنگالہ Singala (سیالکوٹ) کو اپنا دارلحکومت بنالیا اور اس کے بعد وہ ہندیوں کا بادشاہ کہلانے لگا۔
ڈیمتریوس کو بعد میں یوکراٹائی یز سے مقابلہ کرنا پڑا کیوں کے اس نے اپنی سلطنت کی حدودیں پنجاب تک بڑھا لیں۔ اس لڑائی میں ڈیمتریوس مارا گیا مگر یوکراٹائی یز کی کامیابی بھی دیر پا ثابت نہیں ہوئی اور وہ جب واپس جا رہا تھا کہ راستہ میں اس کے بیٹے ہیلو کلیز Heloclies نے اسے قتل کر دیا اور بعد میں اس پدر کش حکمراں کے دور میں باختر پر ساکاؤں نے قبضہ کر لیا اور یونانیوں نے بھاگ کر ہندی علاقوں میں پناہ لی۔ اس طرح پنجاب اور کا بل میں ڈیمتریوس اور یوکراٹائی یزکے خاندان کی حکومتیں علیٰ ترتیب قائم ہوئیں۔ سکوں پر ہمیں ڈیمتریوس خاندان کے کئی حکمرانوں کے نام ملتے ہیں۔ ان میں ایک انتالکیداس ہے جس کا ذکر ہمیں بیس نگر کے کتبہ میں ملتا ہے اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کے سفیر جو سنگ حکمران بھگا بھدرا کے دربار میں بھیجا گیا تھا وہاں اس نے ایک ستون پر بنوایا تھا۔ اس کتبے سے ظاہر ہے کہ یاونا (یونانی) حکمرانوں نے برصغیر کی ریاستوں سے سیاسی رشتہ جوڑ لیے، بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان حکمرانوں نے بعد میں مقامی مذاہب بھی ختیار کرلیے تھے۔ کیوں کہ سفیر مذکورہ کا نام بہگوت کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس یونانی خاندان جس نے برصغیر کے سرحدی علاقوں پر حکومت کی ان میں ہرمیوسس Hermioses آخری تھا۔
یوتھی دیمس کے خاندان میں اپالو دوٹس Apalodotes اور منیانڈر Menander کے نام ادب میں اب تک موجود ہیں۔ غالباََ اپالو دوٹس کے عہد میں اس خاندان کا اقتدار مشرقی افغانستان سے ختم ہوا۔ منیانڈر کا نام نسبتاََ زیادہ مشہور ہے، کیوں کہ بدھ مت کی کتاب ’ملندا ہنہا‘ (ملندا کے سوالات) میں ملندا درحقیقت منیانڈرا کا نام ہے۔ یہ کتاب بزرگ سین اور منیانڈر Menander کے سوالات اور جوابات کی شکل میں ہے، اس کانتیجہ یہ نکلا کہ منیانڈر نے بدھ مذہب قبول کر لیا۔ منیانڈر کا دور طویل اور خوش حال تھا۔ جس حکمران نے مگدھ پر حملہ کیا وہ غالباََ منیانڈر ہی تھا۔