"ایمان بالقدر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 1:
{{ایمان}}
یہ عقیدہ کہ انسان کے تمام اعمال و افعال خدا کی طرف سے پہلے سے طے کردہ ہوتے ہیں بہت قدیم ہے۔ اس عقیدے کے آثار [[سمیری]]، [[مصر]]ی اور اشوری تہذیبوں میں بھی ملتے ہیں۔ ان قوموں کے عقیدہ کے مطابق انسان بالکل مجبور ہے اور خدا نے نیکی، بدی، خوش حالی، مفلسی پہلے سے انسان کے لیے طے کر رکھی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔
 
== اسلام میں عقیدۂ تقدیر ==
سطر 7:
 
=== 1. جبریہ کا عقیدہ ===
[[واصل ابن عطا]] [[جبریہ]] فرقے کا بانی تھا۔ اس کے عقیدہ کے مطابق انسان اپنے ہر عمل میں تقدیر کا پابند ہے اور وہ جو کچھ کرتا ہے اپنی تقدیر کی وجہ سے وہ سب کرنے پر مجبور{{زیر}} محض ہے۔
 
:نتیجہ: انسان اپنے کسی بھی عمل کا حساب دینے کا پابند نہیں، خواہ وہ اس نے کسی بھی وجہ سے کیا ہو۔
 
=== 2. قدریہ کا عقیدہ ===
[[جہم بن صفوان]] [[قدریہ]] فرقے کا بانی تھا۔ اس کے عقیدہ کے مطابق انسان اپنے ہر عمل میں آزاد اور خود مختار ہے اور وہ جو کچھ کرتا ہے سب اپنی مرضی سے کرتا ہے۔
 
:نتیجہ: انسان اپنے ہر عمل کا حساب دینے کا پابند ہے، خواہ وہ اس نے کسی بھی وجہ سے کیا ہو۔
 
=== 3. معتدل عقیدہ ===
[[جبریہ]] اور [[قدریہ]] کے برخلاف [[اشاعرہ]] اور [[ماتریدیہ]] کا مسلک متوازن ہے۔ ان کے مطابق انسان اپنے بعض اعمال میں مجبور ہے اور بعض میں مختار ہے۔
 
:نتیجہ: انسان اپنے انہی اعمال کا حساب دینے کا پابند ہوگا جو وہ اپنی رضا و رغبت سے کرتا ہے۔ مجبوری میں کیے جانے والے اعمال کی بابت اس سے باز پرس نہیں ہو گی۔
 
=== ایک مثال ===
سیدنا [[علی ابن ابی طالب]]{{رض}} سے کسی نے جبر و قدر بارے سوال کیا تو آپ نے بڑی سادہ مثال سے اسے واضح فرمایا۔ وہ آدمی کھڑا تھا۔ آپ نے اسے فرمایا: ’’اپنا دایاں پاؤں زمین سے اٹھاؤ‘‘۔ اس نے اٹھا لیا تو آپ نے فرمایا: ’’اب دوسرا پاؤں بھی اٹھاؤ‘‘۔ اس نے کہا اس طرح تو میں گر جاؤں گا۔ آپ نے فرمایا: ’’انسان ایک وقت میں ایک پاؤں اٹھانے پر مختار ہے اور ایک ساتھ دونوں پاؤں نہ اٹھا سکنے پر مجبور ہے۔ ‘‘ یہی راہ{{زیر}} اعتدال ہے۔
 
== قضا کا مفہوم ==
سطر 45:
== تقدیر حدیث کی رو سے ==
 
بہت سی احادیث میں بھی اس مسئلہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
 
{{اقتباس|’’اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال قبل تمام مخلوقات کی تقدیریں لکھ دی تھیں، یہ تب کی بات ہے جب اس کی حکمرانی پانی پر تھی۔‘‘<ref>مسلم، الصحيح، 4 : 2044، کتاب القدر، باب حجاج آدم و موسیٰ، رقم : 2653</ref>}}
سطر 64:
’’(فرشتوں نے کہا:) اے ابراہیم! اس (بات) سے درگزر کیجئے، بیشک اب تو آپ کے رب کا حکمِ (عذاب) آچکا ہے، اور انہیں عذاب پہنچنے ہی والا ہے جو پلٹایا نہیں جا سکتا۔‘‘}}
 
چونکہ یہ عذاب قضائے مبرم حقیقی تھا اس لیے نہ ٹل سکا۔
 
=== 2. تقدیر مبرم غیر حقیقی ===
سطر 88:
== سیدنا عمر {{رض}} کا عمل ==
 
سیدنا [[عمر ابن الخطاب|عمر]] رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام میں طاعون کی وبا پھیلی اور اس زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی [[شام]] کے سفر پر تھے۔ وباء کی وجہ سے انہوں نے وہاں سے نکلنے میں جلدی کی تو حضرت [[ابوعبیدہ ابن الجراح|ابوعبیدہ]] رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
 
{{اقتباس|{{ٹ}}{{ع}}أتَفِرُّ مِنْ قَدْرِ اﷲِ{{ڑ}}{{ن}}؟
سطر 94:
’’کیا آپ تقدیر سے بھاگتے ہیں؟‘‘}}
 
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب دیا:
 
{{اقتباس|{{ٹ}}{{ع}}أفِرُّ مِنْ قَضَاء اﷲ اِلٰی قَدْرِ اﷲِ{{ڑ}}{{ن}}<ref>ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 283</ref>
سطر 100:
’’میں اﷲ کی قضا سے اس کی قدر کی طرف بھاگتا ہوں۔‘‘}}
 
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر [[طاعون]] جیسا مرض کسی علاقے میں [[عدوی|وباء]] کی صورت میں پھیل جائے اور میں کسی دوسرے علاقے میں پہنچ کر اس مرض سے بچ جاؤں تو میرا بچ جانا خدا کی تقدیر یعنی علم میں ہوگا۔
 
== خلاصہ ==