"علی بن ابی طالب البلخی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 19:
 
== نسب ==
ابو الحسن [[علی بن ابی طالب]] الحسن نقیب [[بلخ]] بن ابی علی عبید اللہ بن ابی الحسن محمد الزاہد بن ابی علی عبید اللہ نقیب [[ہرات]] بن ابی القاسم علی نقیب [[بلخ]] بن ابی محمد الحسن بن الحسین بن جعفر الحجہ بن عبید اللہ الاعرج بن الحسين الاصغر بن [[زین العابدین|علی]] بن [[حسین ابن علی|الحسین]] بن [[علی بن ابی طالب|علی]]<ref>عمدة الطالب في أنساب آل أبى طالب تأليف: جمال الدين أحمد بن علي الحسيني المعروف بابن عنبة المتوفى سنة 828 هجرية الطبعة الثانية 1380هـ - 1960م عنى بتصحيحه محمد حسن آل الطالقاني منشورات المطبعة الحيدرية في النجف الاشرف، مادة ذرية جعفر الحجة.</ref> بن [[ابو طالب بن عبد المطلب|ابی طالب]] اور والدہ ریطہ بنت الحسن کا نسب [[محمد بن حنفیہ]] بن علی بن ابی طالب سے جا ملتا ہے۔<ref>الجامع لصلة الأرحام في نسب السادة الكرام من الإمامين الحسن والحسين (مجلدات اربعة) إعداد: الشريف احمد وفقي بن محمد ياسين المحاسب بالجهاز المركزي للمحاسبات بمصر مراجعة وتحقيق: الدكتور عبد الفتاح أبو سنة عضو المجلس العلمى للشؤون الإسلامية،ج2،ص65</ref><ref>بهجة الحضرتين تأليف محمد الصيادي تحقيق المجموعة: عارف أحمد عبد الغني نسابة بلاد الشام الشريف عبد الله بن حسين السادة (قطر - الدوحة) الناشر: دار كنان - دمشق / الدوحة ص.ب 8878</ref><ref>ابن عنبة الحسني ، عمدة الطالب في انساب ابي طالب ، ص 303</ref>
 
==آپ کا زمانہء حیات==
سطر 38:
==آپ کے بعض حالاتِ زندگی==
 
آپ ساداتِ حنفیہ و ماتریدیہ میں اعلیٰ مرتبت کے حامل تھے ۔ خاص طور پر فاضل کی موجودگی میں مفضول کی امامت کے مسئلہ پر آپ کا قول معروف ہے۔ آپ شاعر بھی تھے نثر نگار بھی' زاہد بھی تھے عابد بھی ۔ مشربِ تصوف کے عامل تھے۔ آپ کا شمار بلخ اور اقلیمِ خراسان کے ان ساداتِ کرام میں ہوتا تھا جنکی وہاں کے عوام میں بڑا مقام و منزلت تھی۔ "شاہِ مردان" کے لقب سے معروف تھے۔ اور سلجوقی امراء مثلاً [[الپ ارسلان]] اور اس کے بیٹے جلال الدولہ ملک شاہ ' وزرائے سلطنت مثل نظام الملک وغیرہ کے سفیر رہے جنہیں اپنی سرکاری مہمات و وفود میں آپ پر کامل اعتماد تھا۔ آپ نے بغداد' دمشق' قاہرہ اور ہندوستان کا سفر کیا اور ان ممالک کے بادشاہوں اور عوام میں آپ یکساں طور پر محترم تھے۔ آپ نے کتاب "فضائلِ بلخ" تصنیف کی۔ بغداد کے مدرسہء نظامیہ میں حنفی اور شافعی فقہ کے استاد رہے اور ایک عرصہ تک وہاں خدمات انجام دیں آپ کی ریشِ مبارک نہایت کثیف و حسین تھی۔ شجاعت و قوتِ قلبی اورپہلوانی میں اپنے والد کی مانند شجیع تھے۔ آپ خواجہ خیران نامی گاؤں میں بہت مشہور تھے جو آجکل "مزارِ شریف" کے نام سے موسوم ہے اور خراسان میں بلخ سے چند میل کی دوری پر واقع ہے ۔ آپ نے دو دفعہ حجِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور ایک دفعہ "ہرات" کا سفر کیا جہاں کے بادشاہ نے آپ کا نہایت احترام کیا۔ اس کے علاوہ بھی آپ نے متعدد سفر کئے جن میں سمرقند؛ ریورتون؛ سمنان؛ مرو؛ طوس ؛ تایباد' قزل رباط؛ کیش شامل ہیں۔ آپ کے عوام النّاس سے بہترین تعلقات تھے اور انکے دلوں میں آپ کا رعب تھا اور آپ تمام فرقوں میں اپنے زہد و تقویٰ کے باعث محبوب تھے۔
 
معروف عالم أبو الحسن علي بن أبي طالب بن عبيد الله البلخي الباخرزي نے اپنی کتاب "دمية القصر وعصرة أهل العصر" میں آپ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ آپ اشرف السادات اور صاحبِ فضیلت تھے اور اس عظیم الشان سلطنت کی ایک شاخ اور اس ہوادار شجر کے ایک پھول تھے۔میں نے شیخ ابو عمرو کو دیکھا ہے کہ وہ اپنے چچا کی خدمت میں انکے شعر سناتے تو ان کے چہرے پر مسرت کی لہر دوڑ جاتی اوران کی زبان اس خزینہء فضل و رحمت کے چھلکتے پیالے پر حمد و شکر میں مشغول ہوجاتی جس کے باعث انہیں یہ شرف و منزلت حاصل تھی۔ میں نے کتاب "قلاید الشرف" میں آپ سے منسوب حسبِ ذیل نطم دیکھی ہے جس کے متعلق میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ آپ پر اللہ سبحانہ تعالیٰ کی کی خاص نظرِ عنایت ہے:
سطر 72:
 
علي بن أبي طالب البلخي کی وفات سن 485 ہجری مطابق 1092 عیسوی میں ہوئی۔<ref>30. "مزار الشريف والضريح: جدلية الأسطورة والتاريخ: ملامح سيرة علي بن أبي طالب البلخي" ۔ ڈاکٹر جمال الدين الكيلاني، "الفكر الحر" میگزین، 2011</ref> اور آپ بلخ میں مدفون ہوئے<ref>42. ڈاکٹر.بكر السامرائي ۔" علي بن ابي طالب الحسيني : هو صاحب الضريح في مزار شريف" 'مجلة الفكر الاسلامي ، بغداد ، 1988 ، صفحہ231.</ref>.
عام لوگوں کا خیال ہے کہ نیلی مسجد یا مسجدِ کبود جس کا شمار آثارِ قدیمہ میں ہوتا ہے اس میں حضرت امیر المومنین علي بن أبي طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کی مرقد ہے لیکن تاریخی شواہد سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ دراصل حضرت علي بن أبي طالب البلخي کی مرقد ہے جو اپنے عہد میں بلخ کے علوی سادات کے نقیب تھے۔ <ref>10. "الشيخ عبدالقادرالكيلاني رؤية تاريخية معاصرة" - ڈاکٹر جمال الدين فالح الكيلاني۔ ناشر: مؤسسة مصر مرتضى للكتاب ، بغداد - 2011 - صفحہ 211</ref> سلجوقی سلاطین نے سلطان سنجر سلجوقی کی پیشوائی میں فیصلہ کیا کہ حضرت علي بن أبي طالب البلخي کی قبرِ مبارک کے احترام میں جو [[سلجوقی سلطنت]] کے سفیر تھے نیلی مسجد کو اس کے اصل مقام پر دوبارہ تعمیر کیا جائے۔ بعدازاں یہ مسجد [[چنگیز خان]] کے ہاتھوں سن 1220 کے حملہ کے دوران مسمار کردی گئی۔ پھر سلطان حسین مرزا بایقرا نے پندرہویں صدی میں اس کی دوبارہ تعمیر کروائی<ref>2. ڈاکٹر قحطان عبد الستار الحديثي (استاد تاريخ خراسانِ اسلامي بغداد یونیورسٹی) ۔ "أبو الحسن علي بن أبي طالب البلخي والمسجد الازرق" ، جريدة الراصد البغدادية ، 1988</ref>
 
== حوالہ جات ==
سطر 99:
[[زمرہ:ہاشمی شخصیات]]
[[زمرہ:مضامین جن میں سورانی کردی زبان کا متن شامل ہے]]
[[زمرہ:خودکار ویکائی]]