"سید احمد بریلوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 40:
سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی [[محرم کی عزاداری|عزاداری]] کو شرک سمجھتے تھے۔ عرب دنیا میں 1802ء میں وہابی لشکر نے کربلا اور نجف پر حملہ کیا اور وہاں ائمہؑ کے مزارات کی تخریب کے ساتھ پانچ ہزار شیعہ مسلمان قتل کیے تھے۔1804ء میں اس لشکر نے مدینہ پر بھی حملہ کیا اور روضۂ رسولؐ کو تباہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس سے متاثر ہو کر 1820ء میں سید احمد بریلوی نے بھی اپنے مریدوں کو عزاداری پر حملے کے لیے اکسانا شروع کیا اور کہا کہ تعزیہ توڑنے کا ثواب بت شکنی جیسا ہے۔ شاہ عبد العزیز اپنی زندگی کے آخری سالوں میں تھے، ان کے ہاں نہ صرف محرم میں مجلس ہوتی تھی<ref>فتاویٰ عزیزی میں 1238 ہجری یعنی سن 1818ء میں ایک سوال کے جواب میں ایسی مجالس کے اہتمام کا ذکر موجود ہے</ref> بلکہ وہ بی بی فاطمہؑ کی نیاز بھی دیا کرتے اور انہوں نے اپنی کتاب "سر الشہادتین " میں کربلا کی یاد منائے جانے کو خدا کی طرف سے پیدا کردہ اسباب شہرت قرار دیا تھا۔ سید احمد نے ان کے گھر میں نیاز دلانے کے سلسلے کو بند کروا دیا۔ اس سے پہلے محرم میں تعزیہ، اہلبیت کا ذکر اور نیاز شیعہ و سنی کے لیے مشترک عمل تھا۔سید احمد بریلوی نے سہارن پور میں تعزیے کو آگ لگوا دی۔ اہل تشیع میں اشتعال پھیل گیا اور انہوں نے ان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔ اس تیاری کی خبر ملنے پر انگریزوں نے سید احمد اور ان کے مریدوں کو سہارن پور سے علاقہ بدر کر دیا۔ سید احمد جب بریلی گئے تو وہاں بھی عزاداری کے خلاف جلسے اور تقریریں کیں جن کے رد عمل میں اہل تشیع نے تبرا کا جلوس نکالنے کا اعلان کر دیا۔ صفوی دور کی شروع کردہ بدعت ہندوستان میں بھی آنے والی تھی مگر اودھ کے نواب غازی الدین حیدر اور آیت اللہ سید دلدار علی نقویؒ نے اہل تشیع کو اس حرکت سے باز رکھا۔ 1817ء سے 1820ء تک مختلف شہروں میں پھر کر فساد پھیلانے کے بعد چار سو عقیدت مندوں کو لے کر سید احمد1821ء میں حج کرنے چلے گئے۔راستے میں بنارس کے مقام پر اہلسنت کے زیر انتظام امام بارگاہوں پر حملہ کیا اور تعزیے جلائے۔ پٹنہ میں بھی یہی کام کیا اور وہاں کے انگریز مجسٹریٹ نے اہل تشیع کے احتجاج کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی<ref name=":2">Barbara Metcalf, "Islamic revival in British India: Deoband, 1860-1900"، pp. 52 – 58, Princeton university Press, (1982)۔
 
[[پاکستان میں شیعیت#cite ref-50|↑]]</ref>۔ ان لوگوں نے اپنی دانست میں خدا کی شان بیان کرنے کے لیے رسول اللہ(ص) کے بارے میں ایسی تعبیرات استعمال کیں جن کو روایتی مسلمان توہین آمیز سمجھتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ متعدد سنی علما نے ان کے افکار کے خلاف رسالے لکھے، جن میں علامہ [[فضل حق خیر آبادی]]، مولانا [[عبدالمجید بدایونی]]، مولانا [[فضل رسول بدایونی]]، مفتی [[صدر الدین آزردہ]]، مولانا محمد موسیٰ اورمولانا [[ابوالخیر سعید مجددی]] نمایاں تھے۔ [[مولانا فضل حق خیرآبادی]] نےنےانکےرد ایک پوری میں ایک کتاب <nowiki>''</nowiki>''تحقیق الفتویٰ فی ابطال الطغویٰ''<nowiki>''</nowiki>اورشیعہ عالم سید علی عسکری نے "ازالہ الغئی فی رد عبدالحئی" لکھی۔ان علما کے پیروکار بعد میں  امام [[احمد رضا خان]] بریلوی کی نسبت سے بریلوی کہلائے۔ یہ سلسلہ اہلسنت میں بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث کی تقسیم کا سبب ہوا۔
 
=== سفر حج اور تحریک مجاہدین ===