"ظہیر احسن شوق نیموی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م تعلیم، مصنفات ، تلامذہ کا اضافہ اور کچھ جزوی ترمیم
م خودکار: درستی املا ← 3، 9، 4، کیے، 7، اور، 6، لیے، 2، کر دیا، 8، لکھنؤ، 1، علما، اس ک\1، 0، 5؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 2:
 
== پیدائش اور نام و نسب ==
علامہ شیخ نیموی ۴4 جمادی الاولی ۱۲۷۸ھ1278ھ کو عظیم آباد کے قصبہ صالح پور میں پیدا ہوئے ، آپ کا اسم گرامی محمد ظہیر احسن کنیت ابوالخیر تخلص شوق اور تاریخی نام ظہیر الاسلام ہے، آپ کا سلسلہ نسب ۳۴34 واسطوں سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ تک پہنچ جاتا ہے۔
 
== تعلیم ==
پانچ یا چھ سال کی عمر کو پہنچنے پر اپنے ہی گاوں کے ایک مدرسہ میں داخلہ لیا ، جہاں ابتدائی کتابیں پڑھیں اور شیخ عبد الوہاب معروف بہ شاہ دیدار علی {م۱۲۹۲ھم1292ھ} سے رقعات عالمگیر کے کچھ اسباق پڑھے، فارسی اور عربی کی ابتدائی کتابوںسے فراغت پاکر آپ نے عظیم آباد کا سفر کیا اور عربی کی بعض کتابیں شیخ محمد سعید حسرت عظیم آبادی اور دیگر اساتذہ سے پڑھیں،پھر ۱۲۹۶ھ1296ھ میں غازی پور کا سفر کیا اور کچھ دن شیخ مفتی محمد فرنگی محلی مہتمم مدرسہ چشمہ رحمت کے یہاں کچھ دن قیام کیا،کیا اور پھر شیخ میر علی استانوی کے یہاں منتقل ہو گئے ، وہاں آپ نے شیخ محمد اور شیخ محمد عبد اللہ اور دیگر اساتذہ سے علوم عالیہ کی بعض کتابیں پڑھیں، چار سال غازی پور میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن گئے وہاں سے ۱۳۰۰ھ1300ھ کے رمضان کے بعد لکھنولکھنؤ کا سفر کیا ، وہاں سے اپنے استاذ شیخ امیر اللہ تسلیم لکھنوی سے ملاقات کے لئےلیے سندیلہ گئے پھر کچھ روز وہاں قیام کرکے لکھنولکھنؤ آئے اور پھر حضرت شیخ فضل رحمان گنج مراد آبادی سے ملنے گنج مرادآباد چلے گئے، وہاں آپ سے بیعت کی کچھ روز گزار کر لکھنولکھنؤ آگئے ، وہاں زبدۃ المحدثین  شیخ عبد الحئی فرنگی محلی کی شاگردی اختیار کی اور تفسیر، حدیث ، فقہ اور اصول کی کتابیں پرھیں، علوم دینیہ سے فارغ ہوکر حکیم باقر حسین لکھنوی سے طب کی تعلیم کی اور سند بھی حاصل کی۔الغرض لکھنولکھنؤ کے پانچ سالہ قیام میں آپ نے علوم عربیہ ، عقلیہ نقلیہ طبعیہ میں مہارت حاصل کی اور شوال ۱۳۰۵ھ1305ھ میں  گھر لوٹے۔
 
== تدریس و طبابت ==
جب شیخ نیموی علوم دینیہ و طبیہ سے فراغت پاکر اپنے وطن لوٹے تو پٹنہ گئے ، وہاں افادہ خلق اور کسب معاش کے لئےلیے طبابت کا پیشہ اختیار کیا ، ساتھ ساتھ تدریس ، تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رہا، وہاں آپ قرآن ، حدیث ، فقہ ،اصول ، فلسفہ ، منطق اور دیگر دینی ، حکمی ، طبی کتابیں انتہائی محنت تحقیق اور تدبر سے پڑھاتے تھے { یادگار وطن}پٹنہ کی اقامت کے دووران جامع مسجد میں عام دینی موضوعات وعظ و تذکیر اور پند و نصیحت کا سلسلہ بھی جاری رہا ؛ البتہ قرآن کریم سے خاص لگاو تھا سو آپ نے خطبہ میں مکمل قرآن کیا،کیا اور آپ کی خواہش تھی کہ مواعظ میں بھی قرآن مکمل کرت مگر نہ ہو سکا۔
 
== اولاد واحفاداور وفات ==
شیخ کے دو صاحبزادے تھے، شیخ عبد الرشید پہلی بیوی سے اور شیخ عبد السلام دوسری بیوی سے ، ۱۷17 رمضان ۱۳۲۲ھ1322ھ کو عظیم آباد میں جمعہ کو روز آپ نے وفات پائی ، اور اپنے وطن "نیمی" میں دفن ہوئے۔
 
== شعرو ادب ==
سطر 72:
علامہ شوق نیموی نے اپنے44 سالہ مختصر سے عرصہ حیات میں بہت سی کار آمد ،مفید ،معلوماتی اور عمدہ تصانیف چھوڑی ہیں جو درج ذیل ہیں:
 
"اوشحۃ الجید فی اثبات التقلید"مصنف نے اس میں تاریخ فقہ اسلامی، ارتقاءفقہ اسلامی اور تقلید پر سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے ، ۱۱۰110 صفحات پر مشتمل قومی پریس لکھنولکھنؤ سے شائع ہوئی زبان اردو ہے۔
 
"حبل المتین"آمین بالجہر کے رد میں یہ کتاب ہے۔
 
"رد السکین"مولانا سعید بنارسی نے "السکین" لکھی "حبل المتین" کے جواب میں تو اس کے جواب میں علامہ نیموی نے یہ کتاب لکھی ۱۳۱۲ھ1312ھ میں قومی پریس لکھنولکھنؤ سے شائع ہوئی۔
 
"جامع الآثار فی اختصاص الجمعۃ بالامصار"علماءعلما اہل حدیث نے گاوں دیہات میں جمعہ کے جواز پر کتابیں لکھی تو حضرت نے اس کے جواب میں ۱۶16 صفحہ کا یہ رسالہ لکھا جو احسن المطابع پٹنہ سے شائع ہوا۔
 
"المقالۃ الکاملۃ"شیخ محمد علی اعظمی نے الاجوبۃ الفاخرۃ الفاضلۃلکھی جس میں حضرت امام ابو حنیفہ اور حضرت گنج مرادآبادی پر اعتراضات کئےکیے اس کے جواب میں حضرت نے۶۹نے69 صفحات کا  یہ رسالہ لکھاجو ۱۳۰۸ھ1308ھ میں قومی پریس لکھنولکھنؤ سے شائع ہوا۔
 
"لامع الانوار لدفع الظلمۃ التی فی المذہب المختار" {اردو} محمد علی اعظمی نے علامہ نیموی کی کتاب جامع الآثار کے رد میں "المذہب المختار"نامی کتاب لکھی حضرت نے اسکےاس کے جواب میں ۸۶86 صفحات کا یہ رسالہ مرتب فرمایا۔
 
"جلاء العین فی رفع الیدین" ۱۶16 صفحات کےاس رسالہ میں رفع یدین کے سلسلہ میں بحث کی گئی ہے، قومی پریس لکھنولکھنؤ سے شائع ہوا۔
 
"الدرۃ الغرۃ فی وضع الیدین علی الصدور وتحت السرۃ" ۶6 صفحات کے اس رسالہ میں وضع الیدین علی الصدور کی روایات جمع کرنے کے بعد ان پر جرح کی اور پھر صحیح احادیث سے وضع الیدین تحت السرۃ کو ثابت کیا۔
 
"تبیان التحقیق"{عربی} پانچ صفحات کے اس رسالہ میں شیخ نے اپنی قیمتی تحقیقات جمع کی اور آثار السنن کی اشاعت سے پانچ سال پہلے اس کو شائع کردیاکر دیا تھا۔
 
"تذئیل در بیان تقبیل" {اردو} دو صفحات کے اس رسالہ میں علماءعلما وصلحاء کی دست بوسی کے جواز اوسر فضیلت کو ثابت کیا گیا ہے۔
 
"وسیلۃ العقبی فی احوال المرضی والموتی"{فارسی} ۵۰50 صفحات کی اس کتاب میں مرض اور موت کی حقیقت اس پر صبر ادویات محرمہ سے اجتناب ، انتقال روح عن الجسم ، کیفیت سماع موتی ، نوحہ وغیرہ پر بحث کی گئی ہے،یہ کتاب ۱۳۸۴ھ1384ھ میں قومی پریس لکھنولکھنؤ سے شائع ہوئی۔
 
اردو کی ادبی وشعری تصنیفات:
سطر 111:
 
اس کے علاوہ اور بھی بہت سی تصانیف ہیں جن کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ مسلم ہے اور لوگوں نے ان تمام کتابوں کو پڑھ کر ان کی عظمت کا اقرار بھی کیا ہے، لیکن فن حدیث میں لکھی گئی ان کی تصنیف  آثار السنن کو شاہکار کی حیثیت حاصل ہے ، اس کتاب کے ما بہ الامتیازپر اگر ہم غور کریں تو اس کا سب سے بڑا امتیاز یہ نظر آتا ہے کہ علامہ شوق نیموی کا تحقیقی رنگ اس میں نمایاں ہے اور اسے پڑھ کر ان کی گراں قدر تحقیقات بلکہ ان کے صاحب رائے ہونے کا اندازہ ہوتا ہے ، متن کتاب میں 47 اور تعلیقات کی شمولیت کے ساتھ150مقامات پر علامہ شوق نیموی نے مضبوط دلائل کی روشنی میں 'قال النیموی' کے ذریعے اپنی رائے کا برملا اظہار کیا ہے اور ایسی نادر تحقیقات پیش کی ہیں جس پر متقدمین و متأخرین علما کی زبانیں خاموش نظر آتی ہیں ، گویا اس زاویے سے یہ کہنا چاہیے کہ وہ اپنی بعض تحقیقات میں موجد کی حیثیت رکھتے ہیں یقینایہ ان کی علمی صلاحیت کی واضح دلیل ہے اور اس کتاب کی عظمت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ علامہ شوق نیموی کی آثار السنن آج بھی مختلف مدارس اور دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی جامعہ ازہر مصر میں داخل نصاب ہے۔ اور ایشیا کی عظیم دینی درسگاہ ازہر ہند دار العلوم دیوبند میں بھی نصاب کا حصہ رہی ہے ۔
 
== حوالہ جات ==