"ظہیر احسن شوق نیموی" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م تعلیم، مصنفات ، تلامذہ کا اضافہ اور کچھ جزوی ترمیم |
م خودکار: درستی املا ← 3، 9، 4، کیے، 7، اور، 6، لیے، 2، کر دیا، 8، لکھنؤ، 1، علما، اس ک\1، 0، 5؛ تزئینی تبدیلیاں |
||
سطر 2:
== پیدائش اور نام و نسب ==
علامہ شیخ نیموی
== تعلیم ==
پانچ یا چھ سال کی عمر کو پہنچنے پر اپنے ہی گاوں کے ایک مدرسہ میں داخلہ لیا ، جہاں ابتدائی کتابیں پڑھیں اور شیخ عبد الوہاب معروف بہ شاہ دیدار علی {
== تدریس و طبابت ==
جب شیخ نیموی علوم دینیہ و طبیہ سے فراغت پاکر اپنے وطن لوٹے تو پٹنہ گئے ، وہاں افادہ خلق اور کسب معاش کے
== اولاد واحفاداور وفات ==
شیخ کے دو صاحبزادے تھے، شیخ عبد الرشید پہلی بیوی سے اور شیخ عبد السلام دوسری بیوی سے ،
== شعرو ادب ==
سطر 72:
علامہ شوق نیموی نے اپنے44 سالہ مختصر سے عرصہ حیات میں بہت سی کار آمد ،مفید ،معلوماتی اور عمدہ تصانیف چھوڑی ہیں جو درج ذیل ہیں:
"اوشحۃ الجید فی اثبات التقلید"مصنف نے اس میں تاریخ فقہ اسلامی، ارتقاءفقہ اسلامی اور تقلید پر سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے ،
"حبل المتین"آمین بالجہر کے رد میں یہ کتاب ہے۔
"رد السکین"مولانا سعید بنارسی نے "السکین" لکھی "حبل المتین" کے جواب میں تو اس کے جواب میں علامہ نیموی نے یہ کتاب لکھی
"جامع الآثار فی اختصاص الجمعۃ بالامصار"
"المقالۃ الکاملۃ"شیخ محمد علی اعظمی نے الاجوبۃ الفاخرۃ الفاضلۃلکھی جس میں حضرت امام ابو حنیفہ اور حضرت گنج مرادآبادی پر اعتراضات
"لامع الانوار لدفع الظلمۃ التی فی المذہب المختار" {اردو} محمد علی اعظمی نے علامہ نیموی کی کتاب جامع الآثار کے رد میں "المذہب المختار"نامی کتاب لکھی حضرت نے
"جلاء العین فی رفع الیدین"
"الدرۃ الغرۃ فی وضع الیدین علی الصدور وتحت السرۃ"
"تبیان التحقیق"{عربی} پانچ صفحات کے اس رسالہ میں شیخ نے اپنی قیمتی تحقیقات جمع کی اور آثار السنن کی اشاعت سے پانچ سال پہلے اس کو شائع
"تذئیل در بیان تقبیل" {اردو} دو صفحات کے اس رسالہ میں
"وسیلۃ العقبی فی احوال المرضی والموتی"{فارسی}
اردو کی ادبی وشعری تصنیفات:
سطر 111:
اس کے علاوہ اور بھی بہت سی تصانیف ہیں جن کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ مسلم ہے اور لوگوں نے ان تمام کتابوں کو پڑھ کر ان کی عظمت کا اقرار بھی کیا ہے، لیکن فن حدیث میں لکھی گئی ان کی تصنیف آثار السنن کو شاہکار کی حیثیت حاصل ہے ، اس کتاب کے ما بہ الامتیازپر اگر ہم غور کریں تو اس کا سب سے بڑا امتیاز یہ نظر آتا ہے کہ علامہ شوق نیموی کا تحقیقی رنگ اس میں نمایاں ہے اور اسے پڑھ کر ان کی گراں قدر تحقیقات بلکہ ان کے صاحب رائے ہونے کا اندازہ ہوتا ہے ، متن کتاب میں 47 اور تعلیقات کی شمولیت کے ساتھ150مقامات پر علامہ شوق نیموی نے مضبوط دلائل کی روشنی میں 'قال النیموی' کے ذریعے اپنی رائے کا برملا اظہار کیا ہے اور ایسی نادر تحقیقات پیش کی ہیں جس پر متقدمین و متأخرین علما کی زبانیں خاموش نظر آتی ہیں ، گویا اس زاویے سے یہ کہنا چاہیے کہ وہ اپنی بعض تحقیقات میں موجد کی حیثیت رکھتے ہیں یقینایہ ان کی علمی صلاحیت کی واضح دلیل ہے اور اس کتاب کی عظمت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ علامہ شوق نیموی کی آثار السنن آج بھی مختلف مدارس اور دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی جامعہ ازہر مصر میں داخل نصاب ہے۔ اور ایشیا کی عظیم دینی درسگاہ ازہر ہند دار العلوم دیوبند میں بھی نصاب کا حصہ رہی ہے ۔
|