"زید بن ثابت" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م خودکار: درستی املا ← علما، 0، عبد اللہ، 3، کیے، 4، بنا، 1، دیے، ہو سکے، 6، 7، لیے، ہو گیا، 2؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 46:
حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں انصار ومہاجرین کے ممتاز اصحاب کی جو مجلسِ شوریٰ تھی،حضرت زیدؓ بھی اس کے ایک رکن تھے، حضرت عمرؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں اسی جماعت کو باضابطہ کونسل قراردیا تھا،حضرت زیدؓ اس کے بھی ممبر تھے۔
== تقسیم مال غنیمت ==
ایمان کے ۷۰70 سے اوپر شعبے اورشاخیں ہیں،امانت،ایمان کا ایک ضروری جز ء ہے؛ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
لا ایمان لمن لا امانۃ لہ
جس میں امانت نہیں اس میں ایمان بھی نہیں۔
آنحضرتﷺ کے عہدِ مبارک میں جو مال غنیمت آتا تھا اکثر آپ خود تقسیم فرماتے تھے، اس سے اس کام کی اہمیت پر بخوبی روشنی پڑتی ہے، حضرت عمرؓ کےعہد میں یرموک کا واقعہ نہایت اہم اور مشہور ہے اس میں مال غنیمت کی تقسیم حضرت زیدؓ کے سپرد تھی،اس کے ماسوا حضرت عمرؓ نے جب صحابہؓ کے وظائف مقرر کئےکیے تو انصار کے وظائف کی تقسیم بھی انہی کے سپرد کی،انہوں نے عوالی سے تقسیم شروع کی اس کے بعد عبدالاشہل کا نمبر رکھا، اس کے بعد اوس کے محلہ کا،پھر قبائل خزرج کا اورسب سے اخیر میں اپنا حصہ لیا۔
<ref>(کتاب:۱1/، ابی یوسف:۲۶26)</ref>
== سیاسی خدمت ==
حضرت زید بن ثابتؓ بارگاہ خلافت کے مقربین خاص میں تھے ،حضرت عمرؓ کے احباب میں ان کا ممتاز درجہ تھا، حضرت عثمانؓ کے بھی وہ خاص معتمد تھے ،خلافت عثمانی میں جب آتش فتنۂ وفساد مشتعل ہوئی تو وہ خلیفۂ وقت کے طرفدار تھے اوراس شورش وانقلاب کے زمانہ میں انہوں نے ایک دن انصار کو مخاطب کرکے ایک تقریر کی جس کا ایک بلیغ فقرہ یہ تھا:
یا معشر الانصار کو نو انصاراللہ مرتین
یعنی اے انصار خدا کے دو مرتبہ انصار بنو۔
بعض صحابۂ کرامؓ حضرت عثمانؓ سے بد ظن تھے،ان میں حضرت ابو ایوبؓ انصاری بھی تھے،انہوں نے کہا کہ تم عثمانؓ کی مدد پر صرف اس وجہ سے لوگوں کو آمادہ کرتے ہوکہ انہوں نے تم کو بہت سے غلام دیئےدیے ہیں، حضرت ابوایوبؓ بھی بہت بااثر بزرگ تھے اس لئےلیے زید کوخاموش ہونا پڑا۔
== خانگی حالات اوراہل وعیال ==
حضرت زیدؓ کی خانگی زندگی نہایت پر لطف تھی ان کی بیوی کا نام جمیلہ اورکنیت ام سعد اورام العلا تھی سعد بن ربیع انصاری مشہور صحابی کی بیٹی تھیں اورخود بھی صحابیہ تھیں۔
حضرت زیدؓ کی اولاد میں خارجہ جو سب سے زیادہ مشہور اور فقہائے سبعہ میں تھے جمیلہ کے بطن ہی سے تھے۔
حضرت زیدؓ کے دوسرے بیٹے اور پوتے بھی اپنے زمانہ میں مشہور اور علم حدیث میں مرجع الخلائق تھے
== وفات ==
پچپن،چھپن سال کا سن مبارک تھا کہ پیام اجل آگیا اور 45ھ میں وفات پائی اس وقت تخت حکومت پر امیر معاویہ متمکن تھے اور مروان بن حکم مدینہ منورہ کا امیر تھا وہ زید سے دوستانہ تعلقات رکھتا تھا، چنانچہ اسی نے نماز جنازہ پڑھائی تمام لوگ سخت غمگین تھے، ابوہریرہ نے موت کی خبر سن کر کہا آج حبرالامۃ اٹھ گیا۔
== علم و فضل ==
قرأت فرائض قضا اور فتویٰ میں وہ نہایت ممتاز تھے قرآن مجید میں علماءعلما کی شان یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ راسخین فی العلم ہوں حضرت زید بن ثابتؓ راسخ فی العلم تھے، حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباسؓ جو صحابہ میں دریائے علم کہلاتے تھے حضرت زیدؓ کو راسخین فی العلم شمار کرتے تھے۔
== قرأت ==
اسلام نے جن علوم وفنون کی بنیاد قائم کی ان میں قرأت ایک ممتاز علم ہے حضرت زیدؓ کو اس فن میں جس قدر دخل تھا اس کا اعتراف صحابہ کرامؓ اور تابعین کے ہر فرد کو تھا، امام شعبیؓ جو علامۃ التابعین تھے کہا کرتے تھے کہ زیدؓ فرائض کی طرح قرأت میں بھی تمام صحابہؓ سے فوقیت لے گئے تھے۔
قرآن مجید کے ساتھ حضرت زیدؓ کو جو شغف تھا اس کا ظہور ان کے قبولِ اسلام کے وقت ہوچکا تھا،صرف ۱۱11 برس کے سن میں وہ ۱۷17 سورتوں کے حافظ ہوچکے تھے باقی زندگی کتابت وحی میں گذری تھی، مبلغ وحی پر قرآن کا جتنا حصہ اترتا ان کو معلوم ہوجاتا تھا اور وہ اس کو یاد کرلیتے تھے ،چنانچہ آنحضرتﷺ کے عہد میں ان کو پورا قرآن حفظ ہوگیاہو گیا تھا۔
اس بناءبنا پر جب حضرت ابوبکرؓ نے قرآن لکھوایا تو اس خدمت کے لئےلیے حضرت زیدؓ ہی کو منتخب فرمایا اورحضرت عثمانؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں جب اس کی نقلیں کرائیں تو اس میں حضرت زیدؓ کی شرکت بھی ضروری سمجھی۔
حضرت عمرؓ ابی بن کعبؓ کے مقابلہ میں جو قاریوں کے سر دار تھے حضرت زیدؓ کی قرأت کو ترجیح دیتے تھے۔
حضرت زیدؓ کا سلسلۂ قرأت دور دور تک پھیلا ہوا تھا اورچونکہ قرأت قریش کے مطابق پڑہتے تھے،اس لئےلیے لوگوں کا رجحان انہی کی قرأت کی طرف تھا ،حضرت ابی بن کعبؓ کی زندگی تک اگرچہ وہ مرجع انام نہ ہوسکے،لیکنہو سکے،لیکن ان کی وفات کے بعد تمام عالم اسلامی ان ہی کی طرف رجوع کرتا تھا، مدینہ منورہ میں حضرت زیدؓ کی ذات اقدس تمام اکناف واطراف کی قبلۂ حاجات بنی ہوئی تھی۔
حضرت زیدؓ سے جو قرأت قائم ہوئی تھی وہ ۱۳۰۰1300 سو برس گذرنے پر بھی باقی ہے ابن عباسؓ ،ابو عبدالرحمن سلمی، ابو العالیہ ریاحی، ابو جعفر، یہ سب ان کے شاگرد تھے،اورآج تک روئے زمین کی ۴۰40 کروڑ مسلم آبادی معنوی طور سے ان کے آستانہ پر زانوے تلمذی تہ کرتی ہے۔
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}