"سعید بن زید" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: درستی املا ← 1، 2؛ تزئینی تبدیلیاں
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 49:
== وفات ==
فتح شام کے بعد سعید کی تمام زندگی نہایت سکون وخاموشی سے بسر ہوئی ،یہاں تک کہ [[50ھ]] یا [[51ھ]] میں ستربرس تک اس سرائے فانی میں رہ کر رحلت گزین عالم جاوداں ہوئے،چونکہ نواحِ مدینہ میں بمقام عقیق آپ کا مستقل مسکن تھا، اس لیے وہیں وفات پائی جمعہ کا دن تھا عبد اللہ بن عمرنماز جمعہ کی تیاری کر رہے تھے کہ وفات کی خبر سنی،اسی وقت عقیق کی طرف روانہ ہو گئے، سعدبن ابی وقاص نے غسل دیا، عبد اللہ بن عمرنے نماز جنازہ پڑھائی اورمدینہ لاکر سپرد خاک کیا۔
 
== ذاتی حالات اوراخلاق وعادات ==
حضرت سعید ؓ کا دل دنیاوی جاہ وحشمت سے مستغنی تھا، صرف مقام عقیق کی جاگیر پر گذراوقات تھی،آخر میں حضرت عثمان ؓ نے عراق میں بھی ایک جاگیر دی تھی۔
امیر معاویہ ؓ کے عہد میں اروی نامی ایک عورت نے جس کی زمین ان کی جاگیر سے ملی ہوئی تھی، مدینہ کے عامل مروان بن حکم کے دربار میں شکایت کی کہ انہوں نے اس کی کچھ زمین دبالی ہے،مروان نے تحقیقات کے لیے دو آدمی متعین کیے،حضرت سعید ؓ کو خبر ہوئی تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جواپنے مال کے آگے قتل ہو وہ شہید ہے، پھر مروان سے کہا :کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں نے اس کے ساتھ ظلم کیا ہے؟ حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی ایک بالشت زمین بھی ظلم و زبردستی سے لے گا تو ویسی ویسی ساتھ زمینیں قیامت میں اس کے گلے کا ہار ہوں گی، مروان نے قسم کھانے کو کہا تو یہ اپنی زمین سے باز آگئے اوراس عورت کے حق میں بددعا کے طورپر فرمایا اے خدا! اگر یہ جھوٹی ہے تو اندھی ہوکر مرے اوراس کے گھر کا کنواں خود اس کے لیے قبر بنے ،خدا کی قدرت بددعا کا تیر ٹھیک نشانہ پر لگا وہ عورت بہت جلد بصارت کی نعمت سے محروم ہوگئی اورایک روز گھر کے کنویں میں گرکرراہی عدم ہوئی،چنانچہ یہ واقعہ اہل مدینہ کے لیے ضرب المثل ہوگیا، اوروہ عموماً یہ بددعا دینے لگے۔اعماک اللہ کما اعمیٰ اروی
حضرسعید ؓ کے سامنے بہت سے انقلابات برپا ہوئے بیسیوں خانہ جنگیاں پیش آئیں اور وہ اپنے زہدواتقاء کے باعث ان جھگڑوں سے ہمیشہ کنارہ کش رہے؛ تاہم جس کی نسبت جو رائے رکھتے تھے اس کو آزادی کے ساتھ ظاہر کرنے میں تامل نہیں کرتے تھے،حضرت عثمان ؓ شہید ہوئے تو وہ عموماً کوفہ کی مسجد میں فرمایا کرتے تھے تم لوگوں نے عثمان ؓ کے ساتھ جو سلوک کیا، اس سے اگر کوہِ احدمتزلزل ہوجائے تو کچھ عجب نہیں۔
<ref>(بخاری باب بنیان الکعبہ باب اسلام سعید بن زید ؓ)</ref>
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ امیر معاویہ ؓ کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے،ایک روزوہ جامع مسجد میں عوام کے ایک حلقہ میں بیٹھے تھے کہ حضرت سعید بن زید ؓ داخل ہوئے تو انہوں نے نہایت تعظیم وتکریم کے ساتھ ان کا استقبال کیا اوراپنے پاس بٹھایا،اسی اثناء میں ایک دوسرا آدمی اندر آیا اورحضرت علی ؓ کی شان میں نامناسب کلمات استعمال کرنے لگا، حضرت سعید ؓ سے ضبط نہ ہوسکا ،بولے مغیرہ !مغیرہ! لوگ تمہارے سامنے رسول اللہ ﷺ کے جان نثاروں کو گالیاں دیتے ہیں اور تم منع نہیں کرتے، اس کے بعد اصحابِ عشرہ ؓ سے آٹھ آدمیوں کا نام لے کر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جنت کی بشارت دی ہے اوراگر چاہو تو میں نویں آدمی کا نام بھی لے سکتا ہوں، لوگوں نے اصرار کیا تو فرمایا نواں میں ہوں ۔
<ref>(مسند :۱/۱۸۷)</ref>
حضرت سعید ؓ کے حالات کتب میں بہت کم ہیں تاہم وہ بالاتفاق ان صحابہ کرام ؓ میں تھے جو آسمان اسلام کے مہروماہ ہیں،وہ لڑائیوں میں آنحضرت ﷺ کے آگے رہتے تھے اور نماز میں پیچھے۔
<ref>(اسد الغابہ ترجمہ سعید بن زید ؓ)</ref>
 
 
 
 
 
 
 
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}