"ابو موسیٰ اشعری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
م خودکار: درستی املا ← 3، 4، 5، کیے، 6، 7، 8، 9، 0، \1 رہے، چاہیے، ہو گیا، ہو گئی، \1کہ، ہو گئے، گزاری، کر دیا، جنھوں، عبد اللہ، اہل و عیال، 1، 2؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 182:
قرآن نہایت خوش الحانی سے پڑھتے تھے،یہ اس قدر خوش گلو اورشیریں آواز تھے کہ آنحضرت ﷺ فرماتے تھے کہ:
"ان کو لحن واؤدی سے حصہ ملا ہے"
<ref>(ابن سعد جزو ۴4 قسم اول صفحہ ۸۰80)</ref>
آنحضرت ﷺ کو ان کا قرآن پڑھنا بہت پسند تھا، جہاں ان کو قرأت کرتے ہوئے سنتے کھڑے ہوجاتے، ایک مرتبہ حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ کہیں تشریف لے جارہےجا رہے تھے،ابوموسیٰ ؓ کو قرآن پڑھتے ہوئے سنا،وہیں کھڑے ہوگئےہو گئے اور سنکر آگے بڑھے، صبح کو جب ابو موسیٰ ؓ حاضر ہوئے،تو فرمایا کہ ابوموسیٰ ؓ کل تم قرآن پڑھ رہے تھے،ہم نے تمہاری قرأت سنی تھی،عرض کیا اے خدا کے رسول ﷺ اگر مجھ کو حضور کی موجودگی کا علم ہوتا، تو میں آواز میں اوردلکشی پیدا کرتا۔
<ref>(مستدرک حاکم :۳3/۴۶۶466)</ref>
ایک مرتبہ مسجد نبوی ﷺ میں بلند آواز سے عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے، آواز سن کر ازواج مطہرات اپنے اپنے حجروں میں پردوں کے پاس آکر کھڑی ہوکر سننے لگیں،صبح کو جب ان کو اطلاع ہوئی تو کہا اگر مجھ کو اس وقت معلوم ہوجاتا تو میں ان کو قرآن کا اس سے بھی زیادہ مشتاق بنادیتا۔
<ref>(طبقات ابن سعد قسم اول جز ۴4 صفحہ ۸۰80)</ref>
ابو عثمان نہدی بیان کرتے تھے کہ ابوموسیٰ ؓ ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے، ان کی آواز اتنی سریلی اوردلکش ہوتی تھی کہ جنگ وبربط میں بھی وہ دلکش نہیں۔
<ref>(طبقات ابن سعد قسم اول جز ۴4 صفحہ ۸۰80)</ref>
کبھی کبھی حضرت عمرؓ فرمائش کرتے کہ ابوموسیٰ ؓ خدا کی یاد دلاؤ، یہ قرآن پڑھ کر سناتے ،ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ ؓ نے انس بن مالک ؓ کو حضرت عمرؓ کے پاس بھیجا، انہوں نے پوچھا، ابوموسیٰ ؓ کا کیا حال ہے،کہا لوگوں کو قرآن پڑھاتے ہیں،فرمایا وہ بلند مرتبہ آدمی ہیں،مگر اس کو ان کے سامنے نہ کہنا۔
<ref>(طبقات ابن سعد قسم اول جز ۴4 صفحہ ۸۰80)</ref>
ان کی غیر معمولی قرأت دانی کی وجہ سے آنحضرت ﷺ نے مشہور عالمِ قرآن حضرت معاذ بن جبل ؓ کے ساتھ ان کو بھی نو مسلموں کی تعلیم قرآن کے لیے یمن بھیجا تھا۔
<ref>(مسند احمد بن حنبل :۴4/۳۹۷397)</ref>
</big>
 
== حدیث ==
<big>قرآن کے ساتھ ان کو حدیث کے علم سے بھی وافر حصہ ملا تھا، حفظِ حدیث کے اعتبار سے وہ اپنے معاصروں میں امتیازی پایہ رکھتے تھے، کوفہ میں مستقل حلقہ درس تھا جس سے بڑے بڑے ارباب کمال پیدا ہوئے، ان کے نام آیندہ آئیں گے، ان کی تعداد مرویات ۳۶۰360 تک پہنچتی ہے،ان میں ۵۰50 متفق علیہ ہیں، ان کے علاوہ ۴4 بخاری اور۲۵اور25 مسلم میں ہیں۔
<ref>(تہذیب الکمال)</ref>
ان میں سے اکثر روایات خود صاحبِ حدیث کی زبان مبارک سے سنی ہوئی ہیں، ان کے بعد پھر حضرت ابوبکر ؓ ،حضرت عمرؓ، حضرت علی ؓ، ابن عباس ؓ، ابی بن کعب ؓ، عمار بن یاسر ؓ، معاذ بن جبل ؓ سے روایتیں کی ہیں، تلامذہ کی تعداد بھی کافی ہے، مختصر فہرست یہ ہے۔
ابراہیم، ابوبکر،ابوبردہ، موسی، انس بن مالک ؓ، ابوسعیدخدری ؓ، طارق بن شہاب ، ابوعبدالرحمن سلمی، زربن جیش، زید بن وہب، عبید بن عمیر، ابوالاحوص،عوف بن مالک ،ابوالاسوددئلی، سعید بن مسیب،ابوعثمان نہدی،قیس بن ابی حازم، ابورافع صائغ، ابوعبیدہ بن عبداللہعبد اللہ بن مسعود، مسروق بن اوس حنظلی، ہزیل بن شرجیل، مرہ بن شرجیل، اسود بن یزید، عبدالرحمن بن یزید، حطان بن عبداللہعبد اللہ رقاشی، ربعی بن خراش، زہدم بن مضرب، ابووائل ،شقیق ،ابن سلمہ، صفوان بن محرزوغیرہم
اس فضل وکمال کے باوجود ان کو اپنی غلطی اوردوسروں کے کمال کے اعتراف میں بخل نہ تھا، ایک مرتبہ کسی نے لڑکی،پوتی اوربہن کی وراثت کے متعلق فتویٰ پوچھا، انہوں نے جواب دیا: لڑکی اوربہن کو نصف نصف ملے گا، مستفتی نے جاکر یہ جواب حضرت عبداللہعبد اللہ بن مسعود ؓ کو سنایا اوران سے بھی فتویٰ دریافت کیا، انہوں نے کہا،اگر میں اس کی تائید کروں تو گمراہ ہوں، میں اس مسئلہ میں وہی فیصلہ کروں گا جو آنحضرت ﷺ نے کیا ہے،لڑکی کو آدھا ملے گا، پوتی کو دو تہائی پورا کرنے کے لیے چھٹا حصہ ملے گا، باقی جو بچے گا وہ بہن کا حصہ ہے مستفتی نے یہ جواب جاکر ابوموسیٰ ؓ کو سنایا، انہوں نے کہا جب تک یہ عالم تم میں موجود ہے،اس وقت تک مجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔
<ref>(بخاری کتاب الفرائض باب میرث اتبہ ابن مع انبتہ)</ref></big>
 
== اخلاق وعادات ==
<big>خشیت الہی اوررقتِ قلب مذہب کی روح ہے، حضرت ابوموسیٰ ؓ میں یہ دونوں وصف موجود تھے، خود بھی روتے اوردوسروں کو بھی رلا تے،بصرہ کے قیام کے زمانہ میں ایک مرتبہ خطبہ دیاکہ:
"لوگو! خوب روؤ اگر نہ روسکتےہو تو کم ازکم رونی صورت بناؤ کیونکہ دوزخی (جنہوںجنھوں نے دنیا ہنس کر گذاریگزاری) اس قدر روئیں گے کہ آنسو خشک ہوجائیں گے پھر خون کے آنسو روئیں گے،آنسووں کی فراوانی کا یہ حال ہوگا کہ اگر اس میں کشتیاں چلائی جائیں تو بہہ نکلیں۔
<ref>(ابن سعد قسم اول جزو ۴4 صفحہ ۸۱81)</ref></big>
 
== اتباعِ سنت ==
<big>ابوموسیٰ ؓ کی پوری زندگی حیات نبوی ﷺ کا آئینہ تھی، وہ کوشش کرتے تھے کہ ان کی نقل وحرکت ،قول وفعل ؛بلکہ ہرہر ادا ذاتِ نبوی ﷺ کا نمونہ بن جائے، ایک موقع پر انہوں نے اپنی حرص کا ان الفاظ میں ذکر کیا ہے:
"ابو مجلز راوی ہیں کہ ایک مرتبہ ابو موسیٰ ؓ مکہ سے مدینہ آرہےآ رہے تھے، راستہ میں عشاء کی نماز کا وقت آیا تو دورکعت نماز پڑھی،پھر کھڑے ہوکر سورۂ نساء کی ۱۰۰100 آیتیں ایک رکعت میں پڑھیں، لوگوں نے اس پر اعتراض کیا، انہوں نے کہا میری،ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے ، کہ جہاں آنحضرت ﷺ نے قدم مبارک رکھا ہے وہیں میں بھی قدم رکھوں، اورجو کام آپ نے کیا ہے،وہی میں بھی کروں۔
<ref>(مسند احمد ابن حنبل :۴4/۴۱۹419)</ref>
رمضان کے روزوں کے علاوہ نوافل کے روزے محض اس لیے رکھتے تھے کہ آنحضرت ﷺ رکھا کرتے تھے،عاشورہ کا روزہ آنحضرت ﷺ برابر رکھا کرتے تھے،یہ لوگوں کو ہدایت کرتے کہ عاشورہ کا روزہ رکھو۔
سنت سے لے کر مستحبات تک کی خود پابندی کرتے اوراپنے اہل وعیالو عیال سے پابندی کراتے ،قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا مسنون ہے، حضرت ابوموسیٰ لڑکیوں تک کو حکم دیتے تھے کہ وہ اپنے ہاتھ سے ذبح کریں۔
<ref>(بخاری کتاب الاضاحی باب من ذبح ذبیحتہ)</ref>
احکام نبوی ﷺ کا لحاظ ہر آن وہر لمحہ رہتا تھا، کسی موقع پر فروگذاشت نہ ہونے پاتی، آنحضرت ﷺ کا حکم تھا کہ جب کوئی شخص کسی کے یہاں جائے تو اجازت لے کر گھر میں داخل ہو اگر تین مرتبہ اجازت مانگنے پر بھی اجازت نہ دے تو لوٹ جائے، حضرت ابو موسیٰ ؓ اس فرمان نبوی ﷺ پر سختی سے عامل تھے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے پاس آئے اوراندر آنے کی اجازت چاہی،آپ ؓغالباً کسی کام میں مشغول تھے، اس لیے کوئی توجہ نہ کی، انہوں نے ۳3 مرتبہ اجازت مانگی، پھر لوٹ آئے،دوسرے وقت حضرت عمرؓ نے کہا تم کیوں واپس ہوگئےہو گئے تھے، کہا میں نے تین مرتبہ اجازت مانگی،جب نہ ملی تو لوٹ گیا، کیونکہ آنحضرت ﷺ نےفرمایا ہے کہ اگر تم کو ۳3 مرتبہ اجازت مانگنے کے بعد بھی اجازت نہ ملے تو لوٹ جانا چاہیے،حضرت عمرؓ نے فرمایا" شاہدلاؤ تمہارے علاوہ کسی دوسرے نے بھی اس حکم کو سنا ہے"یہ گھبرائے ہوئے انصاری اصحاب کی مجلس میں آئے،ابی بن کعب ؓ کو یہ حکم معلوم تھا، انہوں نے جاکر شہادت دی۔
<ref>(بخاری کتاب الاستیذان باب التسلیم والا ستیذان ثلثا)</ref>
یہی پاس ولحاظ زندگی کے آخری لمحہ تک رہا۔
مرض الموت میں اپنے گھر کی کسی عورت کی گود میں سررکھے ہوئے تھے، اسی حالت میں غشی طاری ہوگئی،عورتہو گئی،عورت نے گریہ وزاری شروع کردی، اس وقت تو بولنے کی طاقت نہ تھی،ہوش آیا تو کہا جس چیز سے آنحضرت ﷺ نے برأت ظاہر کی ہے،اس سے میں بھی بری ہوں، جیب وگریبان پھاڑ نے والی ،نوحہ بکاکرنے والی،سرنوچنے والی اورکپڑے پھاڑنے والی عورتوں سے آپ ﷺ نے برأت کی ہے۔
<ref>(مسلم کتاب الایمان تحریم ضرب الخدودوشق اجیوب)</ref>
موت سے پہلے کفن ودفن وغیرہ کی وصیتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی وصیت کی کہ کوئی میری موت پر نوحہ اوربین نہ کرے،جیب اورگریبان چاک نہ کرے،سر کو نہ نوچے، ان سب سے میں بری ہوں۔
<ref>(مسند احمد ابن حنبل :۴4/۳۹۷397)</ref></big>
 
== تقویٰ ==
<big>ابوموسیٰ ؓ کا دامنِ عفاف کبھی معصیت کی آلودگیوں سے داغدار نہ ہوا، وہ اس درجہ محتاط تھے کہ غیر عورتوں کی ہواتک لگنا گوارانہ کرتے تھے،کہا کرتے تھے کہ عورتوں کی لپٹ سے مجھو کو سڑے ہوئے مردار کی عفونت زیادہ خوش آیندہے۔
<ref>(ابن سعد جزو۴جزو4 قسم اول صفحہ ۸۴84)</ref>
طہارت اورصفائی کے خیال سے ہمیشہ شیشی میں پیشاب کرتے تھے کہ کوئی چھینٹ نہ پڑنے پائے،دوسرے صحابہ ؓ اس غیر ضروری شدت کو محسوس کرتے اوراس کا اظہار بھی کردیتے تھے،حذیفہ ؓ نے لوگوں سے کہا کہ کاش تمہارے ساتھی اتنا تشدد نہ کرتے۔
<ref>(مسلم کتاب الطہارت باب المسیح علی الخفین)</ref></big>
سطر 231:
== توکل ==
<big>خدا کی ذات پر پورا اعتماد اورقضاء قدرپرپورا یقین تھا،چنانچہ وبائی مقامات سے الگ نہ ہوتے تھے ایک مرتبہ طاعون کی وبا پھیلی ،ابوبردہ ؓ نے کہا یہاں سے ہٹ کر وابق چلے چلئے کہا میں خدا کے پاس جاؤں گا،وابق نہ جاؤں گا۔
<ref>(ابن سعد قسم اول جزو ۴4 صفحہ ۸۲82)</ref></big>
 
== شرم وحیا ==
<big>الحیاء شعبۃ من الایمان حضرت ابوموسیٰ ؓ میں ایمان کا یہ عنصر بہت غالب تھا ،رات کو سوتے وقت خاص قسم کا کپڑا پہن لیتے تھے کہ نیند کی غفلت میں ستر نہ کھل جائے ،ایک مرتبہ کچھ اشخاص کو دیکھا وہ پانی کے اندر ننگے نہارہےنہا رہے ہیں،تو بولے مجھ کو باربار مرکرزندہ ہونا نہیں ہے۔
<ref>(طبقات ابن سعد قسم اول جزو ۴4 صفحہ ۸۲82)</ref></big>
 
== سادگی ==
<big>حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کی زندگی کے مختلف دور تھے، ابتدائی دور نہایت عسرت کا تھا،مگر جیسے جیسے اسلام کر فروغ ہوتا گیا،ان کی عسرت میں کمی آتی گئی،متعدد مہمیں ان کی ماتحتی میں سرہوئیں، برسوں تک مختلف صوبوں کے حاکم رہے،لیکن ان دونوں حالتوں میں ان کی ظاہری زندگی میں کوئی فرق نہ آیا، نہ مال و دولت جمع کیا ،نہ نخوت ورعونت پیدا ہوئی،گورنری کے بعد ایک مرتبہ مشہور آدمی،حضرت ابوذر غفاری ؓ سے ملاقات ہوئی، ابوذر ؓ فقیر منش آدمی تھے دنیا سے ان کو کوئی تعلق نہ تھا،حضرت ابوموسیٰ ؓ بھائی بھائی کہتے ہوئے دوڑ کر لپٹ گئے؛ لیکن ابوذر ؓ بار بار یہ کہہ کر ہٹاتے تھے،اب تم میرے بھائی نہیں ہو اس منصب سے پہلے بھائی تھے، دوبارہ جب پھر ملاقات ہوئی تو پہلے کی طرح لپکے،انہوں نے کہا ابھی ہٹے رہو پہلے میرے سوالات کے جوابات دے دو، پھر پوچھا تم نے لوگوں پر حکومت کی ہے؟ ابوموسیٰ ؓ نے کہا ہاں، کہا عمارتیں تو نہیں بنوائیں،زراعت تو نہیں کی، جانور تو نہیں پالے؟ انہوں نے سب کی نفی کی تو پھران سے دل کھول کر ملے۔
<ref>(طبقات ابن سعد قسم اول جزو۴جزو4 صفحہ ۱۶۹169)</ref>
اسی خاکساری اورتواضع کی وجہ سے وہ اپنی مذہبی خدمات کا اظہار براسمجھتے تھے،ابوبردہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ ابوموسیٰؓ کہتے تھے کہ ایک مرتبہ ہم ۶6 آدمی آنحضرت ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں نکلے، ان چھ میں صرف ایک اونٹ تھا، اسی پر سب باری باری سوار ہوتے تھے، پیادہ پا چلنے کی مشقت سے ہمارے پاؤں پھٹ پھٹ گئے اورناخن گر گرگئے، تو ہم لوگوں نے چیتھڑے لپیٹ لیے،اس لیے اس غزوۂ کو ذات الرقاع،چیتھڑ ے والا،کہتے ہیں راوی کا بیان ہے کہ ابوموسیٰ ؓ اس واقعہ کو بیان تو کئےکیے مگر بعد میں اتنے واقعہ کا اظہار بھی بُرا سمجھا۔
<ref>(مسلم کتاب الجہادوالسیرباب غزوۂ ذات الرقاع)</ref></big>
 
سطر 246:
<big>امتِ مسلمہ کی خیر خواہی اوراس کا مفاد ہر وقت پیش نظر رہتا تھا،اس کے مقابلہ وہ بڑی سے بڑی منفعت کو ٹھکرادیتے تھے، جب حضرت علی ؓ اورامیر معاویہ ؓ کے درمیان کشمکش شروع ہوئی تو امیر معاویہ ؓ نے ان کے پاس لکھ بھیجا کہ عمروبن العاص ؓ نے میر بیعت کرلی ہے،اگر تم بھی بیعت کرلوتو میں حلفیہ وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارے ایک لڑکے کو بصرہ اوردوسرے کو کوفہ کی امارت پر سرفراز کروں گا اورتمہاری ضروریات کے لیے میرا دروازہ ہر وقت کھلا رہے گا، میں اپنے خاص قلم سے یہ خط لکھ رہا ہوں، امید ہے کہ تم بھی اپنے دست وقلم سے اس کا جواب دو گے، اس خط کو پڑھ کر انہوں نے یہ جواب لکھا:
"تم نے امت محمدی ﷺ کے بہت اہم اورنازک معاملہ کی بابت لکھا ہے، جو چیز تم نے میرے سامنے پیش کی ہے، اس کی مجھ کوحاجت نہیں ہے۔
<ref>(طبقات ابن سعد جلد ۴4 قسم اول صفحہ ۸۳83)</ref>
جنگ جمل اورجنگِ صفین دونوں میں غیر جانبدار رہے اور دوسروں کو بھی اس کی شرکت سے روکتے تھے، جب حضرت علی ؓ نے عمار بن یاسر ؓ کو کوفہ بھیجا کہ وہ کوفہ والوں کو حضرت علی ؓ کے ساتھ جنگ کی شرکت پر آمادہ کریں، تو ابوموسیٰ ؓ اورابومسعود ؓ نے ان سے جاکر کہا کہ: "جب سے تم اسلام لائے ہو آج تک ہمارے نزدیک اس جنگ کی شرکت سے زیادہ تم نے کوئی ناپسندیدہ کام نہیں کیا"۔
<ref>(بخاری کتاب الفتن باب الفتنۃ ماتی تموج کموج البحر)</ref>
ان کے بھائی ابورہم بہت ہنگامہ پسند تھے اورشورشوں اورہنگاموں میں نہایت ذوق و شوق سے شریک ہوتے تھے اورابوموسیٰ ؓ فتنہ وفساد سے سخت متنفر تھے، وہ ان کو برابر سمجھا تے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے جب دو مسلمان ایک دوسرے کے خلاف تلوار اٹھائیں گے اورایک دوسرے کو قتل کریں گے تو دونوں جہنم میں جائیں گے۔
<ref>(مسند احمد بن حنبل:۴4/۴۰۳403)</ref>
ان کی اس بے لوثی اورغیر جانبداری کی بنا پر جنگِ صفین میں حضرت علی ؓ نے ان کو ثالث مقرر کیا،اس وقت رفعِ فساد کے خیال سے ان کو مجبوراً گوشہ عزلت سے نکلنا پڑا اور نہایت نیک نیتی سے مصالح امت کا خیال رکھتے ہوئے حضرت علی ؓ اورمعاویہ ؓ دونوں کو معزول کرکے کسی تیسرے کو خلیفہ منتخب کرنے کا مشورہ دیا،مگر افسوس ہے کہ عمر بن العاص ؓ کی چالاکی نے نیک نیتی کے مشورہ کا بیکارکردیا۔
امت کے اس تفرقہ کے خیال سے بسا اوقات وہ اپنا فتویٰ مسترد کردیتے ،وہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ حج میں شریک ہوچکے تھے، آپ نے بیت اللہ کا طواف اورصفاء اورمروہ کی سعی کے بعد احرام کھلوادیا تھا، آپ کے بعد بھی اسی پر عمل رہا،ابوموسیٰ ؓ بھی یہی فتویٰ دیتے تھے،حضرت عمرؓ اپنے زمانہ میں حج تمام ہونے کے بعد احرام کھلوانے لگے،ایک مرتبہ حج کے موقع پر لوگوں نے ابوموسیٰ ؓ سے کہا کہ آپ فتوی دینے میں اتنی عجلت نہ کیجئے،امیرالمومنین نے اس میں ترمیم کردی ہے،اگرچہ ابو موسیٰ ؓ اس فتویٰ میں حق بجانب تھے،مگر اختلاف کے خیال سے فوراً علان کردیا،کر دیا، لوگو جس جس کو میں نے فتویٰ دیا ہو اس کو ابھی ٹھہرجانا چاہئے،امیرالمومنینچاہیے،امیرالمومنین آتے ہیں ان کی اقتدا کرنی چاہئے۔چاہیے۔
<ref>(مسلم کتاب الحج باب فی نسخ التحمل من الاحرام ولامرباتمام)</ref></big>
 
== مخصوص فضائل ==
<big>ان مذکورہ فضائل کے علاوہ بعض مخصوص فضائل ایسے تھے جو ان کے لیے طغرائے امتیاز ہیں، ایک بدوی نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ محمد ﷺ جو کچھ دینے کا وعدہ کیا تھا،اس کوپورا کرو، آپ ﷺ نے فرمایا، بشر یعنی بشارت ہو،اس نے کہا "بشارت ہوچکی"کچھ دلواؤ، اس جاہلانہ جواب سے چہرۂ مبارک پر برہمی کے آثار نمایاں ہوگئے،پھرہو گئے،پھر حضرت بلال ؓ اورابوموسیٰ ؓ سے کہا کہ اس نے بشارت سے انکار کردیا،کر دیا، تم دونوں قبول کرو، عرض کیا ز ہے نصیب ،پھر ایک برتن میں پانی منگا کر اس میں ہاتھ منہ دھویا اورکلی کرکے ان دونوں کی طرف بڑھایا کہ اس کو پیؤ اورسینہ اورچہرہ پر ملو، انہوں نے اس آب حیات کو پیا اورسینہ اورچہرہ پر ملا، حضرت ام سلمہ ؓ پردہ کی آڑ سے دیکھ رہی تھیں، آوازدی ،تھوڑا میرے لیے بھی چنانچہ اس شراب طہور کے چند جرعے ان کو بھی ملے،(مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل ابی موسیٰ ؓ) بظاہر یہ واقعہ نہایت معمولی ہے،مگر یہ بشارت کیاتھی؟ اوراس شرابِ طہور میں کیا نشہ تھا؟ اس کا جواب عشق ومحبت کی زبان سے سننا چاہیے۔
غزوۂ حنین کے بعد آنحضرت ﷺ نے ابوعامر کو ایک دستہ کے ساتھ اوطاس روانہ کیا؟ ابوموسیٰ ؓ کو بھی ان کی مشایعت کا حکم ملا،اوطاس میں مشرکین کا مقابلہ ہوا، ابو عامر سخت زخمی ہوئے،ابوموسیٰ ؓ نے قاتل کا تعاقب کرکے اس کو قتل کیا، پھر لوٹ کر ابا عامر کے گھٹنے سے تیر نکالا، زخم سے خون جاری ہوگیا،ہو گیا، زخم کاری تھا،بچنے کی امید نہ تھی،ابوموسیٰ ؓ سے کہا میری طرف سے حضور انور ﷺ کی خدمت میں سلام کے بعد دعائے مغفرت کی درخواست کرنا یہ کہہ کر ابو عامر واصل بحق ہوگئے،ہو گئے، حضرت ابوموسی ؓ نے لوٹ کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ان کا پیام پہنچادیا،آپ نے وضو کرکے ان کے لیے دعائے مغفرت فرمائی، حضرت ابوموسی ؓ نے عرض کیا، حضور میرے لیے بھی دعا فرمائیں، آپ نے دعا فرمائی،خدایا عبداللہعبد اللہ بن قیس (ابوموسیٰ ؓ) کے گناہوں کو بخش دے اورقیامت کے دن ان کا معزز اورشریفانہ داخلہ فرما۔
<ref>(بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ اوطاس)</ref></big>