"اویس قرنی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی کے لیے
م خودکار: درستی املا ← علما، عبد اللہ، چاہیے، جنھوں، 9، 8، اخفا، یا، ہو گئی، گذر، 1، دیے
سطر 181:
 
== بعض خاص فضائل ==
<big>تابعین میں اویس کے بعض فضائل ایسے ہیں جو مخصوص ان کے طغرائے امتیاز ہیں اور ان کے علاوہ کسی کے حصہ میں نہیں آئے،آپ کی دستار فضیلت کا سب سے نمایاں طرہ سرکار رسالت کا عطا کردہ خیرالتابعین کا لقب ہے،عبداللہہے،عبد اللہ ابن ابی اوفی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے کہ میری امت کے ایک شخص کی شفاعت سےبنی تمیم کی بڑی تعداد جنت میں داخل ہوگی،حسن کے نزدیک اس سے مراد اویس قرنی ہیں۔<ref>(اصابہ:۱1/۱۱۹،بحوالہ119،بحوالہ دلائل بیہقی)</ref> اگرچہ اس قلیل کی روایت زیادہ لائق اعتبار نہیں ،تاہم ان سے اویس کے درجہ کا پتہ چلتا ہے۔</big>
 
== اویس کی شخصیت میں شک کے اسباب ==
<big>یہ عجیب حیرت انگیز امر ہے کہ خیر التابعینکے ان فضائل ومناقب اوراخلاقی وروحانی کمالات کے باوجود بعض ایسی روایتیں بھی ملتی ہیں جن سے ان کا وجود مشتبہ ہوجاتا ہے کہ اویس نام ان اوصاف کے کوئی تابعی تھے بھی یا نہیں، مثلاً ابن عدی کا یہ بیان کہ امام مالکؒ ان کے وجود کے منکر تھے،یا سمعانی کی یہ روایت کہ ابن حبان کاکہنا ہے کہ ہمارے بعض اصحاب ان کے وجود کے منکر تھے،تھے یا سمعانی کی یہ روایت کہ ابن حبان کا بیان ہے کہ ہمارے بخاری کے نزدیک ان کے اسناد محل نظر ہیں۔
لیکن دوسرےعلماء محدثین اورکتب احادیث وطبقات کے ان کثیر بیانات کے مقابلہ میں جن کے بعد خیر التابعین کی شخصیت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی،ان چند کمزور روایتوں کی کوئی حیثیت نہیں، اس سلسلہ میں چند امور قابل غور ہیں،ایک یہ کہ جن روایات سے اویس قرنی کا وجود مشتبہ معلوم ہوتا ہے ان کی روایتی حیثیت کیا ہے؟ پھر ان کی صحت کی صورت میں ان سے اویس کے عدم وجود کا نتیجہ نکالنا کہاں تک صحیح ہے اوران کے مقابلہ میں دوسرے علماءعلما اورکتب احادیث وطبقات کی شہادت کیا ہے۔
روایتی حیثیت سے اس قسم کی تمام روایتیں ناقابل اعتماد ہیں،حافظ ابن حجر اورسمعانی نے اگرچہ یہ روایتیں نقل کی ہیں؛ لیکن ان کی کوئی سندنہیں دی ہے، اس لیے محدثا نہ اصول سے وہ ساقط الاعتبار اورناقابل استناد ہیں۔
لیکن اگر انہیں صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی ان سے اویس قرنی کے نہ ہونے کا نتیجہ نکالناصحیح نہیں ہے ،اس لیے کہ جن جن لوگوں نے ان کے وجود میں شک ظاہر کیا ہے،یا اس سے انکار کیا ہے وہ صرف اس بنا پر کہ انہوں نے اس عہد میں ان کا ذکر نہیں سنا ،یا ان کے حالات ان کے علم میں نہیں آئے، لیکن ان میں سے ایک چیز بھی ان کے نہ ہونے کا ثبوت نہیں۔
اصولاً ہر زمانہ میں انہی اشخاص کے حالات کا لوگوں کو علم ہوتا ہے، جو کسی حیثیت سے نمایاں ہوتے ہیں، عزلت نشین اورخاموش اشخاص سے واقفیت نہیں ہوتی،خود صحابہ کے متعلق یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ ہر صحابی سے اس عہد کے لوگ واقف تھے یا ان سب کے حالات لکھے گئے ،عموماً انہی صحابہ کے حالات معلوم ہیں، جنہوںجنھوں نے کوئی علمی یا عملی کام کیے یا سلسلہ روایت میں کہیں ان کا نام آگیا ہے، بعضوں کا صرف نام ہی معلوم ہے اورکسی حالات کا علم نہیں، ایسی حالت میں گمنام تابعین کا کیا ذکر۔
اس اصول کو پیش نظر رکھنےکے بعد اویس قرنی کے حالات پر نظر ڈالنی چاہئےچاہیے جیسا کہ ان کے حالات سے ظاہر ہوتا ہےکہ وہ نہ صرف عملی دنیا سے الگ تھلگ اورگوشہ نشین تھے ؛بلکہ اپنے اخفاءاخفا میں ان کو اتنا اہتمام تھا کہ اہل دنیا کی نگاہوں سے چھپتے پھرتے تھے اور اس کے انہوں نے محدث اور مفتی بنناتک گوارانہ کیا کہ اس صورت میں وہ مرکز توجہ ہوجاتے،انہوں نے اپنی زندگی ایسی بنائی تھی کہ بعض خواص کے علاوہ خود ان کے اہل وطن تک ان سے واقف نہ تھے اورجو لوگ جانتے بھی تھے،وہ محض ایک وارفتہ مزاج سودائی کی حیثیت سے،ایسی حالت میں اس عہد کے بعض علماءعلما کا ان سے واقف نہ ہونا کوئی تعجب انگیز نہیں کہ علماءعلما کی واقفیت کے لیے علمی اورعملی امتیاز ضروری تھا۔
لیکن بہرحال اُن کی شخصیت چھپنے والی نہ تھی،اس لیے بہت سے خواص پر ان کی سبقت آشکار ہوگئیہو گئی جس کے حالات اوپر گزرگذر چکے ہیں ،پھر جب ہم کتب احادیث وطبقات پرنظر ڈالتے ہیں تو صحیح مسلم تک میں ان کے مستقل فضائل ملتے ہیں؛بلکہ حدیث کی کتابوں میں ان کے حالات طبقات ورجال سے زیادہ ہیں،حدیث کی حسب ذیل کتابوں میں ان کے حالات ہیں یا کسی نہ کسی حیثیت سے ان کا ذکر آیا ہے،مسند احمد بن حنبل ، صحیح مسلم،دلائل بیہقی،حلیۃ الاولیاء،ابو نعیم، مسند ابویعلی،مسند ابو عوانہ،مستدرک ،حاکم وغیرہ،ان میں سے اکثروں کے حوالے حافظ ابن حجر نے اصابہ میں دیئےدیے ہیں،ممکن ہے ان کے علاوہ بعض اورکتابوں میں بھی ان کے حالات ہوں، طبقات ورجال کی کتابوں میں ان کا ذکر کم ہونے کا سبب یہ ہے کہ ان میں عموما انہی لوگوں کے تفصیلی حالت ہیں جن کا تعلق علمی یا عملی دنیا سے رہا ہے، اس کے باوجود طبقات ابن سعد، اصابہ، اسد الغابہ ،حلیۃ الاولیاء، ابن عساکر،تہذیب ،میزان الاعتدال، لسان المیزان وغیرہ قریب قریب تمام متد اول کتابوں میں ان کے حالات موجود ہیں،پھر جن علماءعلما نے ان کے وجود کے انکار کی روایتیں نقل کی ہیں انہیں خود ان پر اعتماد نہیں ہےا ور وہ اویس قرنی کی شخصیت کو مانتے ہیں؛چنانچہ حافظ ابن حجر امام مالک کے انکار کی روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ان کی (اویس قرنی) شہرت اوران کے حالات اتنے ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے ان کے وجود میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں <ref>(اصابہ:۱1/۱۱۸118)</ref> ان بیانات کے بعد اویس قرنی کی شخصیت میں کوئی شک وشبہ نہیں رہ جاتا ،تذکروں میں ان کے حالات بہت ملتے ہیں،لیکن ان میں ہرقسم کی رطب ویابس روایتیں ہیں،اس لیے ہم نے تذکرۃ الاولیاء کے ایک دوبیانوں کے علاوہ انہیں ہاتھ نہیں لگایا ہے۔</big>
 
=== دانت توڑنے کا واقعہ ===