"موسی ابن عمران" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 620:
</big>
 
<big>{ وَقَالَ الَّذِیْ اٰمَنَ یَا قَوْمِ اتَّبِعُوْنِ اَہْدِکُمْ سَبِیْلَ الرَّشَادِ یَا قَوْمِ اِنَّمَا ہٰذِہِ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا مَتَاعٌ وَّاِنَّ الْاٰخِرَۃَ ہِیَ دَارُ الْقَرَارِ مَنْ عَمِلَ سَیِّئَۃً فَـلَا یُجْزٰٓی اِلَّا مِثْلَہَا وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ یُرْزَقُوْنَ فِیْہَا بِغَیْرِ حِسَابٍ وَیَا قَوْمِ مَا لِیْٓ اَدْعُوْکُمْ اِلَی النَّجَاۃِ وَتَدْعُوْنَنِیْ اِلَی النَّارِ تَدْعُوْنَنِیْ لِاَکْفُرَ بِاللّٰہِ وَاُشْرِکَ بِہٖ مَا لَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌ وَاَنَا اَدْعُوْکُمْ اِلَی الْعَزِیْزِ الْغَفَّارِ لَا جَرَمَ اَنَّمَا تَدْعُوْنَنِیْ اِلَیْہِ لَیْسَ لَہٗ دَعْوَۃٌ فِی الدُّنْیَا وَلَا فِی الْاٰخِرَۃِ وَاَنَّ مَرَدَّنَا اِلَی اللّٰہِ وَاَنَّ الْمُسْرِفِیْنَ ہُمْ اَصْحٰبُ النَّارِ فَسَتَذْکُرُوْنَ مَا اَقُوْلُ لَکُمْ وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌم بِالْعِبَادِ } <ref>(المومن : ٤٠/٣٨ تا ٤٤)</ref>
” اور کہا اس ایماندار نے اے قوم راہ چلو میری ‘ پہنچا دوں تم کو نیکی کی راہ پر اے میری قوم یہ جو زندگی ہے دنیا کی سو کچھ فائدہ اٹھالینا ہے اور وہ گھر جو پچھلا ہے وہی ہے جم کر رہنے کا گھر ‘ جس نے کی ہے برائی تو وہی بدلہ پائے گا اس کے برابر اور جس نے کی ہے بھلائی مرد ہو یا عورت اور وہ یقین رکھتا ہو سو وہ لوگ جائیں گے بہشت میں روزی پائیں گے وہاں بیشمار اور اے قوم مجھ کو کیا ہوا ہے بلاتا ہوں تم کو نجات کی طرف اور تم بلاتے ہو مجھ کو آگ کی طرف ‘ تم چاہتے ہو کہ میں منکر ہو جاؤں اللہ سے اور شریک ٹھہراؤں اس کا اس کو جس کی مجھ کو خبر نہیں اور میں بلاتا ہوں تم کو اس زبردست گناہ بخشنے والے کی طرف آپ ہی ظاہر ہے کہ جس کی طرف تم مجھ کو بلاتے ہو اس کا بلاوا کہیں نہیں دنیا میں اور نہ آخرت میں اور یہ کہ ہم کو پھرجانا ہے اللہ کے پاس اور یہ کہ زیادتی والے وہی ہیں دوزخ کے لوگ سو آگے یاد کرو گے جو میں کہتا ہوں تم کو اور میں سونپتا ہوں اپنا معاملہ اللہ کو ‘ بیشک اللہ کی نگاہ میں ہیں سب بندے۔ “
جب فرعون اور اس کے سرداروں نے اس مرد مومن کی باتیں سنیں تو ان کا رخ موسیٰ (علیہ السلام) سے ہٹ کر اس کی طرف ہوگیا اور فرعونیوں نے چاہا کہ پہلے اس ہی کی خبر لیں اور اس کو قتل کردیں مگر اللہ تعالیٰ نے اس ناپاک ارادہ میں ان کو کامیاب نہ ہونے دیا :
{ فَوَقَاہُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِ مَا مَکَرُوْا وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْئُ الْعَذَابِ اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اَدْخِلُوْآ الَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ } <ref>(المومن : ٤٠/٤٥‘ ٤٦)</ref>
” سو اللہ تعالیٰ نے اس کو ان کی تدبیروں کے شر سے بچا لیا اور فرعون کے لوگوں کو برے عذاب نے آلیا۔ نار جہنم ہے جس پر وہ صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جس دن قیامت آجائے گی (تو کہا جائے گا) فرعونیوں کو سخت عذاب میں داخل کرو۔
توراۃ میں اگرچہ گزشتہ واقعات کا اکثر حصہ مذکور ہے مگر دو باتوں کا تذکرہ نہیں کیا گیا ایک فرعون کے اس دوسرے حکم کا ذکر نہیں ہے کہ بنی اسرائیل کی اولاد نرینہ کو قتل کیا جائے اور دوسرے اس واقعہ کا کہ فرعون کی قوم میں سے بھی بعض آدمی ایمان لائے تھے اور ان میں سے ایک مرد مومن نے فرعون اور اپنی قوم کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل سے باز رکھنے کی کوشش کی ‘ ان کو دین کی تبلیغ کی اور سچائی کو قبول کرلینے کی دعوت دی۔ بظاہر اس دوسرے واقعہ کے ترک کردینے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ بنی اسرائیل کو فرعون اور فرعونیوں کے مظالم کی وجہ سے انتہائی رنج و غصہ تھا اور اس نے بغض و کینہ کی شکل اختیار کرلی تھی ‘ لہٰذا اس نے اجازت نہ دی کہ اس قوم کے کسی فرد کیلئے بھی یہ ثابت کریں کہ اس میں سعادت اور حمایت حق کی روح موجود تھی۔</big>