"موسی ابن عمران" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 724:
” پھر دکھلائی (موسیٰ (علیہ السلام) نے) اس کو بڑی نشانی پس اس (فرعون) نے جھٹلایا اور نافرمانی کی۔ “</big>
 
== بنی اسرائیل کا خروج اور فرعون کا تعاقب ==
 
<big>جب معاملہ اس حد کو پہنچ گیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ تم بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر باپ دادا کی سرزمین کی جانب لے جاؤ۔
مصر سے فلسطین یا ارض کنعان جانے کے دو راستے ہیں ایک خشکی کا راستہ ہے اور وہ قریب ہے اور دوسرا بحر احمر (قلزم) کا راستہ یعنی اس کو عبور کر کے بیابان شور اور سینا (تیہ) کی راہ ہے اور یہ دور کی راہ ہے مگر خدائے تعالیٰ کی مصلحت کا تقاضا یہی ہوا کہ وہ خشکی کی راہ چھوڑ کر دور کی راہ اختیار کریں اور قلزم کو پار کر کے جائیں۔
واقعات رونما ہوجانے کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ اس راہ کو حق تعالیٰ نے اس لیے ترجیح دی کہ خشکی کی راہ سے گزرنے میں فرعون اور اس کی فوج سے جنگ ضروری ہوجاتی کیونکہ انھوں نے بنی اسرائیل کو قریب ہی آلیا تھا اور اگر دریا کا معجزہ پیش نہ آتا تو فرعون بنی اسرائیل کو واپس مصر لے جانے میں کامیاب ہوجاتا اور چونکہ صدیوں کی غلامی نے بنی اسرائیل کو بزدل اور پست ہمت بنادیا تھا ‘ اس لیے وہ خوف اور رعب کی وجہ سے کسی طرح فرعون کے ساتھ جنگ پر آمادہ نہ ہوتے ‘ توراۃ سے بھی اس توجیہ کی تائید نکلتی ہے اس میں مذکور ہے :
اور جب فرعون نے ان لوگوں کو جانے کی اجازت دے دی تو خدا ان کو فلستیوں کے ملک کے راستہ سے نہیں لے گیا اگرچہ ادھر سے نزدیک پڑتا کیونکہ خدا نے کہا کہ ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ لڑائی بھڑائی دیکھ کر پچھتانے لگیں اور مصر کو لوٹ جائیں بلکہ خداوند ان کو چکر کھلا کر بحر قلزم کے بیابان کے راستے لے گیا۔ “ <ref>(خروج باب ١٣ آیات ١٧‘ ١٨)</ref>
علاوہ ازیں فرعون اور قوم فرعون کو ان کی نافرمانی اور سرکشی کی پاداش اور عظیم الشان اعجاز کے ذریعہ ظالم و قاہر اقتدار سے مظلوم قوم کی نجات کا عدیم النظیر مظاہرہ کرنا بھی مقصود تھا ‘ اسی لیے یہ راستہ موزوں سمجھا گیا۔
غرض حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہا السلام) بنی اسرائیل کو لے کر راتوں رات بحر احمر کی راہ پر ہو لیے اور روانہ ہونے سے پہلے مصری عورتوں کے زیورات اور قیمتی پارچہ جات جو ایک تہوار میں مستعار لیے تھے وہ بھی واپس نہ کرسکے کہ کہیں مصریوں پر اصل حال نہ کھل جائے۔
ادھر پرچہ نویسوں نے فرعون کو اطلاع کی کہ بنی اسرائیل مصر سے فرار ہونے کے لیے شہروں سے نکل گئے ہیں فرعون نے اسی وقت ایک زبردست فوج کو ساتھ لیا اور رعمسیس سے نکل کر ان کا تعاقب کیا اور صبح ہونے سے پہلے ان کے سر پر جا پہنچا۔
بنی اسرائیل کی تعداد بقول توراۃ علاوہ بچوں اور چوپایوں کے چھ لاکھ تھی مگر پو پھٹنے کے وقت جب انھوں نے پیچھے پھر کے دیکھا تو فرعون کو سر پر پایا ‘ گھبرا کر کہنے لگے :
” کیا مصر میں قبریں نہ تھیں جو تو ہم کو مرنے کے لیے بیابان میں لے آیا ہے ؟ تو نے ہم سے یہ کیا کیا کہ ہم کو مصر سے نکال لایا ؟ کیا ہم تجھ سے مصر میں یہ بات نہ کہتے تھے کہ ہم کو رہنے دے کہ ہم مصریوں کی خدمت کریں ؟ کیونکہ ہمارے لیے مصریوں کی خدمت کرنا بیابان میں مرنے سے بہتر ہوتا۔ “ <ref>(خروج باب ١٤ آیات ١١‘ ١٢)</ref></big>