"موسی ابن عمران" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 1,041:
” جب تیسرا دن آیا تو صبح ہوتے ہی بادل گرجنے اور بجلی چمکنے لگی اور پہاڑ پر کالی گھٹا چھا گئی اور قرنا کی آواز بہت بلند ہوئی اور سب لوگ ڈیروں میں کانپ گئے اور موسیٰ لوگوں کو خیمہ گاہ سے باہر لایا کہ خدا سے ملائے اور وہ پہاڑ سے نیچے آکھڑے ہوئے اور کوہ سینا اوپر سے نیچے تک دھوئیں سے بھر گیا کیونکہ خداوند شعلہ میں ہو کر اس پر اترا اور دھواں تنور کے دھوئیں کی طرح اوپر کو اٹھ رہا تھا اور وہ سارا پہاڑ زور سے ہل رہا تھا۔۔ چنانچہ موسیٰ نیچے اتر کر لوگوں کے پاس گیا اور یہ باتیں ان کو بتائیں۔ “ <ref>(خروج باب ١٩ آیات ١٦۔ ٢٥)</ref></big>
 
== ارض مقدس کا وعدہ اور بنی اسرائیل ==
 
<big>سینا کے جس میدان میں اس وقت بنی اسرائیل موجود تھے یہ سرزمین فلسطین سے قریب تھا ‘ اور ان کے باپ دادا حضرت ابراہیم ‘ اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) سے خدا کا وعدہ تھا کہ تمہاری اولاد کو پھر اس سرزمین کا مالک بنائیں گے اور وہ یہاں پھولے پھلے گی ‘ لہٰذا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی معرفت خدا کا حکم ہوا کہ اپنی قوم سے کہو کہ ارض مقدس میں داخل ہوں اور وہاں کے جابر و ظالم حکمرانوں کو نکال کر عدل و انصاف کی زندگی بسر کریں ‘ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ فتح تمہاری ہوگی اور تمہارے ظالم دشمن ناکام ہوں گے ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے پہلے کہ بنی اسرائیل کو ارض مقدس میں داخل ہونے کیلئے آمادہ کریں بارہ آدمیوں کو تفتیش حال کیلئے بھیجا ‘ وہ فلسطین کے قریبی شہر اریحا میں داخل ہوئے اور تمام حالات کو بغور دیکھا ‘ جب واپس آئے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بتایا کہ وہ بہت جسیم اور تن و توش کے زبردست ہیں اور بہت قوی ہیکل ہیں۔
 
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ جس طرح تم نے مجھ سے ان کے متعلق کہا ہے قوم کے سامنے نہ کہنا اس لیے کہ عرصہ دراز کی غلامی نے ان کے حوصلے پست کردئیے ہیں اور ان میں شجاعت ‘ خودداری اور علوہمت کی جگہ بزدلی ‘ ذلت اور پستیٔ ہمت نے لے لی ہے ‘ مگر آخر یہ بھی اسی قوم کے افراد تھے ‘ نہ مانے اور خاموشی کے ساتھ قوم کے سامنے دشمن کی طاقت کا خوب بڑھا چڑھا کر ذکر کیا۔ البتہ صرف دو شخص یوشع بن نون اور کالب بن یوفنا نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حکم کی پوری پوری تعمیل کی اور انھوں نے بنی اسرائیل سے ایسی کوئی بات نہ کہی کہ جس سے ان کی ہمت شکست ہو۔
اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل سے کہا کہ تم اس بستی (اریحا) میں داخل ہو اور دشمن کا مقابلہ کر کے اس پر قابض ہو جاؤ خدا تمہارے ساتھ ہے :
{ وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآئَ وَ جَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا وَّ اٰتٰیکُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَ لَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ } <ref>(المائدۃ : ٥/٢٠‘ ٢١)</ref>
” اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا ” اے قوم تم پر جو خدا کا احسان رہا ہے اس کو یاد کرو کہ اس نے تم میں نبی اور پیغمبر بنائے اور تم کو بادشاہ اور حکمران بنایا اور وہ کچھ دیا جو جہانوں میں کسی کو نہیں دیا۔ اے قوم اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کردیا ہے اور پشت پھیر کر نہ لوٹو (کہ نتیجہ یہ نکلے) کہ تم خسارہ اور نقصان اٹھانے والے بن کر لوٹو۔ “
بنی اسرائیل نے یہ سن کر جواب دیا کہ موسیٰ وہاں تو بڑے ظالم لوگ بستے ہیں ‘ ہم تو اس وقت تک اس بستی میں داخل نہ ہوں گے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں۔ افسوس بدبختوں نے یہ نہ سوچا کہ جب تک ہمت و شجاعت کے ساتھ تم ان کو یہاں سے نہ نکالو گے تو یہ ظالم خود کیسے نکل جائیں گے۔ یوشع اور کالب نے جب یہ دیکھا تو قوم کو ہمت دلائی اور کہا : شہر کے پھاٹک سے گزر جانا کچھ مشکل نہیں ہے چلو اور ان کا مقابلہ کرو ہم کو پورا یقین ہے کہ تم ہی غالب رہو گے۔
{ قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمَا ادْخُلُوْا عَلَیْھِمُ الْبَابَ فَاِذَا دَخَلْتُمُوْہُ فَاِنَّکُمْ غٰلِبُوْنَ وَ عَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ } <ref>(المائدۃ : ٥/٢٣)</ref>
” ان ڈرنے والوں میں سے دو ایسے آدمیوں نے جن پر خدا نے اپنا فضل و انعام کیا یہ کہا ” تم ان جابروں پر دروازہ کی جانب سے داخل ہو جاؤ پس جس وقت تم داخل ہو جاؤ گے تم بلاشبہ غالب رہو گے اور (یہ بھی کہا) اللہ پر ہی بھروسہ رکھو اگر تم ایمان والے ہو۔ “
لیکن بنی اسرائیل پر اس بات کا بھی مطلق اثر نہ ہوا اور وہ بدستور اپنے انکار پر قائم رہے اور جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے زیادہ زور دیا تو اپنے انکار پر اصرار کرتے ہوئے کہنے لگے :
{ قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَھَآ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْھَا فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ } <ref>(سورہ المائدہ : ٥/٢٤)</ref>
” انھوں نے کہا کہ ” اے موسیٰ ہم کبھی اس شہر میں اس وقت تک داخل نہیں ہوں گے جب تک وہ اس میں موجود ہیں ‘ پس تو اور تیرا رب دونوں جاؤ اور ان سے لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں (یعنی تماشہ دیکھیں گے) “
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب یہ ذلیل اور بےہودہ جواب سنا تو بہت افسردہ خاطر ہوئے اور انتہائی رنج و ملال کے ساتھ درگاہ الٰہی میں عرض کیا بار الٰہا میں اپنے اور ہارون کے سوا کسی پر قابو نہیں رکھتا سو ہم دونوں حاضر ہیں ‘ اب تو ہمارے اور اس نافرمان قوم کے درمیان جدائی کر دے ‘ یہ تو سخت نااہل ہیں ‘ اللہ نے حضرت موسیٰ پر وحی نازل فرمائی : موسیٰ تم غمگین نہ ہو ان کی نافرمانی کا تم پر کوئی بار نہیں ‘ اب ہم نے ان کیلئے یہ سزا مقرر کردی ہے کہ یہ چالیس سال اسی میدان میں بھٹکتے پھریں گے اور ان کو ارض مقدس میں جانا نصیب نہ ہوگا ‘ ہم نے ان پر ارض مقدس کو حرام کردیا ہے :
{ قَالَ رَبِّ اِنِّّیْ لَآ اَمْلِکُ اِلَّا نَفْسِیْ وَ اَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ قَالَ فَاِنَّھَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْھِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً یَتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَـلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ } <ref>(المائدہ : ٥/٢٥‘ ٢٦)</ref>
” (موسیٰ نے) کہا اے پروردگار میں اپنے اور اپنے بھائی کے ماسوا کسی کا مالک نہیں ہوں ‘ لہٰذا تو ہمارے اور اس نافرمان قوم کے درمیان تفریق کر دے (اللہ تعالیٰ نے) کہا بلاشبہ ان پر ارض مقدس کا داخلہ چالیس سال تک حرام کردیا گیا ‘ اس مدت میں یہ اسی میدان میں بھٹکتے پھریں گے پس تو نافرمان قوم پر غم نہ کھا اور افسوس نہ کر۔ “
وادی سینا کو ” تیہ “ اس لیے کہتے ہیں کہ قرآن عزیز نے بنی اسرائیل کیلئے کہا ہے : یَتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِ <ref>(مائدہ ٥/٢٦)</ref> ” یہ اس زمین میں بھٹکتے پھریں گے “ جب کوئی شخص راہ سے بھٹک جائے تو عربی میں کہتے ہیں تَاہَ فُـلَانٌ۔
توراۃ میں اس واقعہ کی تفصیلات اگرچہ اس انداز میں مذکور نہیں ہیں تاہم ” گنتی باب ١٤“ میں بنی اسرائیل کے ارض مقدس میں داخلہ سے انکار ‘ اس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ناراضی اور پھر چالیس سال تک ان پر ارض مقدس کے داخلہ کا حرام ہوجانا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس مدت کے اندر اندر بنی اسرائیل کے وہ تمام افراد مرجائیں گے جنہوں نے خدا کے حکم کے خلاف ارض مقدس کے داخلہ سے انکار کیا ہے اور ان کے بعد نئی نسل کو داخلہ کی اجازت ہوگی جو کالب اور یوشع کی سرکردگی میں دشمنوں کو پامال کر کے پاک زمین میں داخل ہوں گے نیز یہ کہ حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ (علیہا السلام) کا بھی اس وقت انتقال ہوچکا ہو گا :
” پھر خداوند نے موسیٰ اور ہارون کو خطاب کر کے فرمایا : میں کب تک اس خبیث گروہ کے مقابل جو میری شکایت کرتا ہے صبر کروں ؟ بنی اسرائیل جو میرے برخلاف شکایتیں کرتے ہیں میں نے ان کی شکایتیں سنیں ‘ ان سے کہہ ‘ خداوند کہتا ہے ‘ مجھے اپنی حیات کی قسم جیسا تم نے مجھے سنا کے کہا ہے میں تم سے ویسا ہی کروں گا ‘ تمہاری لاشیں اور ان سب کی جو تم میں شمار کئے گئے ان کے کل جمع کے مطابق بیس برس والے سے لے کر اوپر والے تک جنہوں نے میری شکایتیں کیں اس بیابان میں گریں گی ‘ تم بیشک اس زمین تک نہ پہنچو گے جس کی بابت میں نے قسم کھائی ہے کہ تمہیں وہاں بساؤں گا ‘ سوا یوفنہ کے بیٹے کالب اور نون کے بیٹے یشوع اور تمہارے لڑکوں کو جن کے حق میں تم کہتے ہو کہ وہ لوٹ جائیں گے میں ان کو داخل کروں گا ‘ اس زمین کی قدر کو جسے تم نے ذلیل جانا وہ پہچانیں گے ‘ پر تم جو ہو تمہاری لاشیں اس بیابان ہی میں گریں گی اور تمہارے لڑکے اس دشت میں چالیس برس تک بھٹکتے پھریں گے اور تمہاری برگشتگی کے اٹھانے والے ہوں گے جب تک کہ تمہاری لاشیں اس دشت میں نیست و نابود نہ ہوں ‘ ان دنوں کے شمار کے مطابق جن میں تم اس زمین کی جاسوسی کرتے تھے ‘ جو چالیس دن ہیں دن پیچھے ایک سال ہوگا سو تم چالیس برس تک اپنے گناہ کو اٹھائے رہو گے ‘ تب تم میری عہد شکنی کو جان لو گے۔ “ <ref>(گنتی باب ١٤ آیات ٢٦۔ ٣٥)</ref>
اس جگہ یہ شبہ پیدا نہ کرنا چاہیے کہ حضرت موسیٰ و ہارون (علیہا السلام) کو بھی اسی میدان میں رہنا پڑا اور وہ بھی ارض مقدس میں داخل نہ ہو سکے ‘ اس لیے کہ جب بنی اسرائیل کے اس پورے قافلہ پر ارض مقدس کو حرام کردیا گیا تو اب ضروری تھا کہ ان کی رشد و ہدایت کیلئے خدا کا پیغمبر ان میں موجود رہے تاکہ کچھ یہ بوڑھے بھی راہ حق پر قائم رہیں اور نئی نسل میں وہ استعداد پیدا ہو جس کے ذریعہ وہ ارض مقدس میں داخل ہو کر خدا کے حکم کو پورا کریں۔
</big>