"عزیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی کے لیے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 46:
” اور یہودیوں نے کہا : عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائیوں نے کہا ‘ مسیح اللہ کا بیٹا ہے ‘ یہ ان کی باتیں ہیں محض ان کی زبانوں سے نکالی ہوئی۔ ان لوگوں نے بھی ان ہی کی سی بات کہی جو اس سے پہلے کفر کی راہ اختیار کرچکے ہیں۔ ان پر اللہ کی لعنت ‘ یہ کدھر بھٹکے جا رہے ہیں۔ “
البتہ سورة بقرہ میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک برگزیدہ ہستی کا اپنے گدھے پر سوار ایک ایسی بستی سے گزر ہوا جو بالکل تباہ و برباد اور کھنڈر ہوچکی تھی اور وہاں نہ کوئی مکین باقی رہا تھا اور نہ کوئی مکان ‘ مٹے ہوئے چند نقوش باقی تھے جو اس کی بربادی اور تباہی کے مرثیہ خواں تھے۔ ان بزرگ نے یہ دیکھا تو تعجب اور حیرت سے کہا کہ ایسا کھنڈر اور تباہ حال ویرانہ پھر کیسے آباد ہوگا اور یہ مردہ بستی کس طرح دوبارہ زندگی اختیار کرے گی۔ یہاں تو کوئی بھی ایسا سبب نظر نہیں آتا ؟ یہ ابھی اسی فکر میں غرق تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی جگہ ان کی روح قبض کرلی اور سو برس تک اسی حالت میں رکھا۔ یہ مدت گزر جانے کے بعد اب ان کو دوبارہ زندگی بخشی اور تب ان سے کہا : بتاؤ کتنا عرصہ اس حالت میں رہے ہو ؟ وہ جب تعجب کرنے پر موت کی آغوش میں سوئے تھے تو دن چڑھے کا وقت تھا اور جب دوبارہ زندگی پائی تو آفتاب غروب ہونے کا وقت قریب تھا۔ اس لیے انھوں نے جواب دیا : ایک دن یا اس سے بھی کم۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ایسا نہیں ہے بلکہ تم سو برس تک اسی حالت میں رہے ہو اور اب تمہارے تعجب اور حیرت کا یہ جواب ہے کہ تم ایک طرف اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ اس میں مطلق کوئی تغیر نہیں آیا اور دوسری جانب اپنے گدھے کو دیکھو کہ اس کا جسم گل سڑ کر صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا ہے اور پھر ہماری قدرت کا اندازہ کرو کہ جس چیز کو چاہا کہ محفوظ رہے تو سو برس کے اس طویل عرصہ میں کسی بھی قسم کے موسمی تغیرات نے اثر نہ کیا اور محفوظ وسالم رہی اور جس چیز کے متعلق ارادہ کیا کہ اس کا جسم گل سڑ جائے تو وہ گل سڑ گیا اور اب تمہاری آنکھوں دیکھتے ہم اس کو دوبارہ زندگی بخش دیتے ہیں اور یہ سب کچھ اس لیے کیا تاکہ ہم تم کو اور تمہارے واقعہ کو لوگوں کیلئے ” نشان “ بنادیں اور تاکہ تم یقین کے ساتھ مشاہدہ کرلو کہ خدائے تعالیٰ اس طرح مردہ کو زندگی بخش دیتا اور تباہ شدہ شے کو دوبارہ آباد کردیتا ہے۔ چنانچہ جب اس برگزیدہ ہستی نے قدرت الٰہی کے یہ ” نشانات “ دیکھنے کے بعد شہر کی جانب نظر کی تو اس کو پہلے سے زیادہ آباد اور با رونق پایا۔ تب انھوں نے اظہار عبودیت کے بعد یہ اقرار کیا کہ بلاشبہ تیری قدرت کاملہ کیلئے یہ سب کچھ آسان ہے اور مجھ کو علم الیقین کے بعد عین الیقین کا درجہ حاصل ہوگیا :
{{تصویری قرآن| 2|209259}} <ref>(سورہ البقرۃ : ٢/٢٥٩)</ref>
” اور کیا تم نے اس شخص کا حال نہ دیکھا ‘ جس کا ایک بستی پر گزر ہوا جو اپنی چھتوں سمیت زمین پر ڈھیر تھی تو وہ کہنے لگا اس بستی کی موت (تباہی ) کے بعد اللہ تعالیٰ کس طرح اس کو زندگی دے گا (آباد کرے گا) پس اللہ نے اس شخص پر (اسی جگہ) سو برس تک موت طاری کردی اور پھر زندہ کردیا۔ اللہ نے دریافت کیا : تم یہاں کتنی مدت پڑے رہے۔ اس نے جواب دیا : ایک دن یا دن کا بعض حصہ۔ اللہ نے کہا : (ایسا نہیں ہے بلکہ تم سو برس تک اس حالت میں رہے پس تم اپنے کھانے پینے ( کی چیزوں) کو دیکھو کہ وہ بگڑی تک نہیں اور پھر اپنے گدھے کو دیکھو (کہ وہ گل سڑ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا ہے) اور (یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تاکہ ہم تم کو لوگوں کیلئے ” نشان “ بنائیں اور اب تم دیکھو کہ کس طرح ہم ہڈیوں کو ایک دوسرے پر چڑھاتے اور آپس میں جوڑتے ہیں اور پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں۔ پس جب اس کو ہماری قدرت کا مشاہدہ ہوگیا تو اس نے کہا : میں یقین کرتا ہوں کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ “
ان آیات کی تفسیر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ شخص کون تھا جس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تو اس کے جواب میں مشہور قول یہ ہے کہ یہ حضرت عزیر (علیہ السلام) تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم فرمایا تھا کہ تم یروشلم جاؤ ‘ ہم اس کو دوبارہ آباد کریں گے ‘ جب یہ وہاں پہنچے اور شہر کو تباہ اور کھنڈر پایا تو بربنائے بشریت یہ کہہ اٹھے کہ اس مردہ بستی کو دوبارہ کیسے زندگی ملے گی ؟ اور ان کا یہ قول بہ شکل انکار نہیں تھا بلکہ تعجب اور حیرت کے ساتھ ان اسباب کے متلاشی تھے جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کو پورا کرنے والا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو اپنے برگزیدہ بندے اور نبی کی یہ بات بھی پسند نہیں آئی کیونکہ ان کیلئے یہ کافی تھا کہ خدا نے دوبارہ اس بستی کی زندگی کا وعدہ فرما لیا ہے۔ چنانچہ ان کے ساتھ وہ معاملہ پیش آیا جس کا ذکر مسطورہ بالا آیات میں ہے اور جب وہ زندہ کئے گئے تو یروشلم (بیت المقدس) آباد ہوچکا تھا۔