"تبع تابعین" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 40:
<ref>(مسنداحمد بن حنبل، حَدِيثُ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۲۳۵۳۶، شاملہ، الناشر:مؤسسة قرطبة،القاهرة)</ref>
اس تعلیم کا یہ اثر ہوا کہ عربی، عجمی، رومی ایرانی، کالے، گورے، غلام اور آقا ہرطبقہ وگروہ کے لوگ اسلام کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوگئے اور ان میں سے ہرایک گروہ اور طبقہ کے لوگوں نے اپنی اپنی ذاتی صلاحیت وتقویٰ کی بنیاد پربڑے سے بڑا شرف وامتیاز حاصل کیا؛ لیکن اموی حکومت نے جب اسلامی خلافت کی جگہ شخصی حکومت کی بنیاد ڈالی توانہوں نے اپنی سیاسی مصلحت کی بناپر اپنے گردایسے ہی لوگوں کوجمع کرنا شروع کیا اور انہی کی زیادہ ہمت افزائی کی جوہرحال میں ان کی حمایت کریں؛ چونکہ یہ خود عربی النسل تھے اور شام کے عربوں کی حمایت پران کی حکومت قائم ہوئی تھی اس لیے انہوں نے عربی عصبیت کوہوادی اور خاص طور پرعرب قبائل کوحکومت اور فوج میں زیادہ سے زیادہ دخیل کیا، اس دور کے عربی ادب وشاعری میں یہ چیز عام طور پرنظر آتی ہے، اس عصبیت سے اموی حکومت کوکچھ سیاسی فائدے ضرور ہوئے؛ لیکن اس ذہنیت نے عربوں میں بھی یمنی، مصری اور عدنانی وقحطانی عصبیت کوپھرسے زندہ کردیا اور یہ کہنا بالکل مبالغہ نہ ہوگا کہ اسی عصبیت نے مشرق میں بھی اموی حکومت کا بیڑا غرق کیا اور مغرب یعنی اندلس میں بھی ایک مدت تک ان کوچین لینے نہیں دیا، یہ داستان بڑی لمبی اور دل دوز ہے، اموی خلفاء میں حضرت عمربن عبدالعزیم رضی اللہ عنہ کی ایک ذات ایسی تھی جونہ صرف اس عصبیت سے دورتھے؛ بلکہ انہوں نے اس کے مٹانے کی بھی کوشش کی۔
=== غیرعربوں کی قومی عصبیت ===
 
ایران وروم کی سیاسی شکست کے بعد وہاں کی دبی اور کچلی ہوئی عام آبادی نے تواسلام کوبطیبِ خاطرقبول کرلیا اور اس کواپنے لیے ایک نعمت ورحمت تصور کیا؛ مگروہاں کے بااقتدار اور اونچے طبقہ نے گوظاہری طور پراسلامی حکومت کی اطاعت قبول کرلی تھی؛ مگرابھی تک اس کے دل سے طبقہ واریت اور قومی عصبیت کا ناپاک جذبہ نہیں نکلا تھا اور جب بھی ان کوموقع ملتا تھا وہ اس جذبہ کوظاہر کرتے رہتے تھے الاماشاءاللہ جس طرح امویوں نے اپنی سیاسی مصلحت کے تحت عربی عصبیت کوہوادی؛ اسی طرح عباسیوں نے اپنی حکومت کے قیام اور پھراس کے بقا کے لیے عجمی عصبیت کوابھارا جس کی وجہ سے ان کے پیرپورے طور پرجم گئے؛ چنانچہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ عربوں یامسلمانوں کے خلاف جتنی سیاسی بغاوتیں یااسلامی ممالک میں جتنے مذہبی اور معاشرتی فتنے پید ہوئے ان کی ابتدائ یاتوکسی عجمی کے ذریعہ ہوئی یاکم ازکم ان کی پشت پران کی مدد ضرور رہی، عباسی حکومت انہیں کی مدد سے قائم ہوئی جس کا خود منصور کواعتراف تھا اور بار بار اعلان کرتا رہا کہ:
ياأهل خُرَاسان، أنتم شيعتنا وأنصارنا، وأهل دعوتنا۔
<ref>(مروج الذهب:۱/۴۸۲، شاملہ،المؤلف : المسعودي،موقع الوراق۔ مسعودی:۱۲۷)</ref>
ترجمہ: اے اہلِ خراسان تم ہمارے مددگار اور انصار اور ہماری حکومت کے داعی ہو۔
مگراس کے باوجود منصور کے زمانہ سے لے کرہارون کے زمانہ تک جتنی بغاوتیں اور مذہبی فتنے پیدا ہوئے ان میں ایرانیوں کا ہاتھ ضرور تھا، مثال کے طور پرسنہ۱۳۷ میں سنباو کی بغاوت سنہ۱۴۱ میں فرقہ راوندیہ کی شورش میں انہی کا ہاتھ تھا، سنہ۱۵۰ میں استاذسیس نامی ایک خراسانی نے دعوائے نبوت کیا، جس کی دعوت کوسب سے زیادہ فروغ انہی میں ہوا؛ اسی ذہنیت کے نتیجہ میں منصور کواپنے سب سے بڑے حامی ابومسلم حراسانی کوقتل کرانا پڑا، عجمیت نوازی کے نتائج عباسی حکومت کے سامنے برابر آتے رہے؛ لیکن ایرانی اور غیرعربی عنصر عباسی حکومت میں اتنا دخیل ہوچکا تھا کہ اس کوبالکل نظر انداز کردینا اس کے بس میں نہیں تھا۔