"اسحاق بن راہویہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 15:
سنہ۱۶۱ھ یاسنہ۱۶۳ھ میں ولادت ہوئی (سنہ وفات میں اختلاف ہے، اس اختلاف کی وجہ سے ان کی تاریخِ ولادت میں بھی اختلاف ہوگیا ہے؛ مگرصحیح یہ ہے کہ سنہ۱۶۱ھ میں ولادت ہوئی اور سنہ۲۳۸ھ میں وفات پائی) ابتدائی تعلیم کے بعد حدیث کی طرف توجہ کی سب سے پہلے امام وقت عبداللہ بن مبارک کی خدمت میں گئے؛ مگراس کی کم سنی استفادہ میں مانع بنی؛ پھردوسرے شیوخ حدیث کی مجالسِ درس میں شریک ہوئے اور ان سے استفادہ کیا، اس وقت ممالکِ اسلامیہ میں دینی علوم کے جتنے مراکز تھے وہ سب ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور تھے؛ مگرابنِ راہویہ نے اِن تمام مقامات کا سفر کیا اور وہاں کے تمام ممتاز محدثین وعلماء سے استفادہ کیا، خطیب بغدادی نے اس سلسلہ میں عراق، حجاز، یمن، مکہ اور شام وغیرہ کا نام لیا ہے؛ مگران مقامات کی حیثیت محض ایک شہر کی نہیں تھی؛ بلکہ یہ مملکتِ اسلام کے بڑے بڑے صوبے یاعلاقے تھے، جن میں سینکڑوں علمی مراکم تھے اور بیشمار جگہوں پرفقہ وحدیث کی مجلسیں برپا تھیں، اس لیے ان مرکزی مقامات کی نہ جانے کتنے بستیوں کی خاک چھانی ہوگی، ان کے اساتذہ کے چند نام یہ ہیں:
سفیان بن عیینہ مکہ، جریر بن عبدالحمید راموی، اسماعیل بن عیلہ بصرہ، وکیع بن جراح، یحییٰ بن آدم، ابومعاویہ، ابوآسامہ کوفہ، عبدالرزاق بن ہمام، عبداللہ بن وہب، عبداللہ بن مبارک خراسان، یہ ان کے چند مشاہیراساتذہ کے نام دیئے گئے ہیں؛ ورنہ یہ تعداد اس سے بہت زیادہ ہے۔
=== تفسیر ===
 
ان کوابتدا ہی سے علم حدیث سے شغف تھا اور اسی کے حصول میں انہوں نے سب سے زیادہ محنت وکوشش کی؛ مگرتفسیر وفقہ وغیرہ میں بھی ان کو دسترس تھی، خطیب نے لکھا ہے کہ وہ حدیث وفقہ کے جامع تھے، جب وہ قرآن کی تفسیر بیان کرتے تھے تواس میں بھی سند کا تذکرہ کرتے تھے، ابوحاتم اس بارے میں کہتے ہیں کہ حدیث کے سلسلہ روایت اور الفاظ کا یاد کرنا تفسیر کے مقابلہ میں آسان ہے، ابنِ راہویہ میں یہ کمال ہے کہ وہ تفسیر کے سلسلہ سند کوبھی یاد کرلیتے ہیں۔
<ref>(تہذیب التہذیب:۱۰/۲۱۸)</ref>