"پریم چند کی افسانہ نگاری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م Robot: Cosmetic changes
سطر 18:
 
 
پہلے دور کے ابتدائی سالوں میں داستانوی اور رومانی رنگ غالب ہے۔ جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہو کر پریم چند اپنا پہلا افسانوی مجموعہ ”سوز وطن“ کے نام سے 1909ءمیں زمانہ پریس کانپور سے چھپواتے ہیں جو انگریز سرکا کو ”خطرہ کی گھنٹی “ محسوس ہوتا ہے اور اس کی تمام کاپیاں ضبط کر لی جاتی ہیں۔اس کے بعد وہ تاریخ اور اصلاح معاشرہ کی جانب متوجہ ہوتے ہیں ۔ اس وقت تک وہ افسانوی تکنیک سے ناواقف تھے اور طلسم ہو شربا کے اسیر تھے۔ 1909ءسے 1920 ءتک پریم چند ”ہوبا“ کے مقام پر ڈپٹی انسپکٹر آف سکولز تھے۔ جہاں کے کھنڈرات انہیں ہندوؤں کی عظمت ِ گذشتہ کی یاد دلاتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ حالی کی طرح انہیں بھی اپنے افسانوں کے ذریعہ ہندوقوم کی ماضی کی شان و شوکت اجاگرکرنا چاہیے ۔ چنانچہ ٠١٩١ءمیں ”رانی سارندھا“ 1911ءمیں ”راجہ ہردول“ اور 1912ءمیں ”آلھا“ جیسے افسانے اسی جذبے کے تحت لکھے گئے۔<br />
پریم چند کے دل میں ہندو راجوں اور رانیوںکی حوصلہ مندی اور خاندانی روایات کی پاسداری کا بڑا احترام تھا ۔ ”رانی سارندھا“میں انہوں نے ہندو قوم کے ماضی کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ان سب افسانوں میں کسی نہ کسی تاریخی واقعہ کو دہرا کر ہندو قوم کو اسلاف کے کارنامے یاد دلانا مقصود ہے۔
 
سطر 62:
 
 
انسان ایک ہی قسم کے واقعات سے کس طرح متاثر ہوتا ہے؟ اس کے تعجب ، حیرت ، رنج، خوشی ،غصہ ، نفرت ، حسد، بغض ، رشک ، رقابت اور اس قسم کے فطری جذبات کا اظہار کس طرح ہوتا ہے؟ یہ چیزیں سب انسانوں کے لیے یکساں ہیں اور اس لیے افسانوی بلندی حاصل کرنے کے لیے افسانہ نگار نفسیات سے زیادہ سے زیادہ کام لیتے ہیں۔ پریم چند کے افسانے نفسیاتی مطالعہ اور مشاہدہ پر ہیں۔ اس چیز سے پریم چند نے اس قدر کام لیا ہے کہ وہ ان کے طرز بیان کی ایک خصوصیت بن گئی ہے۔ مثلاً وہ جملوں میں جہاں تشبیہات کا استعمال کرتے ہیں تو انہیں نفسیاتی محسوسات کو کام میں لاتے ہیں۔ ایک جگہ لکھا ہے:<br />
” ایک یتیم بچہ ماں کا تذکرہ سن کر رونے لگتا ہے۔ اسی طرح اور چھاکی کی یا د سے چمپت رائے کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے۔<br />
اس حیثیت سے پریم چند کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اردو افسانوں میں حقیقت شعاری کی بہترین مثالیںپیش کی ہیں جن میں ہر جگہ عالمگیر حقائق، عام فطرت انسانی کی نفسیات اور بلندی ¿ خیال کو مدنظر رکھا ہے۔
 
سطر 76:
 
 
اس حقیقت سے واقعی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ معیار و مقدار کے اعتبار سے پریم چند نے اردو ادب میں افسانے کی روایت کو مستحکم کیا اور انہوں نے ہی اردو افسانے کو ارتقائی منازل تک پہنچایا ۔ مختصر اردو افسانے کے لیے ان کی خدمات ناقابل ِ فراموش ہیں۔ <br />
بقول مولوی عبدالحق<br />:
ہندوستانی ادب میں پریم چند کے بڑے احسانات ہیں انہوں نے ادب کو زندگی کا ترجمان بنایا۔ زندگی کو شہر کے تنگ گلی کوچوں میں نہیں بلکہ دیہات کے لہلہاتے ہوئے کھیتوں میں جاکر دیکھا۔ انہوں نے بے زبانوں کو زبان دی ۔ ان کی بولی میں بولنے کی کوشش کی۔ پریم چند کے نزدیک آرٹ ایک کھونتی ہے۔ حقیقت کو لٹکانے کے لیے۔ سماج کو وہ بہتر اور برتر بنانا چاہتے تھے اور عدم تعاون کی تحریک کے بعد یہ ان کا مشن ہو گیا تھا ۔ پریم چند ہمارے ادب کے سرتاجوں میں سے تھے۔ وقتی مسائل کی اہمیت کو انہوں نے اس شدت سے محسوس کیا کہ فن کے معیار کو پر قربان کر دیا۔ افسانہ نگاری میں ان کا وہی مرتبہ ہے جو شاعری میں مولاناحالی کا۔“
 
[[Categoryزمرہ: اردو افسانہ]]
 
[[Category: اردو افسانہ]]