خاکسار تحریک
خاکسار تحریک تقسیم ہند سے پہلے کی ایک نیم فوجی جماعت، جس کے بانی علامہ مشرقی عنایت اللہ خان تھے۔ یہ تنظیم بیلچہ پارٹی کے نام سے بھی مشہور تھی کیونکہ اس کے پیروکار کندھے پر بیلچہ رکھ کر چلتے تھے ان کا باقاعدہ خاکی یونیفارم تھا۔ ہر خاکسار کے لیے لازم تھا کہ وہ خاکی یونیفارم پہنے بلکہ نماز روزہ کی پابندی لازم تھی اس سلسلہ میں کوئی عذر قابل قبول نہ تھا غلطی کرنے والے خاکسار کو جسمانی سزا بھی دی جاتی تھی۔ شاعر ن م راشد 1937ء میں اس خاسار تحریک کا حصہ بنے اور ڈیڑھ سال تک تحریک سے وابستہ رہے۔[1]
تحریکِ خاکسار | |
---|---|
بانی | عنایت اللہ خاں مشرقی |
تاسیس | 1931ء |
اخبار | الاصلاح |
مذہب | اسلام |
مارچ 1940ء میں خاکساروں نے اندرون لاہور جلوس نکالاجوکہ فوجی پریڈ سے ملتا جلتاتھاجلوس بھاٹی دروازہ سے شروع ہوا حکومت نے اسے خلاف قانون قرار دے کر روکنے کی کوشش کی۔ ڈبی بازار کے پاس برطانوی پولیس آفیسر نے جلوس روکنے کا حکم جاری کیا جس سے خاکسار مشتعل ہو گئے انھوں نے پولیس پر حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں پولیس آفیسر مارا گیا پولیس نے گولی چلادی جس کے نتیجہ میں بہت سے خاکسار شہید ہوئے۔ کافی خون خرابے کے بعد حکومت نے اس کو کالعدم قرار دے کر پابندی لگا دی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد یہ جماعت دوبارہ بحال ہوئی۔ اس جماعت کے کارکن خاکسار کہلاتے ہیں اور وہ عمومی طور پر خاکی رنگ کا لباس پہنتے ہیں۔ تقسیم سے پہلے یہ جماعت تقسیم ہند کے خلاف تھی لیکن بعد میں حمایتی بن گئی۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Dr. Muhammad Fakhrul Haq، Noori (2010)۔ "ن م راشد اور خاسار تحریک"۔ Bunyād۔ 1 (1): 164–193