خاندانہائے زبان (Language Families) سے مراد زبانوں کی ایک ایسی درجہ بندی ہے جس میں ایک گروہ میں شامل زبانیں عموماً ایک مشترک زبان سے نمودار ہوئی ہوں۔ مگر بے انتہا تحقیق کے باوجود زبانوں کی درجہ بندی میں اختلافات ہیں اس لیے بعض درجہ بندیوں کو حتمی نہیں سمجھا جا سکتا۔
ان درجہ بندیوں کے لیے مختلف زبانوں کی مشترک خصوصیات کی بنا پر اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کسی زبان کی پیدائش و ترقی کس قدیم زبان سے ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ اکثر زبانیں ایسی زبانوں کے اختلاط سے وجود میں آتی ہیں جو خود ایک خاندان یا گروہ سے تعلق نہیں رکھتیں۔ یہی وجہ ہے کہ زبانوں کی درجہ بندی بے انتہا مشکل ہے۔ یہاں جو خاندانہائے زبان پیش کیے جا رہے ہیں ان کی بنیاد ایتھنولوگ (Ethnologue) خاندان بندی پر رکھی گئی ہے۔[1] ایتھنولوگ خاندان بندی میں قدیم امریکی زبانوں کو علاحدہ علاحدہ خاندانوں میں رکھا گیا ہے مگر اس مضمون میں قدیم امریکی زبانوں (Amerind) کو ایک ہی خاندان میں دکھایا جائے گا مگر قدیم امریکی زبانوں کی یہ خاندان بندی اس بنیاد پر نہیں ہے کہ وہ ایک مشترک قدیم زبان سے نکلے ہیں بلکہ یہ صرف آسانی کے لیے کیا گیا ہے۔ قدیم امریکی زبانوں میں جو مختلف خاندانہائے زبان شامل ہیں انھیں تفصیل سے اس کے متعلقہ مضمون میں دیکھا جا سکتا ہے۔
کل 7313 زبانوں کی خاندان بندی درج ذیل ہے۔ یہ تعداد ان زبانوں کی ہے جو ایتھنولوگ خاندان بندی میں شامل ہیں اور اس کے علاوہ کچھ ناپید زبانیں بھی شامل ہیں۔ اردو حروف کے لحاظ سے ترتیب دینے کے لیے نمبر شمار کے حساب سے ترتیب دیں۔ اگر بولے جانے والے افراد کے حساب سے ترتیب دیں تو آخر میں دس زبانیں ہوں گی جن کو آج دنیا کی ننیانوے فی صد آبادی بولتی ہے۔
†قدیم امریکی زبانوں کو یہاں جوزف گرینبرگ کی تحقیق کے نتیجے میں پیش کیا گیا ہے جو بہت تنقید کا نشانہ بنی ہے۔ اصل میں حقیقی امریکی لوگوں کی زبانوں کو ہزاروں زبانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جوزف گرینبرگ نے ان قدیم زبانوں میں سے اسکیمو۔الیوت زبانوں اور نادینی زبانوں کے علاوہ باقی تمام کو قدیم امریکی زبانوں (Amerind) کہا ہے۔ جس سے دوسرے محققین متفق نہیں۔ اس لیے یہاں اگرچہ ہم قدیم امریکی زبانوں کو یہاں برقرار رکھتے ہیں مگر یاد رہے کہ یہ ایک خاندان نہیں بلکہ بے شمار خاندانوں کی ایک درجہ بندی ہے جس کی تفصیل آپ قدیم امریکی زبانوں میں دیکھ سکتے ہیں۔
اسی طرح براہوئی زباب کے حوالے سے بھی محققین کی رائے منقسم ہے۔
براہوئی زبان کے لسانی خاندان کے حوالے سے محققین منقسم ہیں۔ اس حوالے سے تین نظریے سامنے آتے ہیں۔
-1 دراوڑی نظریہ
-2 انڈو یورپی یا ہند آریائی نظریہ
-3 تورانی یا الطائی نظریہ
اول الذکر نظریے کے خالق انگریز اور غیر زبان مستشرقین ہیں۔ ان میں ڈاکٹر ارنسٹ ٹرمپ، بشپ کالڈویل، گرائرسن، ڈینس برے جولز بلاخ، ایم بی ایمینو، ٹی برو، ایم ایس انڈروف، ذویلیبل ہیں۔ اس نظریے کے ماہرلسانیات براہوئی زبان کو دراوڑی خاندان سے گردانتے ہیں۔ براہوئی بولنے والے ماہر لسانیات کے مطابق براہوئی زبان انڈو یورپی یا ہند آریائی خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ ان ماہر لسانیات میں میر گل خان نصیر، میر عاقل خان مینگل، پروفیسر عبد اللہ جمالدینی، پروفیسر ڈاکٹر عبد الرزاق صابر، اثیر عبد القادر شاہوانی، آغا نصیر احمد خان احمد زئی کا نام آتا ہے۔ براہوئی زبان کے خاندان کے حوالے سے تیسرا نظریہ تورانی یا الطائی نظریہ آغا نصیر احمد خان احمد زئی نے متعارف کرایا ہے۔ اس حوالے سے ان کے علاوہ کوئی بھی اس پر متفق نہیں ہے۔