خواتین کا ٹینس (انگریزی: Women's tennis) مقبول ترین نسوانی کھیلوں میں سے ایک ہے۔ یہ ان چند کھیلوں میں سے ہے جن میں خواتین مردوں کے شانہ بہ شانہ مقبولیت کی بلندی چھوتی ہیں۔ خواتین کی ٹینس ایسوسی ایشن وہ اہم ادارہ ہے جو خواتین کے ٹینس کو چلاتی ہے۔

خواتین کا ٹینس مردوں پر حاوی

ترمیم

چین کی مایہ ناز ٹینس کھلاڑی لی نا کے مطابق ملک کے مردوں کو ٹینس کی تحریک دینے والے ایک رول ماڈل کھلاڑی کی اشد ضرورت ہے۔ لی اُس وقت چین میں لاکھوں خواتین کے لیے مثالی شخصیت بن کر سامنے آئی تھیں جب انھوں نے 2011ء میں فرنچ اوپن چیمپیئن شپ جیت کر گرینڈ سلَیم ٹائٹل اپنے نام کیا تھا۔ وہ سنگل گرینڈ سلَیم ٹائٹل جتنے والی پہلی ایشیائی کھلاڑی ہیں۔اگرچہ لی 2014ء میں آسڑیلیا اوپن میں دوسرا گرینڈ سلَیم ٹائٹل اپنے نام کرنے کے بعد اس کھیل سے ریٹائر ہو گئی تھیں، تاہم اس کے بعد بھی چین میں خواتین کھلاڑیوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔عالمی درجہ بندی میں اس وقت چار چینی خواتین کھلاڑی اعلٰی ترین 50 میں موجود ہیں، جس کے برعکس مرد کھلاڑی اس فہرست میں کہیں پیچھے ہیں۔ چین کے اعلیٰ ترین مرد کھلاڑی بائی یان اس وقت اے ٹی پی ٹور درجہ بندی میں 222 ویں نمبر پر ہیں۔[1]

کمائی

ترمیم

امریکی ٹینس اسٹار سیرینا ولیمز لگاتار چوتھے سال بھی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی خواتین کھلاڑیوں میں پہلے نمبر پر رہیں ۔ معروف امریکی جریدے فوربز نے کھیلوں کے شعبے میں ایک سال کے دوران سب سے زیادہ کمائی کرنے والی خواتین پلیئرز کی فہرست جاری کی تھی ۔[2]

خواتین سے امتیازی سلوک کا الزام

ترمیم

وبویمنز اور مکسڈ ڈبلز مقابلوں میں گرینڈ سلم ٹائٹل جیتنے والی پہلی بھارتی ٹینس خاتون کھلاڑی ثانیہ مرزا کا کہنا ہے کہ اگرچہ میری کوم، سائنا نیہوال اور پی وی سندھو نے ملک کے وقار کے لیے کافی خدمات انجام دیں تاہم اب بھی یہاں پر اسپورٹس میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ خواتین کھلاڑیوں کو مردوں کے برابر سہولیات کی فراہمی کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔[3]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم