خواجہ بدرالدین نقشبندی
خواجہ بدرالدین نقشبندی حضوری اپنے زمانے کے قطب الاقطاب، فاضل اجل، عالم بے بدل، شہسوار طریقت اور صاحب کرامت بزرگ تھے۔[1]
خواجہ بدر الدین نقشبندی | |
---|---|
ذاتی | |
پیدائش | (قیاساً 1780ء) |
وفات | (بمطابق 1868ء) |
مذہب | اسلام |
والدین |
|
سلسلہ | نقشبندیہ |
مرتبہ | |
مقام | قصور، اچے لدھیکے |
پیشرو | خواجہ غلام محی الدین قصوری |
جانشین | خواجہ غلام مرتضیٰ فنا فی الرسول |
ولادت
ترمیمحضرت خواجہ بدرالدین ولد میاں عبد الرزاق ولد میاں غلام مرتضیٰ کا موضع ولادت گاؤں بھاؤکی نزد منڈی عثمان والا ضلع قصور ہے۔[2] اگرچہ پورے وثوق سے آپ کی تاریخ ولادت کے بارے معلوم نہیں ہو سکا بہرحال روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے قیاس کیا جاتا ہے کہ آپ کی ولادت 1780ء کے لگ بھگ ہوئی۔ آپ کا تعلق جنجوعہ بھٹی خاندان سے تھا اور آپ کے بزرگوں کا پیشہ کاشتکاری تھا۔
تعلیم و تربیت
ترمیمآپ نے ناظرہ قرآن پاک سمیت ابتدائی دینی تعلیم اپنے گاؤں کی مسجد کے امام صاحب سے حاصل کی۔ پھر پنجاب کے مختلف مدارس سے صرف، نحو، منتق، فلسفہ، بلاغت، عربی ادب، فقہ، حدیث، تفسیر اور دیگر علوم و فنون میں تحصیل کر کے اشاعت دین متین میں مصروف عمل ہو گئے۔
بیعت و خلافت
ترمیمعلوم ظاہری کی تکمیل کے بعد تصفیہ باطن کی ضرورت محسوس ہوئی آپ نے مرشد کامل کی تلاش شروع کر دی۔ آپ کے مقدر نے یاوری کی اور پیر پنجاب حضرت خواجہ غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری سے ملاقات ہو گئی۔ آپ نے خواجہ قصوری کے دست پاک پر بیعت فرمائی اور ان کی صحبت میں رہ کر زکر و فکر و مراقبہ، شب بیداری اور رابطۂ شیخ کے ذریعے منازل سلوک طے فرمائیں حتیٰ کہ خواجہ غلام محی الدین قصوری نے آپکو طریقہ نقشبندیہ میں خلافت و اجازت بیعت سے نواز دیا۔ آپ حضرت خواجہ قصوری کے اٹھارویں خلیفہ تھے۔ آپ نے خواجہ قصوری کی حیات ظاہری کے آخری عرصے میں اکتساب فیض کیا اس لیے آپ کے حوالے سے خواجہ قصوری فرمایا کرتے تھے کہ
"بدرالدین ہماری آخری عمر کی کمائی ہے۔"
درس و ارشاد
ترمیمآپ نے تبلیغ دین کا کام چوہنگ لاہور کے نواحی گاؤں مانووال سے کیا۔ مانووال کی ایک مسجد میں بطور امام و خطیب خدمات سر انجام دینے لگے۔ آپ یہاں خطبہ جمعہ، نماز ہائے پنجگانہ کی امامت اور لوگوں کے تصفیہ باطن کے کام لگ رہے۔ اسی پلیٹ فارم سے آپ نے تعلیم شریعت و طریقت دینا شروع کیا۔ قرب و جوار کے علاقوں میں بھی آپ کے تبلیغی دورے ہوتے رہے۔ مسجد کی امامت کا کام فی سبیل اللٌٰہ کرتے اور اپنے آبائی پیشہ کاشتکاری کو ذریعہ معاش بنایا۔[3]
خلفاء
ترمیمآپ کے خلفاء کی تعداد کے بارے وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ بہرحال تاریخ میں آپ کے ایک ہی خلیفہ کا نام محفوظ ہے جنہیں دنیا برصغیر پاک و ہند کے بے مثل و معروف صوفی بزرگ، زمانے کے عظیم فنا فی الرسول، شیخ السمٰوات والارضین، سلطان العاشقین خواجہ غلام مرتضیٰ فنا فی الرسول کے اسم گرامی سے جانتی ہے۔
خواجہ بدرالدین کی اپنے مرید و خلیفہ خواجہ غلامِ مرتضیٰ فنا فی الرسول سے پہلی ملاقات گاؤں قلعہ شریف میں ہوئی۔ آپ نے حضرت خواجہ غلام مرتضیٰ کو تقریباً پانچ سال کے عرصے تک سلوک و آزمائش کی بھٹی سے گزارا۔ خواجہ غلام مرتضیٰ اس عرصہ میں روزانہ پچھلی رات اپنے گاؤں قلعہ شریف سے اپنے مرشد کریم کے گاؤں مانووال کی طرف رخت سفر کرتے، یہ فاصلہ کم و بیش پانچ کوس یا گیارہ کلومیٹر کا بنتا ہے۔ راستہ میں دریائے راوی پڑتا جسے تیر کر عبور کرتے۔ پانچ سال تک یہ معمول رہا حتیٰ کہ ایک طوفانی و بادو باراں سے بھرپور رات آئی جب کہ دریائے راوی سخت طغیانی میں تھا۔ آپ نے ایسی صورت حال میں بھی مرشد خانے کی طرف سفر سے گریز نہیں کیا۔ نماز فجر کی دوسری رکعت مرشد کی اقتدا میں جا کر ادا فرمائی۔ اس وقت حضرت خواجہ بدرالدین نے فرمایا بس غلام مرتضیٰ آج آپ نے حد کر دی، آج تم قطب کیے گئے ہو اور ایک وقت آئے گا کہ آپ مرتبہ فنا فی الرسول پر فائز کیے جاؤ گے جس کے سامنے غوث، قطب ابدال اپنی حیثیت کھو بیٹھتے ہیں۔[4] اس وقت خواجہ بدرالدین نے خواجہ غلام مرتضیٰ کو خلافت عطا فرمائی اور فرمایا کہ آپ کی روزانہ حاضری کا سلسلہ موقوف کر دیا گیا ہے۔
ایک ارادت مند غلام میاں تاج دین کا واقعہ
ترمیمخواجہ بدرالدین اپنی حیات ظاہری کے آخری دور میں گاؤں اُچے لدھیکی میں منتقل ہو گئے۔ یہ گاؤں لاہور شہر کے جنوب میں صوئے آصل سے رائیونڈ جانے والی سڑک کے قریب واقع ہے۔ یہاں پر آپ کا ایک خدمتگار غلام میاں تاج رہتا تھا۔ آپ کے زمانہ ضعیفی میں اگر شرعی و طبعی حوائج اور دیگر امور ضروریہ کی خاطر میاں تاج اکثر آپکو اپنے کندھوں پر بٹھا کر ایک مقام سے دوسرے مقام پر لے جایا کرتا تھا۔ ایک روز میاں تاج کا مزاج متغیر ہو گیا اور اس نے آپکو کندھوں پر اٹھانے سے انکار کر دیا۔ آپ نے استفسار فرمایا کہ مجھے اٹھاتے کیوں نہیں تو وہ کہنے لگا کہ قلعہ شریف والے خواجہ غلام مرتضیٰ کو تو دنوں میں نواز دیا، میرے لیے کچھ بھی نہیں ہے کیا۔ خواجہ بدرالدین نے میاں تاج سے فرمایا کہ تجھے کیا چاہیے تو کہنے لگا میرا قلب زکر الٰہی جاری فرمائیں اور دوسرا ایک پارٹی کا چودہ سو روپے قرض دینا ہے جو میں ادا نہیں کر سکتا اس کا بندوبست کر دیں۔ خواجہ بدرالدین نے میاں تاج کے سینہ پر ہاتھ رکھا تو میاں صاحب کا قلب فوراً زکر الٰہی سے جاری و ساری ہو گیا، پھر فرمایا کے اب قرض والی پارٹی آپ سے کبھی قرض کی واپسی کا مطالبہ نہیں کریگی۔ چنانچہ چند ہی دن ہوئے جس شخص سے قرض لیا تھا اس نے خود ہی آ کر قرض معاف کر دیا۔[5]
اولاد امجاد
ترمیمآپ کی اولاد میں آپ کے پانچ صاحبزادوں کے نام دستیاب ہوئے ہیں۔
1۔ عبدالرسول 2- غلام رسول 3- نور دین 4- فضل دین 5- چراغ دین
وصال و مزار شریف
ترمیمآپ نے طویل عمر پائی۔ آپ کا سنہ وفات 1868ء ہے۔ موضع اُچے لدھیکی شریف میں آپ کا مزار شریف مرجع خلائق ہے اور آج بھی عقیدتمندوں کے لیے آپ کا مزار مبارک انوار بدریہ کا مرکز ہے۔