خواجہ غلام مرتضیٰ فنا فی الرسول

شہنشاہِ نقشبند، سلطان العاشقین، فردِ وقت، خواجۂ خواجگان، حضرت خواجہ غلامِ مرتضےٰ فنا فی الرسول رضی اللٌٰہ عنه

مجدد عشق خواجہ غلامِ مرتضےٰ (پیر صاحب قلعہ والے) میدان عشقِ رسولﷺ کے عظیم شہسوار ہیں- آپ تیرھویں صدی ہجری کے مجدد ، فردِ وقت اور عظیم فنا فی الرسول ہیں۔ آپ نے عبادات، علمیت، معاملات اور میدان تصوف میں عشق رسول کریمﷺ کو اس کی تمام تر رعنائی، وجدانیت، سوز و مستی اور کیف و سرور کے ساتھ زندہ و اجاگر فرمایا۔ آپ کا تصورِ عشق سوز و مستی اور شرابِ طہور کی چاشنی سے لبریز ہے اور نفس کے خلاف جہادِ اکبر میں بہترین اور غالب ہتھیار ہے۔ عشق رسولﷺ کے میدان میں ان کی جہد قیامت تک کے لیے عاشقان رسولﷺ کے لیے ایک کامل اکمل حوالہ ہے۔

فنا فی الرسول
خواجہ غلام مرتضےٰ
ذاتی
پیدائش(بمطابق 1813ء)
گاؤں پرانی بھینی، شرقپور شریف
وفات(بمطابق 1903ء)
بادامی باغ، لاہور
مذہباسلام
والدین
  • میاں محمد یعقوب (والد)
وجہ شہرتفردِ وقت، فنا فی الرسول، بانی سلسلہ مرتضائیہ
سلسلہنقشبندیہ۔مجددیہ۔مرتضائیہ
مرتبہ
مقاملاہور، قلعہ لال سنگھ، شرقپور شریف
پیشروخواجہ بدرالدین نقشبندی
جانشینخواجہ نور محمد فنا فی الرسول

القابات ترمیم

شہنشاہِ نقشبند، شیخ المشائخ، خواجۂ خواجگان، مجدد عشق، فردِ وقت، فنا فی الرسول، شیخ السموٰات والارضین، سلطان العاشقین، برہان الواصلین، واقف رموز جلیہ و خفیہ، کاشفِ غوامض عشقیہ و علمیہ، پیر مشکل کشا مظہر عون یفعل اللٌٰہ مایشاء

ولادت ترمیم

خواجہ غلامِ مرتضےٰ فنا فی الرسول ابن میاں محمد یعقوب ابن میاں جیون ابن میاں شیر محمد 1228ھ، 1813ء میں گاؤں پرانی بھینی نزد شرقپور شریف میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق پنجاب کی آرائیں برادری سے تھا۔آپ کے والد صاحب حج بیت اللّٰہ شریف کی سعادت حاصل کرنے کی غرض سے چھ ماہ پیدل سفر کر کے عرب شریف تشریف لے گئے اور عرصہ 7 سال تک وہیں مقیم رہے۔ آپ کے والد بزرگوار جب ایک طویل عرصہ تک بھی وطن واپس نہ آئے تو خواجہ صاحب کے دونوں چچا بھی یکے بعد دیگرے ان کے والد صاحب کے پیچھے عرب شریف چلے گئے اور پھر تینوں بھائی حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد اکٹھے واپس آئے۔

حصول تعلیم ترمیم

آپ کے چچا جان میاں محمود ریاست بھاولپور سکونت اختیار کی تو آپ بھی علم دین کے حصول کے لیے ریاست بھاولپور تشریف لے گئے اور وہاں علم صرف، نحو، حدیث، فقہ، اصول حدیث، اصول فقہ سمیت دیگر علوم میں سند فراغت حاصل کی۔[1]

بیعت، سفر سلوک اور خلافت ترمیم

علم حاصل کرنے کے بعد دوبارہ قلعہ لال سنگھ تشریف لے آئے، ان دنوں اکثر دعا کیا کرتے تھے کہ اللّٰہ پاک کسی کامل مرشد کا دامن کرم نصیب فرما دے۔ آخر قسمت نے یاوری کی ایک روز کھیتوں میں ایک بوہڑ کے درخت تلے موجود تھے کہ ایک نورانی چہرے والے بزرگ گھوڑے پر سوار آپ کے پاس تشریف لائے اور گویا ہوئے کہ میاں کچھ لسی پلا دو، بھاگے گئے، چارپائی تکیہ لائے اور عرض کی کہ اتر کر لسی نوش فرمائیں۔ یہ بزرگ قطب الاقطاب خواجہ بدرالدین حضوری نقشبندی، خواجہ غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری کے عالی قدر خلیفہ تھے۔ بزرگ لسی پی چکے تو خواجہ صاحب پر ایسی توجہ فرمائی کہ کیفیت مستی میں آ گئے۔ عرض کی کہ حضور بیعت فرما لیں تو انھوں نے آٹھ دن کے بعد موضع مانووال چوہنگ آنے کا حکم دیا۔

آٹھ دن کے بعد آپ خواجہ بدر الدین کے پاس موضع مانووال چوہنگ (لاہور) حاضر ہوئے اور شرف بیعت حاصل کیا۔ اس کے بعد معمول بنا لیا کہ ایک برتن میں دودھ کا تحفہ لے کر دیار مرشد کی طرف روز 5 کوس یا گیارہ کلومیٹر کی مسافت جس کے رستے میں دریائے راوی بھی تیر کر عبور کرنا پڑتا تھا، طے کر کے فجر کی نماز مرشد کی اقتدا میں جا کر ادا کرتے۔ موسم کی شدت اور دیگر معمولات زندگی بھی اس کام کے آڑے نہ آ سکے۔ یہ سلسلہ تقریباً 5 سال لگاتار چلتا رہا۔ آخر ایک رات شدید طوفان بادو باراں کی کیفیت میں راوی کے کنارے پہنچے، پاؤں پھسلنے سے دودھ والا برتن گر گیا اور دودھ ضائع ہو گیا۔ پہلے تو سوچا کہ آج حاضری موقوف کر دیتا ہوں، واپس مڑنے لگے تو خیال آیا کہ

اے غلام مرتضٰے سوہنی کمہاری سے بھی گئے گذرے ہو کہ اس نے مجاز کی حاضری قضا نہ کی اور تم عشق حقیقی کی حاضری سے بھاگ رہے ہو۔"

یہ خیال آتے ہے راوی میں چھلانگ لگا دی۔ ادھر مرشد نے مقتدیوں سے فرمایا کہ تھوڑا توقف کر کے نماز کے لیے جماعت کھڑی کی جائے کہ اگر آج غلام مرتضیٰ آ گیا تو مقصود حاصل کر لے گا۔ خیر انتظار طویل ہو رہا تو صفیں درست کر کے نماز قائم کر دی گئی۔ دوسری رکعت میں خواجہ غلام مرتضیٰ جماعت میں شامل ہو گئے۔مرشد نے دیکھا تو خوش ہو گئے۔ نماز کے بعد فرمایا کہ اے غلام مرتضیٰ آج تم نے حد کر دی، آج مقام قطبیت پر آپ کو فائز کیا جاتا ہے، ایک وقت آئیگا کہ آپ کو مقامِ فنا فی الرسول پر فائز کیا جائیگا جس کے سامنے غوث، قطب اور ابدال کچھ حیثیت نہیں رکھتے۔ اس وقت خواجہ بدر الدین نے آپ کو سلسلہ نقشبندیہ میں اجازت بیعت سے نواز دیا اور آئندہ سے آپکو روزانہ حاضری کا سلسلہ موقوف کرنے کا حکم دیا۔

عشقِ رسولﷺ اور منزلِ فنا فی الرسول ترمیم

جس وقت خواجہ بدر الدین نے آپکو اجازت بیعت سے نوازا تو اس کے بعد آپ نے مقامِ فنا فی الرسول کی منزل کی طرف سفر شروع کر دیا۔ مرشد نے کسی قدر رہنمائی کی، ان کے حکم کے مطابق مختلف چلّے کاٹے۔ منزل فنا فی الرسول کے رستے میں کئی مقامات پر جب رکاوٹ آئی، تو مدد کے لیے پھر رہبر کی ضرورت پڑنے لگی، ایک سید صاحب سے مدد کی درخواست کی تو انھوں نے مراقب ہونے کے بعد فرمایا کہ "اے غلام مرتضیٰ اس وقت روئے زمین پر ایسا کوئی رہنما موجود نہیں جو اس منزل کی رسائی میں آپ کی مدد فرما سکے، امید ہے اس رستے کی خبر رکھنے والے قدیم بزرگوں میں سے کوئی آپ کی مدد فرمائے لہٰذا سفر جاری رکھیں". چنانچہ کچھ رکاوٹوں کو عبور کرنے میں شیخ مجدد الف ثانی اور شیخ عبد القادر جیلانی جیسی ہستیوں نے آپ کی روحانی معاونت فرمائی۔ مختلف مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا، کئی سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا، لیکن آپ کا ارادہ غیر متزلزل رہا۔ آپ کے پانچ بیٹے بھلے چنگے آٹھ دس دن کے اندد یکے بعد دیگرے فوت ہو گئے، آپ کے بھائی میاں محمد یار آ کر عرض کرتے کہ بھائی صاحب فلاں بچہ فوت ہو گیا ہے تو آپ فرماتے جنازہ پڑھ کر دفنا دیں میں حضور نبی کریمﷺ کی حاضری سے اٹھ نہیں سکتا، انہی دنوں میں بارشوں نے رخ موڑ لیا، سارے علاقہ کو قحط سالی کا سامنا کرنا پڑا، آپ کے پالتو جانور یکے بعد دیگرے مرنے لگے۔

ان دنوں معمول یہ رھا کہ آدھی رات جاگتے آدھی رات سوتے۔ ایک دن ہاتف نے آواز دی کہ آپ دو جہان کی دولت مانگ رہے ہو اور آدھی رات سو کے گزارتے ہو۔ پھر پگڑی کی رسی بٹی، اس رسی سے سر کے بال باندھ کر رسی کو اوپر چھت سے باندھ دیا اور فرمایا اگر اب بھی نیند آئی تو عشق کے میدان کو چھوڑ دوں گا۔ ساری رات جاگتے اور ایک ہی وظیفہ "دے رسولﷺ، دے رسولﷺ" ورد زبان کر لیا۔ آخر وہ مبارک رات آئی جس میں رسول کریم حضرت محمدﷺ مع خلفائے راشدین کے تشریف لائے اور فرمایا کہ اے غلام مرتضیٰ اب حد ہو چکی ہے، اپنی زلفیں کھول دیں۔[2]

رسول اللّٰہﷺ کی آمد ہوئی تو اس وقت خواجہ غلام مرتضیٰ کو متعدد انعامات اور خوشخبریاں دی گئیں۔ جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔

1- آپ کو مقام فنا فی الرسول پر فائز کیا جاتا ہے۔ قیامت تک نور فیض آپ کے غلاموں کو عطا ہوتا رہے گا۔

2- آپ کا مزار لاہور میں جانب شمال ہوگا۔

3- آپ نے ہماری محبت میں جان و مال کی پروا نہ کی حتّٰی کہ آپ نے پانچ بچے عشق رسول پر قربان کر دیے، ہم آپکو ان بچوں کے عوض ایک بے مثل بچہ عطا فرمائیں گے جو شکم مادر سے 25 سال کی بے ریا عبادت کا ثمر، 28 اقطاب کی طاقت لے کر آئے گا اور 60 علوم کا ماہر ہوگا۔

4- بروز حشر، میدان حشر میں انبیا کی صف میں کھڑے ہو کر آپ ازان کہیں گے۔

5- وقت نزع کے وقت آپ کے غلاموں کو زیارت نبی کریم سے فیضیاب کیا جائے گا اور محشر میں ان کے لیے سامان شفاعت فرمایا جائیگا۔ وغیرہ

سلسلہ عالیہ مرتضائیہ کی بنیاد اور درس و ارشاد: ترمیم

مقام فنا فی الرسول پر فائز کیے جانے کے بعد آپ کو بارگاہ نبویﷺ سے ڈائیریکٹ فیض ملنا شروع ہو گیا۔ 1855ء میں آپ نے لاہور میں سکونت اختیار کر لی، یہاں پر آپ کو "پیر صاحب قلعہ والے" کے لقب سے بہت شہرت حاصل ہوئی۔ [3] آپ کے مقام ولایت کی دھوم چار دانگ عالم میں پھیلی تو دور دور سے لوگ آپ کی زیارت اور بیعت کے لیے آنے لگ گئے۔آپ کی نگاہ میں ایسی تاثیر تھی کہ انسان تو انسان کسی جانور کو بھی آنکھ بھر کے دیکھ لیتے تو وہ کیفیت وجد میں آ جاتا۔

بہت سے غیر مسلموں نے آپ کے دست اطہر پر اسلام قبول فرمایا۔ آپ کا سلسلہ طریقت عشق رسولﷺ کی کیفیات نورانی سے آج بھی عبارت ہے۔ آپ کے وسیلہ اقدس سے عشق رسولﷺ کی خالص دولت آج بھی لاکھوں دلوں کو منور، معطر، مخمور اور معنبر بنا رہی ہے۔

کرامات و روحانی قدر و منزلت ترمیم

زمانے کی فنا فی الرسول علیٰ وجہ الاتم ہستی سے کرامات کا ظہور عام سی بات تھی۔ اَن گنت کرامات کا ظہور کی زات اقدس سے ہوا ہے۔ خلاصتاً اختصار کے ساتھ آپ کی کچھ کرامات اور روحانی مراتب کا زکر زیل میں کیا گیا ہے جن میں سے چند ایک کی تفصیل آگے چل کے مضمون میں درج ہے:

• ساری زندگی عشق رسولﷺ اور اتباع رسولﷺ میں گزارنا؛

• حالت بیداری میں جب بھی کبھی خواہش ہوئی رسول کریمﷺ کا اپنے غلام خواجہ غلام مرتضٰے کو زیارت سے مشرف فرمانا؛

• غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی کا آپ کے حجرہ شریف میں کئی بار تشریف لانا اور حالت بیداری میں ان سے ملاقاتیں فرمانا؛

• اللّٰہ کے حکم سے مردہ زندہ کر دینا؛

• اللّٰہ کے حکم سے بعد از وصال زندوں کی طرح تصرف کرنا؛

• آپ کی نگاہ کی تاثیر سے انسان تو انسان جانور بھی وجد میں آ جانا؛

• ماکان و مایکون کا علم اللّٰہ تعالیٰ نے آپکو عطا فرمایا، توجہ فرما کر لامکان تک کے حالات ملاحظہ فرما لینا؛

• آپ کی قمیض مبارک دھو کر پلانے سے علاقہ بھر سے طاعون کی شدید مہلک وبا کا خاتمہ ہو جانا؛

• جانوروں سے گفتگو کرنا اور ان کو مطیع کر لینا؛

• دور دراز ارادتمندوں کی مدد فرمانا؛

• نابینا بھکاری پر نظر فرما کر مقامِ ولایت و محبوبی پر فائز کر دینا؛

• ہندو ماہر جادوگر اور عامل مسمریزم پر جلالی نگاہ ڈالی تو زمین پر لیٹنے لگا۔ آخر اس کا معافی مانگ کر حلقہ بگوش اسلام ہو جانا؛

• سیم و زر کی دستیاب دولت کو عشق رسولﷺ میں حاصل ہونے والے آنسوؤں کی دولت کے عوض حقارت سے ٹھکرا دینا؛

تہجد کی حاضری میں دیر ہوئی تو رسول کریمﷺ کا لاڈلے فنا فی الرسول کی دلجوئی کے لیے تشریف لا کر بیدار فرمانا اور شرف زیارت بخشنا؛

• غیر مسلم خاندان کی طرف انگلی کا اشارہ فرمایا تو انکا وجد میں آ کر کلمہ طیبہ پڑھ کر حلقہ بگوش اسلام ہو جانا؛

• لعاب دہن کی تاثیر سے بیمار کو شفا ہو جانا؛

• ارادتمند کی فریاد پر ڈوبتا ہوا بحری جہاز پار لگا دینا؛

• توجہ سے چند چھٹانک آٹے میں ایسی برکت آنا کہ مہمانوں، گھر والوں اور پڑوسیوں نے سیر ہو کر کھانا پھر بھی کھانے کا بچ جانا؛

• تدفین کے طویل عرصہ بعد آپ کے ارادتمندوں کے کفن تک میلے نہ ہونا؛

• آپ کے ارادتمند کے جنازے پر بادل نے گلاب کی پتیاں برسانا؛

• ہر خاص و عام ارادت مند کو حضوری کی وافر دولت عام کر دینا۔

متفرق واقعات ترمیم

آپ کی حیاتِ عظیم سے چند ایک واقعات کو زیل میں مضمون کی زینت بنایا گیا ہے۔

1۔ مولانا چراغ شاہ کا واقعۂ بیعت اس حوالے سے بڑا دلچسپ حوالہ ہے۔ ریلوے اسٹیشن لاہور کی تعمیر اول کا کنٹریکٹ خواجہ صاحب کے ارادتمند احمد بخش کے پاس تھا اور مولانا چراغ شاہ انہی دنوں وہاں پر خطاطی کا کام سر انجام دیتے تھے، ایک جگہ کام کرنے کے وجہ سے مولانا کی احمد بخش مرحوم سے علیک سلیک ہو گئی۔ ایک روز احمد بخش اپنے ملازمین کو نصیحت کر رہے تھے کہ مجھے اپنے پیر صاحب سے ملاقات کے لیے قلعہ شریف جانا ہے، چند دن لگ جائیں گے لہٰذا کام میں کوئی کوتاہی نہ آئے۔ مولانا چراغ شاہ یہ صورت حال دیکھ کر بولے میاں احمد بخش میں نے گیارہ پیر ہنگالے ہیں، یہ سب مکار جھوٹے لوگ ہوتے ہیں، آپ ان چکروں میں نہ پڑو۔ احمد بخش نے دوست کی اس بات پر برا منایا اور کہا کہ میرے پیر صاحب کے بارے غلط مت بولو، میرے ساتھ چلو تمھیں اندازہ ہو جائے گا۔

دونوں مصاحب قلعہ شریف حاضر ہوئے تو حضرت خواجہ غلام مرتضیٰ اس وقت اپنے کھیتوں میں موجود تھے۔ خواجہ صاحب نے ایک نظر چراغ شاہ پر ڈالی تو شاہ صاحب پر ایسا وجد طاری ہوا کہ کھیت کی مٹی میں لیٹنے لگے، زبان پر یا رسول یا رسول کی صدا جاری ہو گئی۔ کیفیت بحال ہوتے ہی خواجہ صاحب نے فرمایا میاں آپ نے تو گیارہ پیر ہنگالے تھے آج خود ہنگالے گئے ہو۔ شاہ صاحب نے دست بستہ معافی مانگ کر خواجہ صاحب سے بیعت کی درخواست کر دی۔[4]

2۔ 1876ء کے لگ بھگ ریاست بہاولپور میں طاعون کی شدید وبا نے علاقے میں تباہی مچا رکھی تھی، روزانہ کئی کئی جنازے اٹھتے اور ساری ریاست میں پریشانی کی لہر پھیلی تھی۔ ان دنوں حضرت خواجہ غلام مرتضیٰ کے بہاولپور سے ایک ارادتمند محمد اقبال ڈاھر نے لاہور کا رخ کیا اور خواجہ صاحب سے وبا کی ساری صورت حال عرض کی۔ خواجہ صاحب نے اپنی قمیض مبارک اپنے ارادتمند کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا کہ اسے پانی میں ڈال دینا اور جو مریض اس پانی کو پئیے گا اللٌٰہ پاک انشاءاللٌٰہ اپنے کرم سے شفا عطا کر دے گا اور دوسرے پینے والے افراد بیماری سے محفوظ ہو جائیں گے۔

ان صاحب نے بہاولپور جا کر مرشد کی نصیحت پر عمل کیا۔ بات باہر نکلی تو شہر بھر سے لوگ محمد اقبال ڈاہر سے پانی لینے آنے لگے۔ راوی فرماتے ہیں اللٌٰہ کے فضل سے تین دنوں کے اندر طاعون کی وبا سارے علاقے سے کوچ کر گئی اور اس پانی کے استعمال کرنے والوں کو اللٌٰہ نے صحت عطا فرما دی۔[5]

3۔ ایک بار خواجہ صاحب اپنے ایک ارادتمند مستری فتح دین کے ہاں موضع راؤ خان والا ضلع قصور تشریف لے گئے۔ اس سفر میں خواجہ صاحب کے ہمراہ چھ، سات اور افراد بھی موجود تھے۔اللّٰہ کی قدرت مہمانوں کا آنا ایسے موقع پر ہوا جب کہ مستری صاحب کے گھر آٹا موجود نہ تھا۔ مستری صاحب کی اہلیہ محترمہ برکت بی بی نے ہنڈیا چولہے پر رکھی اور روٹیاں پکانے کے لیے آٹے کا برتن دیکھا تو وہ خالی تھا، ناچار تمالو اٹھایا، چادر کے نیچے کر کے برتن لیے باھر نکلنے لگیں کہ کسی ہمسایہ بہن سے آٹا مانگ لیتی ہیں۔ باھر نکلتے ہوئے خواجہ صاحب کی نظر پڑی تو انھوں نے استفسار فرمایا کہ بہن آپ چادر کے نیچے کیا لے کر جا رہی ہیں، آخر محترمہ برکت بی بی نے پریشانی کا زکر کر دیا۔ خواجہ صاحب نے سن کر فرمایا بہن ہم مانگ کر کچھ نہیں کھاتے، آپ آٹے کے برتن کو جھاڑ کر جو بھی نکلے لے آؤ۔ برتن جھاڑا گیا تو اس میں سے چند چھٹانک کے قریب آٹا نکلا۔ اس کو خواجہ صاحب کے حکم سے گوندھ دیا گیا۔ پھر خواجہ صاحب نے فرمایا کہ اس کے اوپر کوئی کپڑا رکھ دیں اور کپڑے کے نیچے سے بغیر دیکھے گوندھا ہوا آٹا نکال کر روٹیاں بنا کر پکاتی جائیں اور سالن بھی مجھے لا دیں میں خود تقسیم کروں گا۔ روٹیاں پک پک آتی رہیں، جملہ مہمانوں نے سیر ہو کر کھانا کھایا۔ پھر سرکار نے فرمایا کہ گھر والے بچے بڑوں کو کھلاؤ۔ گھر والے کھا چکے تو حضور کے حکم سے کھانا ہمسایوں کو تقسیم کیا گیا۔ اس واقعہ کے راوی میاں مہر دین ولد مستری فتح دین فرماتے ہیں کہ ہم اس روز بہت خوش تھے اللّٰہ کا ایسا فضل ہوا کہ ہم سے گندم کی روٹیاں خوب سیر ہو کر کھائیں۔[6]

4- خواجہ صاحب کا ذریعہ معاش کاشتکاری تھا۔ ایک بار اپنی زمین میں ہل چلا رہے تھے کہ ملحقہ گزرگاہ سے چند غیر مسلم افراد کا گذر ہوا، یہ لوگ کسی قریبی گاؤں جانا چاہ رہے تھے اور رستہ معلوم کرنے چاہتے تھے۔ ایک نوجوان نے ان میں سے خواجہ صاحب سے اس گاؤں کا رستہ پوچھا اور کہنے لگا بابا جی مجھے سیدھا رستہ بتائیں لوگ غلط رستہ بتاتے ہیں تو بھٹکنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ خواجہ صاحب نے فرمایا بیٹا سیدھا رستہ دیکھنا ہے تو ادھر میری انگلی کی جانب دیکھو۔ اس کا اتنا دیکھنا تھا کہ کیفیت وجد میں آ کر یا رسول یا رسول کے نعرے لگانے لگا۔ ہوش میں آیا تو کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کیا اور اپنی منزل پر اپنے قافلے کے ساتھ روانہ ہو گیا۔ بعد میں جب لڑکے کے گھر والوں نے نوجوان کے مذہبی رجحان میں تبدیلی دیکھی، صورت حال کو عمیق نگاہی سے جانچنے کے بعد گوجرانوالہ عدالت میں خواجہ صاحب کے خلاف زبردستی مذہب تبدیل کرانے کا دعویٰ دائر کر دیا۔ ادھر خواجہ صاحب تک کیس کی بات پہنچی، کچھ ارادت مندوں نے مشورہ دیا کہ حضور کسی وکیل کی خدمات لے لیتے ہیں لیکن خواجہ صاحب نے فرمایا ہم معاملہ خود ہی دیکھ لیں گے۔ پیشی پر عدالت میں حاضر ہو گئے، کٹہرے میں کھڑے ہوئے تو فاضل جج جو غیر مسلم تھا نے کہا کہ میاں جی آپ پر مدعیوں کا الزام ہے کہ آپ نے ان کے بچے کا مذہب جادو کے زور پر زبردستی تبدیل کرایا ہے، آپ اس بارے کیا کہنا چاہیں گے۔ خواجہ غلام مرتضیٰ نے سامنے بیٹھے مدعیوں کی طرف انگلی گھماتے ہوئے فرمایا کہ اچھا چلو اس نوجوان کا تو یہ کہتے ہیں زبردستی مسلمان کیا ہے اب ان کو کلمہ کس نے پڑھایا۔ آپ کا ایسا کرنا تھا کہ عدالت میں مدعیوں نے کیفیتِ وجد میں آ کر بآوازِ بلند یا رسول اللٌٰہﷺ یا رسول اللٌٰہﷺ کی پکار شروع کر دی۔ اسی اثنا میں جج اپنی کرسی سے گرا اور عدالت برخواست کی آواز لگاتا ہوا اٹھ کر باہر چلا گیا۔ مدعیوں نے آپ کے دست مبارک پر کلمہ شریف پڑھ کر اسلام قبول کر لیا اور آپ سے معافی کے طلبگار ہو گئے۔

اولاد ترمیم

آپ نے دو شادیاں فرمائی تھیں۔

1- خواجہ نور محمد فنا فی الرسول آپ کی دوسری زوجہ اماں رحمت بی بی کے بطن اطہر سے پیدا ہوئے۔ مقامِ فنا فی الرسول پر فائز کیے جانے کے وقت ان کی شان ولایت کی خوشخبری رسول اللّٰہﷺ نے آپ کو دی تھی۔

2- پہلی زوجہ اماں جی عائشہ بی بی آپ کی چچا زاد تھیں، ان سے آپ کے پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ آپ کے منازل سلوک طے کرنے کے دوران یہ پانچوں بچوں سن بلوغت تک پہنچنے سے زرا پہلے یکے بعد دیگرے آٹھ دس دن کے اندر فوت ہو گئے۔ باقی چار صاحبزادیوں کی آپ نے خود شادیاں فرمائی، آپ کی چاروں صاحبزادیاں نہایت عابدہ و زاہدہ اور صاحب کرامت ہستیاں تھیں۔ ان صاحبزادیوں میں سے تین سے آپ کی آل پاک کا تسلسل چل رہا ہے۔

اکابر خلفاء سلسلہ مرتضائیہ ترمیم

خواجہ غلامِ مرتضےٰ فنا فی الرسول رضی اللہ عنہ نے متعدد با کمال ہستیوں کی تربیت فرما کر انھیں اجازت بیعت سے نوازا اور مسند رشد و ہدایت و تقسیم عشق رسولﷺ پر مامور فرمایا۔ آپ کے ممتاز خلفاء کا اسمائے گرامی یہ ہیں:

1- خواجہ نور محمد (مرتضائی) فنا فی الرسول (فرزند ارجمند: لاہور)

2- خواجہ مہر محمد صوبہ مرتضائی (خلیفۂ اول: لاہور)

3- قبلۂ عالم میاں فضل دین مرتضائی (سمدھی اور چچیرے بھتیجے: ڈھانہ شریف، پتوکی)

4- میاں قادر بخش مرتضائی (پیال شریف, قصور)

5- سائیں چراغ شاہ مرتضائی (راؤ خان والا، قصور)

6- علامہ نور الدین کسیلوی مرتضائی (بہاولپور)

7- علامہ ضیاء الدین فروغی مرتضائی (باگھ سنگھ والا، قصور)

8- حکیم میاں قطب دین مرتضائی (نینوال, قصور)

9- حافظ قنبر مرتضائی (گاؤں بھینی، شرقپور شریف)

10- میاں فتح دین مرتضائی (نینوال، قصور)

تصانیف ترمیم

1- قصیدہ حضوریہ: آپ نے رسول اللّٰہﷺ کی مدح و ثنا میں ایک قصیدہ بعنوان "قصیدہ حضوریہ" تصنیف فرمایا جو فنی، مذہبی اور روحانی اعتبار سے پنجابی زبان کا قابل قدر اثاثہ ہے۔ اس میں آپ نے احسن طریق سے اثبات علم غیب، عقیدہ حاضر و ناظر اور رسول پاک کے اختیارات کلیہ کو موضوع سخن بنایا ہے۔

2- منظوم پنجابی ترجمہ قصیدہ بردہ شریف: اس منظوم ترجمہ کی شان یہ ہے عشق و مستی اور جازبیت کے اعتبار سے یہ ترجمہ پنجابی زبان کا عظیم شاہکار ہے کہ اس کی بحر، وزن، تاثیر اور قافیہ عربی قصیدے سے اس قدر ہم آہنگ ہے کہ زبان کی تبدیلی کے باوجود روحانی تاثیر میں سر مو فرق نہیں آتا۔ سید سبط الحسن ضیغم نے پیکجز لمیٹڈ لاہور کے مطبوعہ مجموعہ تراجم قصیدہ بردہ شریف میں خواجہ غلام مرتضیٰ فنا فی الرسول کے اسی منظوم ترجمہ کو بھی کتاب کی زینت بنایا ہے۔[7]

مختلف صوفی شعرا کا آپ کو خراج تحسین ترمیم

آپ کی شخصیت اور شان ولایت کو کئی شعرا نے اپنا موضوع سخن بنایا۔ سید عبد الستار شاہ، خواجہ نور محمد فنا فی الرسول، قلندر لاہوری مہر محمد صوبہ، سعدئ زماں علامہ ضیاءالدین فروغی جیسے عظیم صوفی شعرا نے اردو، پنجابی اور فارسی زبانوں میں کلام لکھ کر آپ کے علمی و روحانی مرتبہ کو داد تحسین پیش کی۔ آپ کی شان میں لکھے گئے شاعرانہ کلاموں میں سے چند ایک اقتباسات زیل میں بطور نمونہ پیش کیے گئے ہیں:


1- مرتضےٰ ہے نام اونہاں دا روشن وچہ جہاناں دے

روشن کیتا شہر قلعے نوں جیٔوں موسیٰ کوہ طورِ عظم

(سید عبد الستار شاہ، راولپنڈی)


2- جو دیکھیں قبر میں مجھکو کہیں منکر نکیر اس دم

کہ چھوڑو یہ تو دیوانہ غلامِ مرتضیٰ کا ہے

ہوا ہے اور نہ ہوگا نقشبندوں میں تیرا ثانی

فرشتوں میں بھی افسانہ غلامِ مرتضیٰ کا ہے

(خواجہ نور محمد فنا فی الرسول)


3- مظہرِ نور جمالِ مصطفیٰ

خواجۂ عالم غلامِ مرتضیٰ

مخزنِ اسرارِ حبٌِ سرمدی

معدنِ انوارِ عشقِ احمدی

(سعدیِ زماں علامہ ضیاالدین فروغی)


4- نورِ دیں را ہادیے چُوں مصطفیٰ

کعبۂ کونین، صاحب مرتضےٰ

در طریقِ نقشبنداں، نقشبند

سرٌِ حق را چوں جنابِ مجتبےٰ

(علامہ نور الدین کسیلوی مرتضائی)


5- رات آئی ویکھو عاشقاں نوں، بنھ بودیاں چھت نال رون لگٌے

کاتی پکڑ کے عشق رسول والی، وانگوں بکرے جان نوں کوہن لگٌے

تدوں عرش عظیم نوں حل ہوئی، جدوں عشق سیاپڑے ہون لگٌے

قلعے والیا کھول دے بودیاں نوں، ہویا حکم، ملائک رون لگٌے

(خواجہ مہر محمد صوبا نقشبندی)

وفات اور مزار شریف ترمیم

حضرت خواجہ غلام مرتضیٰ فنا فی الرسول 1903ء میں دنیائے ظاہری و فانی سے پردہ فرما گئے۔ آپ کا روضہ مبارک محلہ عثمان گنج نزد جنرل بس سٹینڈ بادامی باغ لاہور میں واقع ہے جہاں سال میں دو بار چیت کے پہلے اور اسوج کے دوسرے اتوار کو آپ کا عرس بڑی شان و شوکت سے منایا جاتا ہے۔ خلق خدا دور دور سے مزار اقدس پر حاضری دینے کے لیے حاضر ہوتی ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. محمد دین کلیم، پروفیسر: لاہور میں اولیائے نقشبند کی سرگرمیاں، ص 145
  2. نور محمد مرتضائی، خواجہ: سوانح خواجہ (غلامِ مرتضےٰ) فنا فی الرسول، ص 5
  3. محمد نور بخش توکلی، علامہ: تذکرہ مشائخِ نقشبندیہ، ص 715
  4. خلیل احمد مرتضائی، صاحبزادہ: خواجگانِ مرتضائیہ، ص 455
  5. خلیل احمد مرتضائی، صاحبزادہ: خواجگانِ مرتضائیہ، ص 542
  6. خلیل احمد مرتضائی، صاحبزادہ: خواجگانِ مرتضائیہ، ص 448
  7. سبط الحسن ضیغم، سید: مجموعہ تراجم قصیدہ بردہ شریف، ص 78