ممشاد علوی
خواجہ ممشاد علوی دینوری آپ کا شمار جلیل القدر مشائخ و صاحبان علوم ظاہری و باطنی میں ہوتا ہے۔
ممشاد علوی | |
---|---|
(عربی میں: ممشاذ الدينوري) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 29 مارچ 812ء دینور |
وفات | 21 ستمبر 910ء (98 سال) دینور |
عملی زندگی | |
استاذ | ابو ہبیرہ بصری |
تلمیذ خاص | خواجہ ابو اسحاق شامی |
پیشہ | صوفی |
درستی - ترمیم |
لقب
ترمیمان کا لقب کریم الدین آپ ابو ہبیرہ بصری کے مرید خاص تھے۔
ولادت
ترمیمآپ ایران کے دینور علاقے میں پیدا ہوئے۔ یہاں سے عراق بغداد علم حاصل کرنے کی غرض سے گئے جو اُن دنوں علوم و فنون کا مرکز ہوا کرتا تھا اور ساری دنیا سے طلبہ یہاں آیا کرتے تھے۔ آپ دنیاوی دولت رکھتے تھے اور سخی بھی تھے لہٰذا ضرورت مندوں کا خیال رکھتے تھے۔ آپ ابو ہبیرہ بصری کے مرید خاص تھے۔ جب مزاج پر روحانیت کا غلبہ ہوا تو تمام دولت غریبوں اور مسکینوں پر خرچ کردی۔ باطنی اشارہ پاکر ہبیرہ بصری سے بیعت کی اور عبادت و ریاضت کے بعد باطنی کمال کی تکمیل ہوئی۔ مرشد نے اپنا کمبل عطا فرمایا اور اپنا جانشین بنایا۔ آپ کا شمار جلیل القدر مشائخ و صاحبان علوم ظاہری و باطنی میں ہوتا ہے آپ سے عجیب و غریب کرامات ظاہر ہوئیں چنانچہ کہا جاتا ہے کے آپ اپنی ولادت کے دن سے ہی صائم الدہر تھے اور ایام شیر خوارگی میں بھی دن کے وقت دودھ نہ پیا کرتے۔[1]
سخاوت
ترمیمممشاد علوی دینوری ابتدائی زندگی میں بڑے صاحب ثروت اور دنیا دار تھے۔ مگر جب اللہ سے لگاؤ ہوا تو سب کچھ غریبوں میں تقسیم کر دیا۔ اور مکہ مکرمہ روانہ ہو گئے اور فرمایا کہ اے اللہ میں نے اپنے عزیزو اقارب کو تیرے سپرد کر دیا ہے۔ اب انھیں رزق دینا تیرا کام ہے۔
ایک دن دوران سفر ایک شخص کو دیکھا کہ سر پر کھانا رکھے تیز تیز جا رہا تھا۔ آپ نے پوچھا تم کون ہو اور یہ کھانا کس کے لیے ہے۔ اس شخص نے کہا میں رجال الغیب سے ہوں۔ یہ کھانا تمھارے اہل و عیال کے لیے ہے۔ مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ ہر روز انھیں کھانا پہنچاؤں۔
علوی وجہ تسمیہ
ترمیمجس دن ممشاد علوی دینوری نے خرقہ خلافت پہنا۔ خواجہ ہبیرہ بصری نے آپ کو فرمایا اے علو ! جا تمھارا کام بھی علو (اعلٰی) ہو گیا۔ وضو کر کے ہمارے پاس آؤ۔ ممشاد علوی دینوری وضو کرکے آئے تو ہبیرہ بصری نے آپ کا ہاتھ پکڑا اور آسمان کی طرف منہ کر کے کہا اے اللہ علو کو درویشی عطا فرما دے۔ یہ بات سنتے ہی ممشاد علوی دینوری بیہوش ہو گئے۔ چند لمحوں کے بعد ہوش میں آئے تو پھر بیہوش ہو گئے۔ اس طرح چالیس با ر بیہوش ہوئے۔ آخرہبیرہ بصری نے اپنا لعاب دہن منہ میں ڈالا تو پوری طرح ہوش میں آ گئے اور آپ کے قدموں میں گر گئے۔ ہبیرہ بصری نے فرمایا علو تمھیں اپنے مطلب کا دیدار ہو گیا ہے۔ ممشاد علوی دینوری نے عرض کیا کہ میں تیس سال تک مجاہدہ کرتا رہا، ریاضتیں کیں مگر یہ مقام نہ پا سکا۔ آج آپ کی وساطت سے ایک لمحہ میں پہنچ گیا ہوں اور بے پناہ دولت ملی ہے۔ ہبیرہ بصری نے آپ کو اپنا خرقہ پہنایا اور اپنے مصلیٰ پر بٹھا کر ارشاد و سلوک کی اجازت دی۔[2]
تذکرۃ الاصفیاء اور مشائخ چشت کے بعض دوسرے رشحات میں لکھا ہے کہ علی دینوری اور ممشاد دینوری دونوں ایک ہی شخصیت ہیں اور انھیں ممشاد علو دینوری لکھا جاتا ہے لیکن دارا شکوہ کے مطابق نفحات الانس اور بعض دوسری کتب سے یہ تفہیم ہوتی ہے کہ علو دینوری اور ممشاد دینوری علاحدہ علاحدہ شخصیات ہیں چنانچہ دارا شکوہ نے ممشاد دینوری کا تذکرہ سلسلہ سہروردیہ کے مشائخ عظام میں علاحدہ سے کیا ہے۔ دارا شکوہ نے انھیں سیدالطائفہ جنید بغدادی کا مرید بتایا ہے اور ان کا سال وفات 298ھ تحریر کیا ہے۔[3][4]
وصال
ترمیمآپ 4 محرم الحرام 298ھ کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ آپ کی آخری آرام گاہ دینور میں ہے۔