Autonomy

جدید جمہوریتوں کے آئین ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مگر ان میں سے کم و بیش ہر حکومت کے اندر ایسے علاقے یا ادارے موجود ہیں جو خود مختار کہے جانے کے مستحق ہیں۔ مثلاً پاکستان ایک وفاقی ریاست ہے اور اگرچہ ملکی سالمیت کی ذمے دار نگہبان مرکزی حکومت ہے جس کا درالحکومت اسلام آباد ہے مگر اس وفاقی ریاست نے اپنے اجزائے ترکیبی میں صوبوں کو خود مختاری دے رکھی۔ (جو صرف آئین کی دستاویزات تک محدود ہے اور تمام بڑے مرکزی محکمے اور آمدنی کے ذرائع مرکز کے پاس ہیں) پھر ان وحدتوں کے اندر مزید ایسے ادارے ہوتے ہیں جنھیں اپنے لیے قواعد و ضوابط مرتب کرنے کی اجازت ہے اور صوبائی حکومت اور علاقائی عدالتیں انھیں تسلیم کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر جامعہ پنجاب یا بلدیہ لاہور کو لیجیے جو قوانین و ضوابط یہ ادارے پاس کریں، صوبائی حکومت ان میں حتی الوسع مخل نہیں ہوتی۔

ایسی حکومتیں جو وحدانی ہوں۔ ان میں بعض اوقات ایسے علاقے ہوتے ہیں جن کو بعض خصوصی مراعات دے دی جاتی ہیں۔ جیسے برطانیہ اور اٹلی کی واحدنی حکومتوں کے تحت آئرلینڈ اور اطالویوں کو بھی خود مختاری حاصل ہے۔ اٹلی میں جنوبی ٹائرول کے جرمن نژاد اطالویوں کو بھی خود مختاری حاصل ہے۔ بالفاظ دیگر ایسی ریاستوں میں جہاں نسلی انواع آباد ہوں وہ مجموعی لحاظ سے ملک میں اقلیت رکھتی ہوں مگر کسی خاص علاقے میں واضح اکثریت رکھتی ہوں انھیں بھی خود مختاری دے دی جاتی ہے۔ بعض اوقات یہ خود مختاری صرف ثقافتی امور تک ہوتی ہے۔ اور اسے کوئی سیاسی حیثیت حاصل نہیں ہوتی۔ یعنی اقلیتوں کو اس کی اجازت ہوتی ہے کہ وہ بعض درسگاہوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلائیں اور وہاں اس طرح کا طریقہ تعلیم جاری رکھیں جسے وہ مستحسن سمجھتی ہیں۔ خود مختاری اور سالمیت میں فرق ہے۔ کیونکہ ثانی الذکر سے مراد آزادی کامل ہوتی ہے۔