خویلد بن اسد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی زوجہ ام المومنین حضرت خدیجہ بنت خویلد کے والد ماجد ہیں اور رسول اللہ کے پہلے سسر ہیں۔ آپ کا شمار قریش کے معزز اور دولت مند افراد میں ہوتا ہے۔ آپ غیرت مند ، حیا دار اور با اخلاق انسان تھے۔ آپ بت پرستی سے سخت متنفر تھے اور ایک خدا کو ماننے والے تھے۔ عام الفیل کے بیس برس بعد ہونے والی جنگ فجار میں قتل ہو گئے تھے۔

نام و نسب ترمیم

آپ کا نام نامی اسم گرامی خویلد تھا اور سلسلہ نسب اس طرح ہے۔

سسرال کی نسبت خویلد بن اسد کا خاندان نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کے سب سے قریب ہے اور سلسلہ نسب قصی بن کلاب پر مل جاتا ہے۔

تجارت ترمیم

حضرت خدیجہ کے والد خویلد بن اسد اپنے قبیلے میں بہت اعلی حیثیت کے مالک تھے۔ انھوں نے تجارت کو اپنا پیشہ بنایا اور پھر اس میں اتنی محنت کی کہ مکہ میں جو اشیاء بیرونی علاقوں اور ممالک کی دکھائی دیتیں ان میں سے اکثر خویلد بن اسد کے تجارتی کارواں کی لائی ہوئی ہوتیں۔ [1]

خاندانی شرافت ترمیم

خویلد بن اسد کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ بنو اسد سے تھا۔ زمانہ جاہلیت میں جو ذلیل کام (شراب خوری ، حرام خوری ، جوئے بازی ، غارت گری وغیرہ) لوگوں میں پسندیدہ اور موجب فخر سمجھتے جاتے تھے بنو اسد کے خاندان والے ان سے سخت بیزار اور متنفر تھے اور خصوصاً خویلد بن اسد تو ان ذلیل مشغلوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے اور ان لوگوں کی محبت اور میل ملاپ سے بھی نفرت کرتے تھے جو برے مشغلے رکھتے ، بد اخلاقی اور بد طینتی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ عرب معاشرے میں لڑکیوں کی پیدائش کو منحوس سمجھتے اور ان کے پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کرنے کی رسم بد تھی۔ لیکن بنو اسد میں عورت کو نجس نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ لڑکیوں کی پرورش محبت اور شفقت سے کی جاتی تھی اور ان کی تربیت کا خیال رکھا جاتا تھا۔ حضرت خویلد بہت غیرت مند ، حیا دار اور بااخلاق انسان تھے۔

بی بی خدیجہ کی پیدائش و پرورش ترمیم

حضرت خدیجہ مستند تاریخی روایات کے مطابق عام الفیل سے پندرہ برس قبل یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعث سے 55 سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔

تر بیت ترمیم

جناب خویلد بن اسد نے اپنی بیٹی خدیجہ کی پرورش خاص توجہ سے کی۔ ان کو شریف گھرانوں کے مروجہ طریقوں کے مطابق بہترین تربیت دی۔ یہ والدین کی پرورش کا نتیجہ تھا کہ حضرت خدیجتہ الکبری آبا و اجداد کی طرح مخلوق کی ہمددر ، خدمت گزار ، مسکین نواز ، غریب پرور ، متواضع ، خلیق ، مہذب ، محسن ، خوددار ، باحیا اور غیور بن گئیں۔ [2]


خواہش ترمیم

ورقہ بن نوفل جو حضرت خدیجہ کے چچا زاد بھائی تھے بہت نیک اور راست گو تھے ، اس دور جاہلیت میں بھی بتوں کی پرستش نہ کرتے بلکہ تورات و انجیل سے ہدایات اپنے سینے میں اتارتے تھے۔ خویلد بن اسد کو ورقہ بن نوفل سے بہت محبت تھی اور خواہش تھی کہ اپنی بیٹی خدیجہ کی شادی ورقہ بن نوفل سے کر دیں مگر کسی باعث خواہش پوری نہ ہو سکی۔ [3]

بہادری ترمیم

جناب خدیجہ کے والد گرامی اس زمانے کی مشہور و معروف شخصیت تھے اور بہت دلیر اور بہادر تھے۔ ان کی بہادری اور شجاعت کا اندازہ اس سے ہو گا کہ یمن کے بادشاہ تبع ایک شکر لے کر مکہ پر حملہ آور ہوا اور اس نے پورے شہر کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ حجر اسود کو کعبہ سے نکال کر یمن میں لے جائے۔ مکہ کے لوگوں نے اس کی سخت مخالفت کی ۔ اس مخالفت اور احتجاج کی رہبری جناب خدیجہ کے والد گرامی جناب خویلد کر رہے تھے۔ جناب خویلد، بادشاہ یمن کے اس ارادے کی مخالفت میں کھل کر سامنے آگئے اور ہر قیمت پر جراسود کی حفاظت کا اعلان کر دیا۔ بس اب کیا تھا تبع بادشاہ یمن نے اس سخت رویے کو دیکھتے ہوئے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ اس طرح ایک بہت اہم شعائراللہ کی حفاظت ہوئی۔ اس واقع کا اثر یہ ہوا کہ جناب خویلد کی بہادری و شجاعت کے چرچے پورے مکہ میں ہرانسان کی زبان پر آگئے۔ لوگ ان کی بہت تعریف کرنے لگے۔ [4] [5]

مذہب ترمیم

جناب خویلد بن اسد ان لوگوں میں شامل تھے جو بت پرستی سے شدید نفرت کرتے تھے۔

  • تاریخ عرب (مولفہ آقائے ادریس ایرانی) میں ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ ابھی حضرت خدیجہ الکبری اچھی طرح بالغ نہیں ہوئی تھیں کہ ایک دن والد ماجد کے ساتھ باہر نکلیں۔ جب دونوں باپ بیٹی ایک جگہ پہنچے تو خویلد نے چند لوگوں کو دیکھ کر منہ چھپا لیا یا اپنا رخ تبدیل کر لیا۔ حضرت خدیجہ نے پوچھا ابا جان! کیا بات ہے؟ آپ نے کیوں چہرہ پھیر لیا ہے؟ خویلد نے کہا بیٹی وہ دیکھ رہی ہو نا! نادان لوگ بتوں کو پوج رہے ہیں اور نیم برہنہ ہو کر پتھر کی بے جان مورتیوں سے حاجت طلب کر رہے ہیں۔ بیٹی یہ رسمیں واہیات اور گمراہ کن ہیں اور میں ان سے سخت بیزار ہوں۔ حضرت خدیجہ نے دریافت کیا جب یہ بت بے فائدہ اور ان کی پوجا پاٹ سے کچھ حاصل نہیں ہوتا تو ہمارے قبائل کے لوگ ان کی کیوں پرستش کرتے ہیں؟ جناب خویلد بن اسد نے جواب دیا جان پدر! یہ لوگ جاہل ، کم عقل اور رذیل ہیں۔ یہ معبود حقیقی کی اصلیت اور معرفت پانے سے معزور ہیں ، ان کے دماغ پر تاریکی چھائی ہوئی ہے اور یہ مشرک لوگ ایک ایسی ضلالت میں مبتلا ہیں جو انسانی شعور کو تباہ کر دیتی ہے۔ حضرت خدیجہ نے جب اپنے والد ماجد سے یہ باتیں سنیں تو وہ بھی بتوں کی مشرکانہ رسموں سے متنفر ہو گئیں۔

ایک روایت کے مطابق خویلد بن اسد عیسائیت پر راغب تھے لیکن اور ایک روایت کے مطابق وہ مسیحی نہ تھے بلکہ ایک خدا کو ماننے والے موحدانہ عقائد رکھتے تھے۔ [6]

وفات ترمیم

طبقات ابن سعد میں بیان کیا جاتا ہے کہ خویلد بن اسد عام الفیل سے 20 برس بعد چھڑنے والی اس لڑائی میں قریش کے لشکر میں شامل تھے جسے حرب فجار کہتے ہیں۔ خویلداس لڑائی میں قتل ہوئے ۔ خویلد بن اسد جب قتل ہوئے تو اس وقت تک ان کا کاروبار بہت وسیع ہو چکا تھا۔ اس وسیع کاروبار کی دیکھ بھال ان کی بیٹی نے کرنا شروع کر دی۔ اس وقت تک حضرت خد یجہ کے دو نکاح ہو چکے تھے۔ [7]

اولاد ترمیم

حضرت خویلد بن اسد نے اپنے پیچھے چھ اولادیں چھوڑیں جن میں تین بیٹے اور تین بیٹیاں شامل تھیں۔

  1. نوفل بن خویلد
  2. حزام بن خویلد
  3. عوام بن خویلد [8]
  4. خدیجہ بنت خویلد
  5. ہالہ بنت خویلد
  6. رقیقہ بنت خویلد [9]

حوالہ جات ترمیم

  1. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عزیز و اقارب مصنفین محمد اشرف شریف ، ڈاکٹر اشتیاق احمد صفحہ 140
  2. سیرت خدیجتہ الکبری مولف حکیم محمد ادریس فاروقی صفحہ 27 تا 31
  3. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عزیز و اقارب مصنفین محمد اشرف شریف ، ڈاکٹر اشتیاق احمد صفحہ 140
  4. ام المومنین سیدہ خدیجة الکبری مولف علامہ محمد محمدی اشتہاردی اردو مترجم سید علی شیر نقوی صفحہ 37 اور 38
  5. سیرة حلبیہ مصنف علامہ علی بن برہان الدین حلبی اردو متراجم محمد اسلم قاسمی جلد اول حصہ نصف اول صفحہ 436
  6. سیرت خدیجتہ الکبری مولف حکیم محمد ادریس فاروقی صفحہ 33 اور 34
  7. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عزیز و اقارب مصنفین محمد اشرف شریف ، ڈاکٹر اشتیاق احمد صفحہ 141
  8. خاندان نبوت کا تعارف مولف شیخ محمد عظیم حاصل پوری صفحہ 116
  9. خاندان نبوت کا تعارف مولف شیخ محمد عظیم حاصل پوری صفحہ 127