دابۃ الارضقرآن میں قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی کے طور پر ذکر ہوا ہے۔

معنی

ترمیم

دابۃ۔ مادہ د ب ب۔ الدب والدبیب (ضرب) کے معنی آہستہ چلنے اور رینگنے کے ہیں یہ لفظ حیوانات اور زیادہ تر حشرات الارض کے متعلق استعمال ہوتا ہے یہ لفظ گو عرف عام میں خاص کر گھوڑے پر بولا جاتا ہے مگر لغت ہر حیوان یعنی ذی حیات چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے قرآن مجید میں اور جگہ ہے واللہ خلق کل دابۃ من ماء(24:25) اور خدا نے ہر چلتے پھرتے جانور کو پانی سے پیدا کیا۔

قیامت کی ایک نشانی

ترمیم

دابۃ الارض کا پیدا ہونا قیامت کی اخیر ترین علامت ہے اس عجیب ترین حیوان کا نام حدیث شریف میں جساسہ آیا ہے۔ اس کے قدوقامت، مقام خروج وغیرہ کے متعلق بڑی تفصیلات روایات میں مذکور ہیں ۔[1] دابتہ الارض کیا ہے اور کہاں اور کب نکلے گا :

10 نشانیاں

ترمیم

مسند احمد میں حذیفہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تم اس سے پہلے دس نشانیاں نہ دیکھ لو۔

  • 1 آفتاب کا جانب مغرب سے طلوع ہونا۔
  • 2 دخان۔
  • 3 دابہ۔
  • 4 خروج ياجوج اور ماجوج۔
  • 5 نزول عیسیٰ علیہ السلام۔
  • 6 دجال۔
  • 7،8،9) تین خسوف ایک مغرب میں دوسرا مشرق میں تیسرا جزیرة العرب میں ہوگا۔
  • 10 ایک آگ جو قعرعدن سے نکلے گی اور سب لوگوں کو ہنکا کر میدان حشر کی طرف لے آئیگی جس مقام پر لوگ رات گزارنے کے لیے ٹھہریں گے یہ آگ بھی ٹھہر جائے گی پھر ان کو لے چلے گی [2]

اس حدیث سے قرب قیامت میں زمین سے ایک ایسے جانور کا نکلنا ثابت ہوا جو لوگوں سے باتیں کرے گا۔ اور لفظ دابة کی تنوین میں اس جانور کے عجیب الخلقت ہونے کی طرف بھی اشارہ پایا گیا اور یہ بھی کہ یہ جانور عام جانوروں کی طرح توالد و تناسل کے طریق پر پیدا نہیں ہوگا بلکہ اچانک زمین سے نکلے گا اور یہ بات بھی اسی حدیث سے سمجھ میں آتی ہے کہ دابتہ الارض کا خروج بالکل آخری علامات میں سے ہوگا جس کے بعد بہت جلد قیامت آ جائے گی۔ ابن کثیر نے بحوالہ ابو داؤد طیالسی طلحہ بن عمر سے ایک طویل حدیث میں روایت کیا ہے کہ یہ دابتہ الارض مکہ مکرمہ میں کوہ صفا سے نکلے گا اور اپنے سر سے مٹی جھاڑتا ہوا مسجد حرام میں حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان پہنچ جائے گا۔ لوگ اس کو دیکھ کر بھاگنے لگیں گے ایک جماعت رہ جائے گی یہ دابہ ان کے چہروں کو ستاروں کی طرح روشن کر دے گا۔ اس کے بعد وہ زمین کی طرف نکلے گا، ہر کافر کے چہرے پر کفر کا نشان لگا دے گا۔ کوئی اس کی پکڑ سے بھاگ نہ سکے گا یہ ہر مومن و کافر کو پہچانے گا ( ابن کثیر) اور مسلم بن حجاج نے عبد اللہ ابن عمر سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک حدیث سنی تھی جس کو میں کبھی بھولتا نہیں وہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کی آخری علامات میں سب سے پہلے آفتاب کا طلوع مغرب کی طرف سے ہوگا اور آفتاب بلند ہونے کے بعد دابتہ الارض نکلے گا ان دونوں علامتوں میں سے جو بھی پہلے ہو جائے اس کے فوراً بعد قیامت آ جائے گی۔ (ابن کثیر) شیخ جلال الدین محلی نے فرمایا کہ خروج دابہ کے وقت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے احکام منقطع ہوجائیں گے اور اس کے بعد کوئی کافر اسلام قبول نہ کرے گا۔ یہ مضمون بہت سی احادیث و آثار سے مستنبط ہوتا ہے (مظہری) ابن کثیر وغیرہ نے اس جگہ دابتہ الارض کی ہیئت اور کیفیات و حالات کے متعلق مختلف روایات نقل کی ہیں جن میں سے اکثر قابل اعتماد نہیں اس لیے جتنی بات قرآن کی آیات اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ یہ عجیب الخلقت جانور ہوگا۔ بغیر توالد و تناسل کے زمین سے نکلے گا۔ اس کا خروج مکہ مکرمہ میں ہوگا پھر ساری دنیا میں پھرے گا۔ یہ کافر و مومن کو پہچانے گا اور ان سے کلام کرے گا بس اتنی بات پر عقیدہ رکھا جائے، زائد کیفیات و حالات کی تحقیق و تفتیش نہ ضروری ہے نہ اس سے کچھ فائدہ ہے۔ رہا یہ معاملہ کہ دابتہ الارض لوگوں سے کلام کرے گا اس کا کیا مطلب ہے؟ بعض حضرات نے فرمایا کہ اس کا کلام یہی ہوگا جو قرآن میں مذکور ہے اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا لَا يُوْقِنُوْنَ، یہ کلام وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو سنائے گا، بہت سے لوگ آج سے پہلے ہماری آیتوں پر یقین نہ رکھتے تھے اور مطلب یہ ہوگا کہ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ان سب کو یقین ہو جائے گا مگر اس وقت کا یقین شرعاً معتبر نہیں ہوگا اورابن عباس، حسن بصری، قتادہ سے منقول ہے اور ایک روایت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی ہے کہ یہ دابتہ لوگوں سے خطاب اور کلام کرے گا جس طرح عام کلام ہوتا ہے۔ (ابن کثیر)[3]

"دابۃ الارض" کی حقیقت:

ترمیم

دابۃ کااردو معنی ہے "جاندار"، "چلتاپھرتا" یا " جیتاجاگتا"،اور لغت میں ہر ذی حیات چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے۔دیکھیں "وما من دابۃ فی الأرض الا على الله رزقها (ہود: 6)"، ترجمہ:"اور زمین کے جانداروں میں سے کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو"۔مزید دیکھیں ، "واللہ خلق کل دابۃ من ماء(النور:45) "، ترجمہ: "اور اللہ نے ہر ذی روح کو پانی سے پیدا کیا"۔فاطرآیت45 واضح کرتی ہے کی انسان "دابۃ" ہی  ہے۔لہٰذا، سورۃ النمل آیت82، جس سے"دابۃ الارض"کو قیامت کی نشانی کے طورپرپیش کیا جاتاہے، اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے:  "اور جب پوری ہوتی ہے بات اُن پر، تو ہم اُن کے لیے زمین میں ایک جیتاجاگتا(انسان) نکالتے ہیں جو ان سے کلام کرتاہے، بے شک(اکثر) لوگ ہماری آیتوں پر ایمان نہیں لاتے"۔یہاں "دابۃ " سے مراد انسان ہے،دلیل یہ "تُكَلِّمُهُمْ"کے الفاظ ہیں کہ وہ دابہ جوکلام کرتا ہو،اوروہ انسان ہے۔اس آیت میں"دابۃ " سے مراد نبی ہے[4]۔ مزیدتفسیرثنائی نے بھی "دابۃ " سے مراد نبی لیاہے[5]۔تفسیرقرطبی میں ہے: "دابۃ الارض سے مراد وہ متکلم انسان ہے جو اہلِ کفر اور اہلِ بدعت سے مناظرہ اور مکالمہ کرتا ہے تا کہ اُن کی دلیل ختم ہو جائے اور جس نے زندہ رہنا ہے وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے اور جس نے مرنا ہے وہ دلیل کے ساتھ مر ے"[6]۔لہٰذا، دابۃ الارض قیامت کی نشانی نہیں۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. انوار البیان فی حل لغات القرآن جلد2 صفحہ558 ،علی محمد، سورۃ النمل۔ آیت 82،مکتبہ سید احمد شہید لاہور
  2. رواہ مسلم و اہل السنن من طرق
  3. تفسیر معارف القرآن،مفتی محمد شفیع،النمل 82
  4. بیان الفرقان، ملک احسان الحق 
  5. تفسیرثنائی 
  6. تفسیرقرطبی