یاجوج اور ماجوج
اس صفحے میں موجود سرخ روابط اردو کے بجائے دیگر مساوی زبانوں کے ویکیپیڈیاؤں خصوصاًً انگریزی ویکیپیڈیا میں موجود ہیں، ان زبانوں سے اردو میں ترجمہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کریں۔ |
قرآن واضح طور پر گواہى ديتا ہے كہ يہ دو وحشى خونخوار قبيلوں كے نام تھے، وہ لوگ اپنے ارد گرد رہنے والوں پر بہت زيادتياں اور ظلم كرتے تھے۔ مفسر علامہ طباطبائی نے الميزان ميں لكھا ہے كہ توريت كى سارى باتوں سے مجموعى طور پر معلوم ہوتا ہے كہ ماجوج يا ياجوج و ماجوج ایک يا كئى بڑے بڑے قبيلے تھے، يہ شمالى ايشيا كے دور دراز علاقے ميں رہتے تھے۔ يہ جنگجو، غارت گر اور ڈاكو قسم كے لوگ تھے۔
تاريخ كے بہت سے دلائل كے مطابق زمين كے شمال مشرق مغولستان كے اطراف ميں گذشتہ زمانوں ميں انسانوں كا گويا جوش مارتا ہو اچشمہ تھا، يہاں كے لوگوں كى ابادى بڑى تيزى سے پھلتى اورپھولتى تھى ،ابادى زيادہ ہونے پر يہ لوگ مشرق كى سمت يا نيچے جنوب كى طرف چلے جاتے تھے اور سيل رواں كى طرح ان علاقوں ميں پھيل جاتے تھے اور پھر تدريجاً وہاں سكونت اختيار كر ليتے تھے ،تاريخ كے مطابق سيلاب كى مانند ان قوموں كے اٹھنے كے مختلف دور گذرے ہيں _(2) علامہ آلوسی رحمہ اللہ علیہ کا کلام روح المعانی میں ہے۔ یاجوج ماجوج کون ہیں : لوگوں نے اس میں کلام کیا ہے کہ یاجوج ماجوج کون لوگ ہیں۔ جمہور علما تفسیر و حدیث کا قول یہ ہے کہ یاجوج و ماجوج بنی نوع انسان کی دو قوموں یا دو قبیلوں کا نام ہے آدم (علیہ السلام) ور یافث بن نوح (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں جو ترک کا جد اعلیٰ ہے اور ترک اس خاندان کی ایک شاخ ہے جو سد ذوالقرنین کے اس طرف ترک کردیے گئے تھے یعنی چھوڑ دیے گئے تھے۔ گویہ کہ لفظ ترک متروک سے مشتق ہے اور یہ لوگ کافر ہیں اور دوزخی ہیں اور اس قدر کثیر اور بے شمار ہیں کہ ان میں اور اہل بہشت میں وہ نسبت ہے کہ جو ایک اور ہزار میں ہے۔ امم سابقہ و لاحقہ میں سے جس قدر افراد دوزخ میں جائیں گے ان تمام کے مقابلہ میں اکثریت یاجوج و ماجوج کی ہوگی۔ بخاری کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آدم (علیہ السلام) کو حکم دیں گے کہ اپنی اولاد سے دوزخ کا لشکر جدا کیجیے عرض کریں گے کہ کس قدر۔ ارشاد ہوگا ہر ہزار سے ایک کم ہزار۔ اور بعض علما یہ کہتے ہیں کہ یاجوج ماجوج آدم کی اولاد سے تو ہیں مگر حوا کے پیٹ سے نہیں گویا وہ عام آدمیوں کے محض باپ شریک بھائی ہیں۔ حافظ عسقلانی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ بات سوائے کعب احباررضی اللہ عنہ کے اور کسی سے منقول نہیں اور بعض کہتے ہیں کہ یاجوج و ماجوض ترکوں کے دو قبیلے ہیں۔[1]
كورش كے زمانے ميں بھى ان كى طرف ايك حملہ ہوا ،يہ تقريباً پانچ سو سال قبل مسيح كى بات ہے ليكن اس زمانے ميں ماد اور فارس كى متحد ہ حكومت معرض وجود ميں آچكى تھى لہذا حالات بد ل گئے اور مغربى ايشيا ان قبائل كے حملوں سے آسودہ خاطر ہوگيا_ لہذا يہ زيادہ صحيح لگتا ہے كہ ياجوج اور ماجوج انہى وحشى قبائل ميں سے تھے ،جب كورش ان علاقوں كى طرف گئے تو قفقاز كے لوگوں نے درخواست كى كہ انھيں ان قبائل كے حملوں سے بچايا جائے ،لہذ اس نے وہ مشہور ديوار تعمير كى ہے جسے ديوار ذوالقرنين كہتے ہيں
یہودی و مسیحی کتب مقدسہ میں
ترمیمحزقی ایل اور عہد نامہ قدیم
ترمیمعہد نامہ قدیم کی کتاب حزقی ایل کے ابواب میں صرف یاجوج (جوج) کا ذکر ملتا ہے۔[2][3]
کتاب میں چھٹی صدی ق م کے نبی حزقی ایل کے رویات کے سلسلوں کا ذکر ہے، حزقی ایل ہیکل سلیمانی کا کاہن اور بابلی جلاوطنی کے دوران میں اسیروں میں سے ایک تھا۔ اس نے اپنے ساتھی اسیروں کو بتایا کہ یہ جلاوطنی اسرائیل پر ان کے دور جانے پر خدا کی سزا ہے، اگر وہ اس کی طرف لوٹ آئیں تو خدا اہلِ یروشلم کو بحال کر دے گا۔[4] اس یقین دہانی کے پیغام کے بعد، 38–39 ابواب میں بتایا ہے کہ کس طرح ”سرزمین ماجوج“ کا یاجوج اور اس کا لشکر اسرائیل کو خوف زدہ کرے گا مگر مارا جائے گا، اس کے بعد خدا ایک نئی ہیکل تشکیل دے گا اور اپنے بندوں کے ساتھ دیرپا امن والی سکونت اختیار کرے گا۔ (ابواب 40–48)
اسلام میں
ترمیمقرآن مجید میں ذکر
ترمیماللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: حَتَّى إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِن دُونِهِمَا قَوْمًا لَّا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ قَوْلًا قَالُوا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَى أَن تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا قَالَ مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ حَتَّى إِذَا سَاوَى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انفُخُوا حَتَّى إِذَا جَعَلَهُ نَارًا قَالَ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا فَمَا اسْطَاعُوا أَن يَظْهَرُوهُ وَمَا اسْتَطَاعُوا لَهُ نَقْبًا قَالَ هَذَا رَحْمَةٌ مِّن رَّبِّي فَإِذَا جَاء وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاء وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًا
—
- ترجمہ:
- یہاں تک کہ دو دیواروں کے درمیان میں پہنچا تو دیکھا کہ ان کے اس طرف کچھ لوگ ہیں کہ بات کو سمجھ نہیں سکتے۔ ان لوگوں نے کہا ذوالقرنین! یاجوج اور ماجوج زمین میں فساد کرتے رہتے ہیں بھلا ہم آپ کے لیے خرچ (کا انتظام) کر دیں کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان میں ایک دیوار کھینچ دیں۔ ذوالقرنین نے کہا کہ خرچ کا جو مقدور خدا نے مجھے بخشا ہے وہ بہت اچھا ہے۔ تم مجھے قوت (بازو) سے مدد دو۔ میں تمھارے اور ان کے درمیان میں ایک مضبوط اوٹ بنا دوں گا۔ تو تم لوہے کے (بڑے بڑے) تختے لاؤ (چنانچہ کام جاری کر دیا گیا) یہاں تک کہ جب اس نے دونوں پہاڑوں کے درمیان میں (کا حصہ) برابر کر دیا۔ اور کہا کہ (اب اسے) دھونکو۔ یہاں تک کہ جب اس کو (دھونک دھونک) کر آگ کر دیا تو کہا کہ (اب) میرے پاس تانبہ لاؤ اس پر پگھلا کر ڈال دوں۔ پھر ان میں یہ قدرت نہ رہی کہ اس پر چڑھ سکیں اور نہ یہ طاقت رہی کہ اس میں نقب لگا سکیں۔ بولا کہ یہ میرے پروردگار کی مہربانی ہے۔ جب میرے پروردگار کا وعدہ آپہنچے گا تو اس کو (ڈھا کر) ہموار کر دے گا اور میرے پروردگار کا وعدہ سچا ہے۔(اس روز) ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ (روئے زمین پر پھیل کر) ایک دوسرے میں گھس جائیں گے اور صور پھونکا جائے گا تو ہم سب کو جمع کر لیں گے۔
اس کے علاوہ قرآن مجید میں ایک اور مقام پر بھی یاجوج و ماجوج کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُم مِّن كُلِّ حَدَبٍ يَنسِلُونَ
- ترجمہ:یہاں تک کہ یاجوج ماجوج کھول دیے جائیں اور وہ ہر بلندی سے دوڑ رہے ہو۔
مشہور شخصیات کی رائے
ترمیمام حبیبہ بنت ابی سفیان جو زینب بنت جحش سے بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ ان کے پاس گھبراہٹ کی حالت میں داخل ہوئے اور کہنے لگے لا الہ الا اللہ عرب کو اس شر سے ہلاکت ہو جو قریب آگیا ہے آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہو گیا ہے اور آپؐ نے اپنے انگوٹھے اور اس کی ساتھ والی انگلی کا حلقہ بنایا زینب بنت جحش فرماتی ہیں کہ میں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول ﷺ کیا ہمیں ہلاک کر دیا جائے گا حالانکہ ہم میں صالح لوگ ہیں تو نبی ؐنے فرمایا ہاں جب فسق وفجور کی زیادتی ہو جائے گی ۔[5]
نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر انھیں کھلا چھوڑدیا جائے تو وہ لوگوں پر ان کے معاش میں فساد پھیلایئنگے۔ (طبرانی )
اللہ نے بنی آدم ؑ کو 10 حصوں میں تقسیم کیا 9 حصے یاجوج ماجوج بنائے اور باقی ایک حصہ میں باقی کے عام انسان (مستدرک حاکم )
پس اللہ کے نبی عیسی ابن مریم اور ان کے رفقا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کریں گے اور اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کی گردنوں میں کیڑا پیدا کر دے گا، جس سے وہ ایک آن میں ہلاک ہوجائیں گے۔ پھر عیسیٰ ؑ اور ان کے رفقا کوہِ طور سے زمین پر اتریں گے تو ایک بالشت زمین بھی خالی نہیں ملے گی جو ان کی لاشوں اور بدبو سے بھری ہوئی نہ ہو، تب عیسیٰ اور ان کے رفقا اللہ سے دعا کریں گے، تب اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کی گردنوں کے مثل پرندے بھیجے گا، جو ان کی لاشوں کو اٹھاکر جہاں اللہ کو منظور ہوگا پھینک دیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ایسی بارش برسائے گا کہ اس سے کوئی خیمہ اور کوئی مکان چھپا نہیں رہے گا، وہ بارش زمین کو دھوکر شیشے کی طرح صاف کر دے گی۔(مسلم:2937)(ترمذی:2204)
رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ تم اپنے دشمن سے یاجوج ماجوج کے نکلنے تک لڑتے رہو گے جو چوڑے چہروں، چھوٹی آنکھوں والے اور بھورے بال والے ہوں گے ان کے چہرے گویا دونچی ہوئی ڈھال ہیں (بخاری 334)
قران و حدیث کے علاوہ مختلف شخصیات مختلف اندازے لگاتے رہے
کھل گئے یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام
چشم مسلم دیکھ لے تفسیر حرف ” ینسلون “ (بانگ درا)
’’ قرآن میں یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ یاجوج و ماجوج کے خروج کاواقعہ دیوار ٹوٹنے کے ساتھ ہی پیش آ جائے گا، بلکہ دیوارٹوٹنے کا وعدہ صرف سورۃ الکہف والی آیت میں کیا گیا ہے اور دیوار حسب وعدہ ٹوٹ گئی، لیکن یہ بات کہ دیوار ٹوٹتے ہی بغیر کسی وقفہ کے یاجوج و ماجوج نکل پڑیں گے۔ قرآن میں کوئی ایسا حرف نہیں پایا جاتا جس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکے۔ یہ بات سمجھنے کے قابل ہے کہ ذوالقرنین کا قول (پھر جب میرے رب کا وعدہ آئے گا تو اس کوگرا کرریزہ ریزہ کر دے گا اور میرے رب کی فرمائی ہوئی بات سچ ہے ) اس کا اپنا ہے اور قرینہ سیاق و سباق میں ایسا موجود نہیں ہے جس سے سد (دیوار)کے ریزہ ریزہ ہو جانے کے واقعہ کو علامات قیامت میں شمار کیا جائے اور شاید ذوالقرنین کو یہ علم بھی نہ ہو کہ اشراط ساعت میں سے خروج یاجوج وماجوج بھی ہے اور اس نے وعدہ ربی سے صرف اس کا کسی وقت میں ٹوٹ پھوٹ جانا مراد لیا ہو۔ پس اس صورت میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ’’ کہ ہم نے کر چھوڑا ان کو اس دن سے اس حالت میں کہ بعض بعض پر امڈ رہے ہیں۔ ‘‘استمرارتجددی پر دلالت کرتا ہے یعنی برابر ایسا ہوتا رہے کہ ان میں بعض قبائل بعض پر حملہ آورہوتے رہیں گے۔ حتیٰ کہ خروج موعود کا وقت آ جائے۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد جو سورۃ ابنیاء میں ہے ’’ حتی اذافتحت ‘‘ تو البتہ یہ بلا شبہ علامات قیامت میں سے ہے لیکن اس میں سد (دیوار) کا قطعاً کوئی ذکر نہیں ہے پس اس فرق کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے۔ آخر میں ارشاد فرماتے ہیں میں نے ان آیات کی تفسیر میں جو کچھ کہا ہے وہ قرآن میں تاویل نہیں بلکہ قرآن عزیز کے کسی لفظ کو اس کے اپنے موضوع سے نکالے بغیر تاریخ اور تجربہ کے پیش نظر مزید اظہار خیال ہے ۔‘‘ [6]
مولانااشرف علی تھانوی اپنے ملفوظات میں لکھتے ہیں
’’ مولانا عبد الرشید احمد گنگوہی سے سنا ہے کہ یاجوج ماجوج کو تبلیغ ہو چکی ہے اس لیے کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ رات بھر اس دیوار کو چاٹتے ہیں اور کھودتے ہیں جو ان کے درمیان حائل ہے جب وقت آوے گا تو وہ یہ کہیں گے کہ ان شاء اللہ کل اس کو ختم کر دیں گے - ان شاء اللہ کہنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو اللہ کا نام معلوم اورانہیں تبلیغ ہو چکی ہے‘‘ [7]
نوح ؑکے تین بیٹے تھے سام حام یافث جو ان کے ساتھ کشتی میں شریک ہوئے جبکہ کنعان اور عابر غرق ہوئے - سام کو سمیٹیک نسل بھی کہا جاتا ہے، قوم عاد و ثمود اسی نسل کی شاخیں تھیں، ابراہیم ؑ بھی اسی نسل سے تھے، محمد ﷺ بھی اسی نسل تھے، یافث کی اولاد نے وسطی ایشیا کے پہاڑی سلسلے کو عبور کیا اور شمال میں چلے گئے اور دائیں بائیں پھیل گئے، کچھ منگولیا اور چین میں آباد ہوئے جبکہ کچھ روس، مشرقی یورپ، سکیندینویا اور مغربی یورپ میں آباد ہوئے- حام کی اولاد میں قبطی، بربر افریقی اور سوڈانی کے لوگ ہیں۔
یافث کے بیٹوں کا نام تورات میں یاجوج و ماجوج آیا ہے، جبکہ دیگر میں دوبال (بالٹک ریاستیں) اور موسک (موسکو) بھی تھے، ان اقوام کا لوٹ مار شیوا تھا، ذولقرنین سے بھی لوگوں نے ان کے وحشی مظالم سے بچنے کے لیے مدد مانگی تھی، اینگلو سکسن کولونیل سیلاب لانے والے بھی یاجوج و ماجوج ہی کی نسل سے تھے، یہ انکا پہلا سیلاب تھا جو دنیا بھر میں آیا شمالی امریکا، لاطینی امریکا، افریقہ، جنوبی ایشیا، عرب کے کچھ علاقے، مشرق بعید وغیرہ میں انھوں نے حکومت کی تاہم اب بھی اداروں کے ذریعے سے حکومت کر رہے ہیں، دوسرا سیلاب احوال قیامت میں آئے گا،معرکہ ہرمجدون مسیح ؑ کے نزول اور یہودیت و مسیحیت کے اختتام کے بعد، یہ وہی لوگ ہیں جنکہ حدیث میں ذولقرنین کی دیوار میں سوراخ کا ذکر آیا ہے، یہ سیلاب دوبارہ جو آئیگا یہ مشرق کی طرف سے آئیگا چین یا وسطی ایشیا، ہرمجدون کی بڑی جنگ میں یہ لوگ حصہ نہیں لیں گے جس میں یورپ اور مشرق وسطی یہودی مسلمان اور مسیحی آمنے سامنے ہوں گے-[8]
’’قرآن کریم نے ایک نمایاں نشانی بتائی ہے جس سے نہ صرف یاجوج وماجوج کی رہائی کا علم ہو جائے گا بلکہ یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ دنیا اس وقت یاجوج و ماجوج کے کنٹرول میں ہے۔ ’’ جس بستی کو ہم نے تباہ کر دیا تھا اس کے باشندوں پر پابندی ہے کہ وہ وہاں نہیں جا سکتے جب تک یاجوج و ماجوج نہ کھل جائیں۔ اور وہ تمام بلندیوں سے اترتے نظر آئیں گے۔(یا ہر سمت میں بڑھتے نظر آئیں گے) ‘‘ (سورۃ الانبیاء ،95؍96) جب یاجوج وماجوج رہا ہو جائیں گے اور ہر سمت میں چھا جائیں گے تو وہ لوگ جو عذاب سے تباہ کیے گئے تھے یعنی یہود دوبارہ لا کر اس بستی میں بسائے جائیں گے۔ اور ایسی بستی صرف ایک ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تباہ کر دیا تھا اور جس کا تذکرہ یاجوج و ماجوج کے ساتھ احادیث میں بھی مذکور ہے اور وہ یروشلم ہے۔ سورۃ الانبیاء کی آیت 95،96 کسی خاص واقعہ کو یاجوج و ماجوج کے خروج کی ایک واضح نشانی کے طور پر پیش کرتی ہے اور اس کا سمجھنا آج کے دور کے حالات کے تناظر میں نہایت ہی اہم اور ضروری ہے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ سورۃ بنی اسرائیل میں یہود پر اللہ تعالیٰ کے دو بار عذاب کے نزول کے تذکرے کے بعد اس بات کی بھی آگے ان کو تنبیہ کی گئی ہے کہ ’’ اگر تم واپس ہو جاؤ گے تو ہم بھی واپس ہوں گے۔ ‘‘ اس پر اظہار خیال کے بعد سورۃ الابنیاء کی آیت 95 ’’ اور روک لگی ہوئی ہے اس آبادی پر جسے ہم نے ہلاک کر دیا کہ وہ نہ واپس لوٹیں تاں کہ جب کھول دئے جائیں یاجوج و ماجوج اور ہر ڈھلاؤ (حدب) سے وہ تیز رفتاری کے ساتھ نکلیں۔‘‘[9]
یاجوج اور ماجوج کون ہیں، کیا وہ مضحکہ خیز مخلوق ہیں یا عام انسان ہیں؟
اس کا جواب دینے کے لیے ہمیں ایسے لوگوں کو ڈھونڈنا پڑے گا جن کے بارے کہا گیا ویل لعرب، جن کا رسول اللہ کے زمانے سے عرب سے کوئی تعلق نہ ہو بلکہ جن کا اب حد درجہ ارض مقدسہ سے لگاؤ ہو ایسے لوگ تو صرف یورپی لوگ ہیں، جنھوں نے رسول آخر ؐ کے فورا ًبعد صلیبی جنگیں شروع کردی یہی یورپی لوگ کچھ خود کو مسیحی کہلواتے ہیں اور مسیحیت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے جبکہ ارض مقدسہ ان کی صہیونی تحریک کے سر پر سوار ہے جو یورپی لوگوں کا کارنامہ ہے انہی میں سے اب خود کو بنی اسرائیلی کہلواتے ہیں، صرف یہی دو قومیں ہیں جن کے سر پر ارض مقدسہ کو آزاد کروانے کا شغف ہے دنیا بھر میں کسی اور براعظم کے یہودی اور مسیحی یہ کام نہیں کر رہے فقط یورپی یہود اور نصاریٰ اور آخر میں ہمارے پاس جزیرہ برطانیہ ہے جو اب سیکولر اور لادین ہے اور یہ 1917ء کی بدنام زمانہ بلفور عہدنامہ استعمال کر رہا ہے اور اس کا یہ نصب العین ہے کہ ارض مقدسہ میں قیام ارض الیہود کے لیے سرگرداں رہے جو انتہائی عجیب بات ہے نصاریٰ کہلوانے والوں کے لیے۔ یہ ارض مقدسہ کی آزادی کا خمار اس بات کی تائید کرتاہے کہ یاجوج اور ماجوج یورپی تہذیب میں ہی ہیں،ہم ان کا تعین مزید محدود کر سکتے ہیں اور یورپی تہذیب میں بھی انھیں مخصوص کرسکتے ہیں کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ یاجوج اور ماجوج کا لشکر جب بحیرہ طبریہ سے گذرے گا تو وہاں پانی پائے گاجبکہ ان کے آخری کہیں گے یہاں پانی ہوا کرتا تھا، اب جبکہ یہ سوکھ رہا ہے کون لوگ بحیرہ طبریہ کا پانی استعمال کرتے ہیں؟ مصریوں، اردنیوں، شامیوں کو یہ پانی نصیب نہیں ہوتا بلکہ صرف اسرائیلیوں کے تصرف میں آتا ہے، اسرائیل میں کون ہیں جو اس پانی کا استعمال کرتے ہیں، فلسطینیوں سے زیادہ یورپی اشکنازی یہود اس پانی کو استعمال کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے بینکاری کے ذریعے جدید معیشت ترتیب دی، یہی لوگ ہیں جن کی حکومت نے صحرا کو سرسبزبنانے کی پالیسی ترتیب دی، چنانچہ اس بحیرہ کا پانی مسلسل خشک ہو رہا ہے[10]
’’اس کا اگر یہ مطلب سمجھا جائے کہ یاجوج و ماجوج کے کھلنے سے پہلے برباد اور تباہ ہونے والی بستیوں کو دو بارہ سر اٹھانے اور عروج و ترقی حاصل کرنے کا موقع یاجوج و ماجوج کے کھول دئے جانے کے بعد ہی مل سکتا ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ قرآنی تعبیر کے طرز خطاب سے جو مانوس ہیں ان کے لیے یہ کوئی اچھنبے کی سی بات ہو۔‘‘[11]
’’اللہ کے نبی عیسیٰؑ اور ان کے ساتھی یاجوج ماجوج کی ہلاکت کے لیے دعا و زاری کریں گے۔ پس اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں نغف یعنی کیڑے پڑ جانے کی بیماری بھیجے گا جس سے وہ سب یک بارگی اس طرح مر جائیں گے جس طرح کوئی ایک شخص مر جاتا ہے۔‘‘[12]
گلڈ ہال لندن میں نصب یاجوج و ماجوج کے مجسمے اس کی کافی شہادت ہیں جن کو دوبارہ ایستادہ کرنے کی تقریب پر 1951ء میں چرچل نے یاجوج کو روس اور ماجوج کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کا نشان قرار دیا تھا۔ (لندن ٹائم 10 نومبر 1951ء[13])
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سابق صدر جارج و بش نے ایک اعلی اور اہم یورپی اتحادی کو خفیہ فون پر راغب کرتے ہوئے، امریکی فوجیوں کو عراق پر حملہ کے خدائی مہم میں فرانسیسی فوجیوں کی مدد مانگی . شیراک نے یاد کیا کہ امریکی رہنما نے ہمارے ’’مشترک عقیدے‘‘ کی جانب سے اپیل کی اور بتایا: ’’یاجوج اور ماجوج مشرق وسطی میں مصروف ہیں .... بائبل کی پیشن گوئی پوری ہو رہی ہے .... اس جنگ میں خدا کی مرضی شامل ہے، جواس کے ذریعے سے اپنے لوگوں کے دشمنوں کو نئے زمانے سے قبل ختم کرنا چاہتا ہے۔‘‘[14][15]
قِيَاسَات برائے سد ذوالقرنین
ترمیمدیوارِ چین : یہ دیوار عیسی بن مریم سے ٢٣٥ سال قبل اینٹ اور پتھر سے بنائی گئی
دیوارِ سمر قند :یہ دیوار سمرقند کے قریب بنائی گئی، اس کی بناوٹ میں لوھے کی چادروں اور اینٹوں کا استعمال کیا گیا، نہایت مستحکم اور بلند ہے تاہم اس میں ایک دروازہ ہے اور قفل لگا ہوا ہے-خلیفہ معتصم نے خواب میں اس کو ٹوٹا ہوا دیکھا تو پچاس آدمیوں کو تحقیق کیلے ء بھیجا، یہ دیوار جبل الطی کا درہ بند کرنے کے لیے بنائی گئی تھی، اس دیوار کو یمن کے حمیری بادشاہ نے بنایا تھا اور اسے اس کارنامہ پر بہت فخر تھا بعض علما کا خیال ہے کہ یہی بادشاہ ذوالقرنین تھا-
دیوارِ تبت :یہ جگہ قدیم خراسان کا آخری کنارہ تھا جہاں دو شمالی پہاڑوں کے درمیان بنائی گئی، اس جگہ سے ترک دھاوا کیا کرتے تھے، فضل بن یحییٰ برمکی نے دروازہ لگا کر اس کو بند کر دیا تھا یہ دیوار بلاتفاق وہ دیوار نہیں جو قران میں ذکر ہوئی کیونکہ یہ نزول قران کے بعد تعمیر ہوئیی
دیوارِ آزربائجان: یہ دیوار آزربائیجان کے سرے پر بحیرہ طبرستان کے کنارے پر جبل قبق کے گھاٹ کو غیر قوموں کی آمد و رفت کو بند کرنے کے لیے پتھر اور سیسے سے نوشیروان نے بنائی تھی اور یہ آزربائیجان اور ارمنیه کے دو پہاڑوں کے درمیان واقع ہے، یہ دیوار ابتک قائم ہے[16]
بحیرہ طبریہ کی خشکی
ترمیمبحیرہ طبریہ میں نو وارد جزیرہ میں کا مقام | |
مقام | اسرائیل اردن سرحد |
---|---|
متناسقات | 32°42′44.46″N 35°35′58.9992″E / 32.7123500°N 35.599722000°E |
متعدد روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ بحیرہ طبریہ کا خشک ہوجانا خروج دجال کی ایک علامت ہے ... جبکہ مصدقہ ذرائع کے مطابق کہا جاتا ہے کہ سرائیل کی طبریہ جھیل میں پانی کی سطح بتدریج کم ہونے کی وجہ سے اس میں ایک جزیرہ نمودار ہو گیا جو روسی سیارچہ کے زمینی تصاویر کی ویب گاہ , ینڈکس اور میپ قویسٹآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ mapquest.com (Error: unknown archive URL) اور گوگل پر نظر آ رہا-[17][18] اسرائیلی حکومت اس کی سالانہ سطحی اتار چڑھاؤ کی تفصیلات اس جگہآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ water.gov.il (Error: unknown archive URL) شائع کرتی ہے
مذہب اور تاریخ کی کتابیں اس بات سے بھری پڑی ہیں کہ روز محشر یا قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک اس جھیل کا خشک ہونا بھی ہے۔ نبی کریم ﷺ بھی یہ بات فرما چکے ہیں:
” |
.........تمیم سمندر کے جہاز میں ایک جزیرے کے کنارے جا لگے۔ پس وہ جزیرے میں داخل ہو گئے وہاں ان کو ایک جانور ملا جو جاسوس تھا۔ وہ ایک بڑے قد کے آدمی کے پاس لے گیا جس کے دونوں ہاتھ گردن کے ساتھ بندھے ہوئے، دونوں زانوں سے ٹخنوں تک لوہے سے جکڑا ہوا تھا۔ اس نے پوچھا تم کون ہو؟ لوگوں نے کہا کہ ہم عرب ہیں ....... اس نے کہا کہ مجھے طبریہ کے بارے میں بتلاؤ۔ کہ اس میں پانی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اس میں بہت پانی ہے۔ اس نے کہا کہ البتہ اس کا پانی عنقریب ختم ہو جائے گا۔ میں تم سے اپنا حال کہتا ہوں کہ میں مسیح ہوں .......[19] |
“ |
نواس بن سمعان نے رسول اکرمؐ سے حدیث روایت کی ہے جس سے پچھلی حدیث کی تائید ہوتی ہے :
.............فيمر أوائلهم على بحيرة طبرية فيشربون ما فيها ويمر آخرهم ويقول لقد كان بهذه مرة ماء۔.............[20]
” | ............ اللہ یاجوج ماجوج کو بیدار کر دے گا اور وہ ہر بلندی سے نکل کر پھیل جائیں گے۔ ان کا ہراول دستہ بحیرۂ طبریہ پر سے گزرے گا تو اس کا سارا پانی پی جائے گا اور ان کا پچھلا دستہ وہاں سے گزرے گا تو کہے گا یقیناً یہاں پانی ہوا کرتا تھا ............ | “ |
۔
بعض روایتوں میں وارد ہے کہ اللہ تعالی یاجوج ماجوج کو ظاہر کرے گا جو دوڑتے ہوئے تمام زمین میں آن کی آن میں پھیل جائیں گے، ان کی تعداد اتنی زیادہ ہوگی کہ جب ان کی پہلی جماعت 'بحیرہ طبریہ' سے گذرے گی تو اس کا سارا پانی پی جائے گی۔[21] بحیرہ طبریہ جہاں سے اسرائیل اپنے لیے پانی حاصل کرتا ہے خشک ہونے والا ہے اور خوفناک گڑھوں کی وجہ سے اب لوط ؑ کی قوم کو عبرتناک عذاب سے دوچار کیے جانے کے نتیجے میں وجود میں آنے والا سمندر ’بحیرئہ مردار‘ یا ڈیڈ سی بہت تیزی سے خشک ہو رہا ہے اس کی سطح آب میں بھی غیر معمولی کمی واقع ہو رہی ہے ماہرین کا خیال ہے کہ بحیرئہ مردار 2050ء سے بہت پہلے اپنا وجود کھو بیٹھے گاان گڑھوں کی تعداد 1990ء میں صرف 40 تھی، تاہم اب صرف مقبوضہ فلسطین کی جانب والے ساحل پر 3 سو گڑھے بن چکے ہیں، جس سے اسرائیل کو سخت پریشانی لاحق ہے، اس کی ہر ممکن کوشش ہے کہ اس کے سمندر خشک نہ ہوں۔ اس لیے نہر سویز سے ایک رابطہ نہر بحیرئہ مردار تک کھودی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ بحیرئہ احمر، بحیرہ مردار سے 400 میٹر اونچا ہے، رابطہ نہر کے علاوہ بحیرئہ احمر یا بحیرہ قلزم کو بحیرہ مردار کے ساتھ پائپ لائن کے ذریعے جوڑنے کا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کو RSDSC منصوبہ کہتے ہیں، اس منصوبہ پر اربوں ڈالر خرچ ہوں گے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بحیرئہ مردار ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے تیزی سے خشک ہو رہا ہے۔
یہ جھیل اس سے قبل بھی تاریخ میں خشک ہو چکی ہے، تاہم اس کا خشک ہونا تاریخی اہمیت کے حامل کسی واقعہ کا پیش خیمہ رہی ہے جیساکہ آپﷺ کی ولادت کے عجیب واقعات میں یہ واقعات بھی روایت کیے گئے ہیں کہ آپﷺ کی ولادت کے وقت کسریٰ کے محل میں زلزلہ آیا اور اس کے چودہ کنگرے گر پڑے اور بحیرہ طبریہ فوراً خشک ہو گیا۔ اور فارس کا آتش کدہ بجھ گیا جو ایک ہزار سال سے مستقل روشن تھا اور کبھی نہ بجھتا تھا۔[22]
شغفِ مغرب
ترمیملفظ میک یا مک بمطابق عربی 'ابن' کے استعمال کیا جاتا تھا چنانچہ گاگ میک گاگ کے معنی جوج ابن جوج بھی لیے گئے ہیں جیسا کہ گالیک زبان میں عیسی میک مریم بولا جاتا ہے - البیؤن(یعنی قدیم لندن ) کے پرانے شاہ بلوط کے دو درخت جنہیں ابتک یاجوج و ماجوج کہا جاتا ہے-انگلستان ہی میں ایک علاقہ ڈھلوانِ ماجوج کے نام سے موجود ہے اور 16 اور 17 صدیوں میں انگلستان کے علاقے کیمبرج میں یاجوج ماجوج کے نام سے مقابلے ہوتے رہے ہیں یاجوج ماجوج اور انگلستان کے درمیان تعلق پہلی بار منموتھ کے جوفری نے 1136ء میں اپنی تاریخ شاہانِ برطانیہ میں عیاں کی۔ گیلڈہال کے دو مجسموں کو 300 سال سے یاجوج ماجوج کہا جاتا ہے جو تاریخی طور پر البیؤن یعنی لندن کے محافظ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں،[23] گیلڈہال کے مجسمے جنگ عظیم دوم کی بلٹز کی بمباری میں تباہ ہوئے اس سے قبل لندن کی 1708ء کی عظیم آتشزدگی میں بھی تباہ ہوئے ، تاہم لندن کے باسیوں و حکمرانوں کو ان کی کمی اس شدت سے محسوس ہوئی کہ 1953ء میں دوبارہ بنا ڈالی گئیں، اب سوال یہ ہے کہ کیا منموتھ کے جوفری کے اس بات کے کوئی شواہد تھے خاصکر بروٹ کے رہائشیوں کے حوالے سے جو اب لندن شہر کی گیلڈہال ہے- [24]
لندن کے عجائب گھر کے قرون وسطی کے لندن کی تاریخ اور نوادرات کے سرپرست اعلی جان کلارک نے مئیر لندن فرنک مکمنس کو اپنے ایک خط میں اس تعلق کی جانب اشارہ کیا کہ لندن میں یاجوج ماجوج کی دیوقامت پتلے اور مجسمے 1558ء سے لارڈ مئیر کے جلوس کی زینت بنتے رہے ہیں اسی سال یہ ٹمپل بار کے مغربی داخلی و نمائشی دروازے پر ملکہ الزبتھ اول کے استقبال کے لیے رکھے گئے - جبکہ1554ء میں ملکہ میری اور سپین کے فلپ دوم کے استقبال کے لیے بھی رکھے گئے تھے- جنیفر ویسٹوڈ کی لندن شہر کی تاریخ کی کتاب 'البیؤن( لندن کا پرانا نام)،آ گائیڈ ٹو لجندڑی لندن' کے مطابق لندن میں یہ مجسمے پانچ صدیوں سے شہری جلوسوں میں ظاہر ہوتے رہے ہیں، 1415ء میں اسی طرح کا مجسموں کا ایک جوڑا ہنری پنجم کو اگینکورٹ سے واپسی پر خوش آمدید کہنے کے لیے موجود تھا جبکہ 1554ء سے قبل انھیں سمپسن اور ھرکلیس کہا جاتا تھا تاہم ٹوڈر کے زمانے میں البیؤن یا لندن کے پرانے قصے سامنے آنے لگے اور انہی میں یاجوج ماجوج - یاجوج ابن جوج کا قصہ بھی تھا-
مندرجہ بالا تاریخی حوالوں سے لندن اور یاجوج ماجوج کا کسی درجہ تعلق ظاہر ہوتا ہے جبکہ بائبل و دیگر کتب میں ان کا ذکر خیر نہ تھا بلکہ عبرت اور تنبیہ کے لیے انکا ذکر آتا رہا پھر کیا وجہ تھی کہ لندن کے امرا اور باسی یاجوج وماجوج کی محبت کا شکار تھے جو آجتک چلی آ رہی ہے -
جدید معادیات
ترمیمابتدائی 19 ویں صدی میں , کچھ حاسیدی راہبوں نے نپولین کے روس " پر حملے کو یاجوج اور ماجوج کی جنگ کے طور پر سمجھا "[25] لیکن جیسے جیسے صدی گزرتی گئی اور مغرب نے سیکولر نظریہ فکر اپنانا شروع کیا , معادی توقعات گھٹتے گئے [26]۔ لیکن ریاست ہائے متحدہ امریکا میں یہ صورت حال نہ تھی، جہاں ایک 2002ء کے ایک سروے کے نتائج نے نشان دہی کی ہے کہ 59 فیصد امریکیوں کے خیال کے مطابق مکاشفہ کی کتاب میں آئی پیش گوئیاں ضرور واقع ہوں گی[27]۔ سرد جنگ کے دوران اس خیال نے کہ یاجوج کا کردار دراصل روس ہے مقبولیت حاصل کی ، حزقی ایل کے الفاظ کے مطابق جو یاجوج کو شہزادہ "میشیک" عبرانی میں روش میشیک پر روس اور ماسکو کا شائبہ ہوتا تھا۔ [4] یہاں تک کہ کچھ روسیوں اور صدر رونالڈ ریگن نے یہی سوچ اختیار کی،اگرچہ وہ بظاہر اس کے مضمرات سے ناانجان رہے کہ ("ہمارے باپ دادا کا ذکر بائبل میں ہے اور یہی کافی ہے") ۔[28][29]
سرد جنگ کے بعد کچھ ہزار پسند اب بھی یاجوج کی شناخت روس کے طور پر کرتے ہیں , لیکن وہ اب اس کے اتحادیوں پر زور دینے کی کوشش کرتے ہیں ، جن میں قابل ذکر ایران ہے[30]۔ جبکہ زیادہ مستعد و تُندخو لوگوں کے لیے اسرائیل میں یہودیوں کی واپسی کے ساتھ ہرمجدون کے لیے الٹی گنتی شروع ہو چکی، جس کے بعد مزید نشانیاں آخری معرکہ کی جانب اشارہ کر رہی ہیں بشمول جوہری ہتھیار، یورپی انضمام، اسرائیل کا قبضہ یروشلم اور امریکا کی افغانستان اور خلیج فارس میں جنگیں ہیں۔ [31] صدر بش نے فرانسیسی صدر جاق شیراک کو مناتے ہوئے کہا کہ خلیج فارس میں یاجوج ماجوج مصروف عمل ہیں جس میں خدا کی مرضی شامل ہے، جو اپنے لوگوں کے دشمنوں کو اس کے ذریعے سے ختم کرنا چاہتا ہے، اس سے قبل کہ نیا دور شروع ہو۔[32] [15] شیراک نے لوزان کی یونیورسٹی کے شعبہ دینیات کے پروفیسر سے بش کے بیان کی وضاحت کے لیے مشاورت کی تھی۔[33]
اسلامی الہامی روایت میں دنیا کے اختتام سے قبل، یاجوج ماجوج سے رہائی اور ان کی تباہی اللہ کی طرف سے ایک ہی رات میں ہو گی۔[34] مسلمانوں کے کلاسیکی عروج کے زمانے کے بعد عام طور پر اس موضوع پہ توضیحِ نو جاری نہ رکھی گئی ، تاہم جدید دنیا کی توضیحی ضروریات نے ایک نیا ادب ،سوچ اور شعور پیدا کیا جس میں معادیات یاجوج و ماجوج کی نشان دہی یہود، اسرائیل ان کے دس گمشدہ قبائل یا کبھی کبھار کمیونسٹ روس اور چین کے طور پر کر رہے ہیں ۔[35] ایک رکاوٹ جو اس ادب کے ادیبوں کو درپیش ہے اس دیوار کا محل وقوع ہے جو یاجوج اور ماجوج کے لیے تیار کی گئی تھی اور جو آج کی تاریخ میں ناپید ہے ، اس سوال کا جواب ان کے یہاں مختلف ہے، کچھ ادیب کہتے ہیں کہ یاجوج اور ماجوج منگول تھے جبکہ دیوار اب غائب ہے، دوسروں کے مطابق دیوار اور یاجوج اور ماجوج دونوں نادیدنی ہیں۔[36]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ تفسیر معارف القرآن مولاناادریس کاندہلوی
- ↑ Tooman 2011، ص 140
- ↑ Block 1998، ص 432
- ^ ا ب Blenkinsopp 1996، ص 178
- ↑ صحیح بخاری حدیث نمبر 3097
- ↑ http://www.baseeratonline.com/9972.php آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ baseeratonline.com (Error: unknown archive URL) (دجالی فتنہ کے نمایاں خدو خال : مولانا مناظر احسن گیلانی فیض الباری جلد 4 صفحہ 423)
- ↑ ملفوظات حکیم الامت جلد 23 صفحہ ٣٦٥ - مؤلف : حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب - ناشر : ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان پاکستان http://www.elmedeen.com/read-book-208&page=365&q=یاجوج%20ماجوج[مردہ ربط]
- ↑ 3-3 Zulqurnain - Gog Magog - Yajooj Majooj - 018 AL KAHAF 083 101 - YouTube
- ↑ کتاب ’’القدس اور اختتام وقت ‘‘ از شیخ عمران حسین، صفحہ ٣٤٥
- ↑ Who are Gog (Ya'juj) n Magog (Ma'juj) by Sheikh Imran Hosein - YouTube
- ↑ مولانا عاصم عمر کی کتاب (دجالی فتنے کے نمایاں خدو خال) میں لکھتے ہیں: http://www.baseeratonline.com/9972.php آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ baseeratonline.com (Error: unknown archive URL)
- ↑ روزنامہ ایکسپریس کالم ٣٠ ستمبر 2017ء http://javedch.com/special-features/2017/09/30/279444
- ↑ NewspaperSG - The Singapore Free Press, 10 November 1951
- ↑ Gog, Magog And The Iraq Invasion - The Atlantic
- ^ ا ب https://books.google.com.pk/books?id=MtOODAAAQBAJ&pg=PA339&redir_esc=y#v=onepage&q&f=false
- ↑ معارف القران جلد 5 صفحہ 26 تفسیر سورہ کہف، http://www.elmedeen.com/read-book-1216&&page=47&viewer=pdf آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ elmedeen.com (Error: unknown archive URL)
- ↑ The sea of Galilee record low, Tear shaped island - YouTube
- ↑ "Island Appears in Parched Sea of Galilee - Israel Today | Israel News"۔ 22 مارچ 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مارچ 2018
- ↑ الراوي: فاطمة بنت قيس تقول المحدث: ابن حبان - المصدر: صحيح ابن حبان - الصفحة أو الرقم: 6788 https://sunnah.com/muslim/54/149 https://sunnah.com/abudawud/39/36
- ↑ Hadith - The Book of Tribulations and Portents of the Last Hour - Sahih Muslim - Sunnah.com - Sayings and Teachings of Prophet Muhammad (صلى الله عليه و سلم)
- ↑ [Islam] End Times: Gog and Magog and the Sea of Galilee (Ya'juj wa Ma'juj) - YouTube
- ↑ (رواہ البیہقی و ابو نعیم والخرائطی فی الہواتف، و ابن عساکرکذا فی المواہب)
- ↑ https://lordmayorsshow.london/procession/gogmagog.html
- ↑ Winston Churchill recognized the Noble Quran's "Iron Gates" about Gog and Magog
- ↑ Wessels 2013، ص 205
- ↑ Kyle 2012، ص 34–35
- ↑ Filiu 2011، ص 196
- ↑ Paul Boyer (1992)۔ When Time Shall Be No More: Prophecy Belief in Modern Culture۔ Belknap Press۔ صفحہ: 162۔ ISBN 9780674028616۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مارچ 2018
- ↑ Christopher Marsh (2011)۔ Religion and the State in Russia and China۔ A&C Black۔ صفحہ: 254۔ ISBN 9781441112477۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مارچ 2018
- ↑ Kyle 2012، ص 171
- ↑ Kyle 2012، ص 4
- ↑
- ↑ Wessels 2013، ص 193, fn 6
- ↑ Cook 2005، ص 8, 10
- ↑ Cook 2005، ص 12, 47, 206
- ↑ Cook 2005، ص 205–206
کتابیات
ترمیم- Monographs
- Andrew Runni Anderson (1932)۔ Alexander's Gate, Gog and Magog: And the Inclosed Nations۔ Cambridge, Massachusetts: Mediaeval Academy of America
- Sverre Bøe (2001)۔ Gog and Magog: Ezekiel 38–39 as Pre-text for Revelation 19,17–21 and 20,7–10۔ Mohr Siebeck۔ ISBN 9783161475207
- Rieuwerd Buitenwerf (2007)۔ "The Gog and Magog Tradition in Revelation 20:8"۔ $1 میں H. J. de Jonge، Johannes Tromp۔ The Book of Ezekiel and its Influence۔ Ashgate Publishing۔ ISBN 9780754655831
- Ian Michael (1982)، "Typological Problems in Medieval Alexander Literature: The Enclosure of Gog and Magog"، The Medieval Alexander Legend and Romance Epic: Essays in Honour of David J.A. Ross، New York: Kraus International Publication، صفحہ: 131–147، ISBN 9780527626006
- William A. Tooman (2011)۔ Gog of Magog: Reuse of Scripture and Compositional Technique in Ezekiel 38–39۔ Mohr Siebeck۔ ISBN 9783161508578
- Emeri J. Van Donzel، Andrea Barbara Schmidt (2010)۔ Gog and Magog in Early Eastern Christian and Islamic Sources: Sallam's Quest for Alexander's Wall۔ Brill۔ ISBN 9004174168
- Scott D. Westrem (1998)۔ مدیران: Sylvia Tomasch، Gilles Sealy۔ "Against Gog and Magog"۔ Text and Territory: Geographical Imagination in the European Middle Ages۔ University of Pennsylvania Press۔ ISBN 0812216350
- Encyclopedias
- J. Lust (1999a)۔ مدیران: Karel Van der Toorn، Bob Becking، Pieter Van der Horst۔ Magog۔ Dictionary of deities and demons in the Bible۔ Brill۔ ISBN 9780802824912
- J. Lust (1999b)، مدیران: Karel Van der Toorn، Bob Becking، Pieter Van der Horst، "Gog"، Dictionary of deities and demons in the Bible، Brill، ISBN 9780802824912
- Fred Skolnik، Michael Berenbaum (2007)۔ Encyclopaedia Judaica۔ 7۔ Granite Hill Publishers۔ صفحہ: 684۔ ISBN 9780028659350
- Biblical studies
- Joseph Blenkinsopp (1996)۔ A History of Prophecy in Israel (revised and enlarged ایڈیشن)۔ Westminster John Knox۔ ISBN 9780664256395
- Daniel I. Block (1998)۔ The Book of Ezekiel: Chapters 25-48۔ Eerdmans۔ ISBN 9780802825360
- Literary
- Edward C. Armstrong (1937)۔ The Medieval French Roman d'Alexandre۔ VI۔ Princeton University Press
- Peter G. Bietenholz (1994)۔ Historia and Fabula: Myths and Legends in Historical Thought from Antiquity to the Modern Age۔ Brill۔ ISBN 9004100636
- John Andrew Boyle (1979)، "Alexander and the Mongols"، The Journal of the Royal Asiatic Society of Great Britain and Ireland (2): 123–136، JSTOR 25211053
- Sir Ernest Alfred Wallis Budge، مدیر (1889)۔ "A Christian Legend concerning Alexander"۔ The History of Alexander the Great, Being the Syriac Version۔ II۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 144–158۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 ستمبر 2018
- Paul Meyer (1886)۔ Alexandre le Grand dans la littérature française du moyen âge۔ F. Vieweg۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 ستمبر 2018
- Richard (tr.) Stoneman، مدیر (1991)۔ The Greek Alexander Romance۔ Penguin۔ ISBN 9780141907116۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 ستمبر 2018
- Geography and ethnography
- Kevin A Brook (2006)۔ The Jews of Khazaria۔ Rowman & Littlefield۔ ISBN 9781442203020
- Andrew Colin Gow (1995)۔ The Red Jews: Antisemitism in an Apocalyptic Age, 1200–1600۔ Brill۔ ISBN 9004102558
- Robert Marshall (1993)۔ Storm from the East: from Genghis Khan to Khubilai Khan۔ University of California Press۔ صفحہ: 6–12, 120–122, 144۔ ISBN 9780520083004
- Michel Massing (1991)، مدیر: Jay A. Levenson، "Observations and Beliefs: The World of the Catalan Atlas"، Circa 1492: Art in the Age of Exploration، Yale University Press، صفحہ: 31, 32 n60، ISBN 0300051670
- Marco Polo (1875)، "Ch. 59: Concerning the Province of Tenduc, and the Descendants of Prester John"، $1 میں Henry (tr.) Yule، The Book of Sir Marco Polo, the Venetian، 1 (2nd, revised ایڈیشن)، J. Murray، صفحہ: 276–286 ( Chapter 59 مکمل متن ویکی ماخذ پر)
- William of Rubruck (1900)۔ مدیر: William Woodville Rockhill۔ The Journey of William of Rubruck to the Eastern Parts of the World, 1253–55۔ Hakluyt Society۔ صفحہ: xlvi, 100, 120, 122, 130, 262–263 and fn
- Modern apocalyptic thought
- David Cook (2005)۔ Contemporary Muslim Apocalyptic Literature۔ Syracuse University Press۔ ISBN 9780815630586
- Jean-Pierre Filiu (2011)۔ Apocalypse in Islam۔ University of California Press۔ ISBN 9780520264311
- Richard G. Kyle (2012)۔ Apocalyptic Fever: End-Time Prophecies in Modern America۔ Wipf and Stock Publishers۔ ISBN 9781621894100
- Anton Wessels (2013)۔ The Torah, the Gospel, and the Qur'an: Three Books, Two Cities, One Tale۔ Eerdmans۔ ISBN 9780802869081