دارالاسلام اور دار الحرب

اسلام میں تین طرح کی ریاستیں ہیں اور فقہی اصطلاح میں دار الاسلام، دار الحرب اور دار الكفر کہتے ہیں۔[1]

  • دار الاسلام- وہ ملک جہاں مسلمان بادشاہ ہو اور شرعی حکومت ہو۔
  • دار الكفر- وہ ملک جہاں غیر مسلم بادشاہ کی حکومت ہو۔

بعض لوگ دار الاسلام اس ملک کو کہتے ہیں شریعت کا نفاذ ہو گرچہ غیر مسلمین کی تعداد زیادہ ہو۔ اور دار الکفر وہ ملک ہے جہاں مسلمانوں کی حکومت نہ ہو اور نہ ہی شریعت کا نفاذ ہواور مسلمان اقلیت میں ہو۔[2] معاصر علما کا ماننا ہے کہ اقوام متحدہ اب تمام ملکوں کو ممکن حد تک دارالامن بنانا چاہتی ہے۔ اس کی ایک مثال اسرائیل ہے۔۔[3][4]

جدید دنیا کی صورت حال

ترمیم

عصر حاضر میں جس طرح اقامت دین کے فریضہ کی ادئیگی کے لیے کھڑی ہونے والی اکثر جماعتیں اس بات کا تعین نہیں کرتیں کہ وہاں حکومت کرنے والے کی حیثیت کیا ہے ؟بالکل اسی طرح وہ اس بات کا تعین کرنے کی زحمت بھی گورانہیں کرتیں جس سرزمین پر وہ یہ تحریک برپا کرنے جا رہے ہیں اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ آیا وہ دار الاسلام ہے یا دارا لحرب۔[5]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. فتـــوى في شمول مصطلح " دار السلم والإسلام " لداغستان ونحوهاة أ۔د القرہ داغي، تاريخ الولوج 18 أبريل 2013 آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ qaradaghi.com (Error: unknown archive URL)
  2. مصطلحات شرعية: دار الإسلام ودار الكفرمحمد بن عبد السلام الأنصاري آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ assakina.com (Error: unknown archive URL)
  3. دار الإسلام ودار الكفرعبد اللہ بن بيہ، تاريخ الولوج 18 ابريل 2013 آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ binbayyah.net (Error: unknown archive URL)
  4. واعتبار الدول التي ترتبط بميثاق الأمم المتحدة دار عهد قال بہ د۔الزحيلي في العلاقات الدولية ص(108-109) ،وعبدالحميد الحاج في النظم الدولية في القانون والشريعة ،ص (183-184)۔نقلاً عن أصول العلاقات الدولية ،عثمان ضميرية ، هامش ص 350
  5. دارالاسلام اور دارالحرب کے احکامات