دخانی یا بھاپ کا انجن ایک حرارتی انجن ہے جو دُخان/بھاپ کے ذریعہ کام کرتا ہے۔ بھاپ کا انجن ایک حرارتی انجن ہے جو بھاپ کو اپنے کام کرنے والے سیال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مکینیکل کام کرتا ہے۔ بھاپ کا انجن ایک پسٹن کو سلنڈر کے اندر آگے پیچھے کرنے کے لیے بھاپ کے دباؤ سے پیدا ہونے والی قوت کا استعمال کرتا ہے۔ اس متحرک پسٹن کو سلاخ (connecting rod) اور کرینک کے ذریعے پہیوں سے جوڑ دیا جاتا ہے اور کام کے لیے گردشی قوت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اصطلاح "بھاپ کے انجن" کا اطلاق عام طور پر صرف نقل و حمل کے لیے استمال ہونے والے انجنوں پر ہوتا ہے۔ بھاپ کے ٹربائن پر نہیں۔ بھاپ کے انجن بیرونی احتراق کے انجن ہیں، جہاں کام کرنے والے سیال کو حرارت پیدا کرنے والے ایندھن سے الگ رکھا جاتا ہے۔ اس عمل کا تجزیہ کرنے کے لیے استعمال ہونے والے مثالی حرحرکیاتی چکر کو رینکائن چکر کہا جاتا ہے۔ عام استعمال میں سٹیم انجن کی اصطلاح یا تو مکمل سٹیم پلانٹس (بشمول بوائلر وغیرہ) کے لیے استعمال ہوتی ہے جیسے کہ ریلوے سٹیم انجن اور چھوٹے انجن یا صرف پسٹن یا ٹربائن مشینری کے لیے استعمال ہوتی ہے جیسا کہ ساکت دخانی انجن۔

A 1817 Boulton & Watt beam blowing engine, used in Netherton at the ironworks of M W Grazebrook, re-erected on the A38(M) in Birmingham, UK
Preserved British steam-powered fire engine – an example of a mobile steam engine. This is a horse-drawn vehicle: the steam engine drives the water pump
A mill engine from Stott Park Bobbin Mill, Cumbria, England

18 ویں صدی میں جیمس واٹ نے دخانی انجن کی ترقی کی۔ برطانیہ اور دوسرے ممالک میں صنعتی انقلاب کی بڑی وجہ یہی دخانی انجن تھے۔ دخان یا بھاپ کو بطور حرکی توانائی استعمال کرنے کا تصور پہلی صدی عیسوی کے رومن دور کے مصر میں ایولیپائل (ایلیو دیوتا کا پہیا) سے ملتا ہے۔ عثمانی دور کے مسلمان انجینئر تقی الدین نے مصر میں بھاپ کی طاقت سے پانی بالائی سطح پر پہنچانے کا میکانزم بنایا۔ سولہویں صدی میں بہت سے یورپی انجینئر نے اس تصور کو بڑھاتے ہوئے بھاپ کی طاقت سے چلنے والے پمپ بنائے۔

1606 میں جیرونیمو ڈی ایانز وائی بیومونٹ نے معدنی کانوں میں بھر جانے والے پانی کو نکالنے کے لیے بھاپ سے چلنے والے پہلے پانی کے پمپ کی ایجاد کو پیٹنٹ کرایا۔[2]  تھامس ساوری کو پہلے تجارتی طور پر استعمال ہونے والے بھاپ سے چلنے والے آلے کا موجد سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک بھاپ سے چلنے والا پمپ تھا جو پانی پر براہ راست کام کرنے والے بھاپ کے دباؤ کا استعمال کرتا تھا۔ پہلا تجارتی طور پر کامیاب انجن جو مشین کو مسلسل طاقت منتقل کر سکتا تھا 1712 میں تھامس نیوکومن نے تیار کیا تھا۔ جیمز واٹ  1764 میں ایک اہم بہتری لائے، خرچ شدہ بھاپ کو کنڈینسر میں جمع کرکے فی یونٹ استعمال ہونے والے ایندھن کی مقدار کو بہت بہتر بنایا۔ 19ویں صدی تک، اسٹیشنری بھاپ کے انجن صنعتی انقلاب کے کارخانوں کو طاقت دیتے تھے۔ بھاپ کے انجنوں نے پیڈل سٹیمرز پر جہازوں کے لیے بادبانوں کی جگہ لے لی اور ریلوے کی لائنوں بھاپ والے انجن دوڑنے لگے۔

20ویں صدی کے اوائل تک متبادل (reciprocating ) پسٹن قسم کے بھاپ کے انجن طاقت کا سب سے بڑا ذریعہ تھے۔ اسٹیشنری اسٹیم انجن کی کارکردگی میں تقریباً 1922 تک ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا۔ [3] سب سے زیادہ رینکائن سائیکل کی کارکردگی 91% اور مشترکہ تھرمل کارکردگی 31%  کا اظہار 1921 اور 1928 کے دوران کیا گیا۔ برقی موٹروں اور اندرونی دہن کے انجنوں میں ترقی کے نتیجے میں تجارتی استعمال میں بھاپ کے انجنوں کی جگہ بتدریج برقی موٹروں اور اندرونی دہن کے انجنوں نے لے لی۔ کم لاگت، زیادہ آپریٹنگ سپیڈ اور اعلی کارکردگی کی وجہ سے سٹیم ٹربائنز نے بجلی پیدا کرنے کے لیے متبادل انجنوں کی جگہ لے لی۔ یاد رہے کہ چھوٹے پیمانے پر بھاپ کی ٹربائنیں بڑی ٹربائنز کے مقابلے میں بہت کم موثر ہوتی ہیں۔ [6]

جرمنی میں اب بھی بڑے متبادل پسٹن سٹیم انجن تیار کیے جا رہے ہیں۔ [7]