دربارِ اکبری محمد حسین آزاد کی تصانیف میں سب سے طویل کتاب جو اکبر اعظم کے دربار کے حالات اور اُس زمانے کی ثقافتی تصویر ہے۔ یہ کتاب آزاد کے اسلوبِ خاص کی ایک خوبصورت اور لازوال شکل ہے۔

خصوصیات ترمیم

آزاد کی اس تصنیف میں غنائیت نمایاں ہے۔ تاریخی حقائق کے ساتھ ساتھ آزاد نے اس میں بزم اور رزم کا بھی خیال رکھا ہے۔ دربارِ اکبری کو ایک تاریخی ناول بھی کہا جا سکتا ہے مگر اس میں ناولیت نمایاں نہیں ہے۔ زبان اور اسلوب میں منظر نگاری اور مکالمے، ڈرامے کی شکل اختیار کر گئے ہیں جن کی وجہ سے اس کی تاریخی حیثیت پر اثر پڑا ہے۔ آزاد نے واقعات کو جس انداز میں پیش کیا ہے وہ اردو ادب میں آفاقی شکل اختیار کر گیا ہے۔

اشاعت و طباعت ترمیم

1898ء میں دربارِ اکبری اُس وقت شائع ہوئی جب آزاد ہوش و خرد سے آزاد عالم وارفتگی میں قدم رکھ چکے تھے۔ اس کی اشاعت کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ مولانا ممتاز علی نے آزاد کی وارفتگی سے فائدہ اُٹھا کر اسے اپنے نام سے شائع کر لیا مگر بعد میں یہ ثابت ہو گیا کہ مولانا ممتاز علی کی تصنیف نہیں کیونکہ اس کتاب کا قلمی مسودہ آزاد کے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ دوسرے ایڈیشن پر آزاد کا نام شائع ہوا۔[1]

حوالہ جات ترمیم

  1. محمد حسین آزاد:حیات،شخصیت،فن از آغا سلمان باقر، طبع سنگ میل پبلیکیشنز،چوک اردو بازار لاہور ص140-141