مکالمہ (انگریزی: Dialogue یا dialog) تحریر یا گفتگو کے دوران ایسی بات چیت کو کہتے ہیں، جو دو افراد کے درمیاں ہو یا کسی ادبی تصنیف یا ڈرامے کے صورت میں اسٹیج پر پیش کیا جائے۔ بیانیہ یا فلسفانہ گفتگو کی شروعات مغربی ادب اور روایات کے مطابق سقراط کے مکالموں سے ہوئی جن کی ترویج افلاطوں نے کی، لیکن اس سے پہلے ہندوستانی ادب میں بھی مکالمہ موجود تھے۔[1]

بیسویں صدی میں میخائیل باختں، پائلو فریری، مارٹن بوبر اور ڈیوڈ بوھم جیسے دانشوروں نے مکالمہ کو فلاسافیکل صنف ماننا شروع کیا۔ مکالمہ کی مختلف خصوصیات پر بات کرتے انھوں نے مکالمہ کو مجموعی تصور کا ایسا عمل کہا، جو کثیر جہتی، متحرک اور سیاق و سباق پر مبنی ہو اور جس سے مفہوم واضع ہو۔[2] تعلیمدان فریری اور راموں فلیچا نے تعلیم کے میدان میں ایسے نظریے اور طریق کار وضع کیے، جن کی مدد سے مساواتی مکالمہ کو ایک تدریسی اوزار یا طریق کار کے طور پر استعمال کیا جائے۔[3]

اشتقاقیات

ترمیم

مکالمہ لاطینی زبان کے لفظ διάλογος سے لیا گیا، جس کا انگريزی تلفظ Dialogos ہے اور اردو مفہوم: بات چیت۔ جو دو لاطنیی الفاظ (διά انگریزی: dia مفہوم: کے ذریعے اور λόγος انگریزی logos مفہوم: بات چیت یا سبب) کا مرکب ہے۔ مکالمہ کا لفظ سب سے پہلے افلاطون نے استعال کیا۔[4]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Hajime Nakamura (1964)۔ The Ways of Thinking of Eastern Peoples۔ صفحہ: 189۔ ISBN 0824800788 
  2. Louise Phillips (2011)۔ The Promise of Dialogue: The dialogic turn in the production and communication of knowledge۔ صفحہ: 25–26۔ ISBN 9789027210296۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2018 
  3. Ramón Flecha (2000)۔ Sharing Words: Theory and Practice of Dialogic Learning۔ Lanham, MD: Rowman and Littlefield 
  4. K. Jazdzewska (1 June 2015)۔ "From Dialogos to Dialogue: The Use of the Term from Plato to the Second Century CE"۔ Greek, Roman and Byzantine Studies 54.1 (2014), p. 17-36۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 

بیرونی روابط

ترمیم
خیالات کی منتقلی
اپنے آپ سے بات کرنا، دماغی بغیر جواب دیئے اپنے آپ یا کیسی اور سے بات کرنا، زبانی دو سے زیادہ افراد کی بات چیت، زبانی
فکرہ مونولاگ مکالمہ