دربار محل
دربار محل محل نواب بہاول خان عباسی پنجم نے 1904ء کو تعمیر کروانا شروع کیا اور یہ محل 1905ء میں مکمل ہوا، یہ محل بہاول گڑھ اور مبارک محل کے نام سے بھی جانا جاتا رہا ہے جو نواب نے اپنی ایک بیگم کے نام کیا تھا، لیکن بعد میں یہ محل ریاست کی اعلیٰ عدالت اور دربار عام کے طور پر بھی استعمال ہوتا رہا ہے، نواب محمد صادق خان عباسی پنجم کے فرزند نواب عباس عباسی کے زیر استعمال بھی رہا ہے۔ یہ محل 1947ء میں نواب بہاولپور نے پاکستان کے مخدوش معاشی حالات کے تناظر میں سرکاری اور افوج پاکستان کے دفاتر کے طور پر استعمال کرنے کے لیے دیا تھا، پھر 1966ء میں یہ محل پوری طری پاک فوج کے زیر تصرف آ گیا۔ یہ محل لال اینٹوں سے بنایا گیا تھا جو لاہور کے شاہی قلعہ سے مشابہ ہے، یہ چار گنبد پر مشتمل عمارت جو راہداریوں کو صورت آپس میں ملے ہوئے ہیں، یہ لال دیواروں اور سفید کھڑکیوں کا مرکب جبکہ چھت اور گنبد بھی سفید رنگ کے ہیں ملکر ہندوستانی اور عرب فن تعمیر کا عکس بھی معلوم ہوتا ہے، اس محل کی 80 کھڑکیاں چودھویں صدی کے اسلامی روایات کی یاد تازہ کرتی ہیں۔ اس کا اندرونی منظر بھی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہیں اس کی دیواروں پر ہلکا سنہری رنگ اور عباسی خاندان کی تصاویر اس کے رعب اور کشادگی میں اضافہ کرتی ہین ساتھ میں اعلیٰ یورپی اور ریاست کے اعلیٰ کاریگروں کا بنا فرنیچر اور دبیز قالین اور میرون دروازے اس کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ یہ خوبصورت محلات کا شہر پورا ہی دیکھنے کے لائق ہے پر یہ محل سیاحوں کے لیے اگر کھول دیا جاے تو لوگوں کا تانتا بندھ جاے لیکن یہ محل سویلین کے لیے بند ہے اور اس کا اجازت نامہ بھی آسانی سے نہیں ملتا۔
دربار محل | |
---|---|
Darbar Mahal was built in 1905 | |
محل وقوع پنجاب، پاکستان میں | |
عمومی معلومات | |
معماری طرز | Indo-Sarcenic |
شہر یا قصبہ | بہاولپور |
ملک | پاکستان |
متناسقات | 29°23′50″N 71°41′59″E / 29.3972°N 71.6998°E |
تکمیل | 1905 |
تکنیکی تفصیلات | |
سائز | 44,600 مربع فٹ (4,140 میٹر2) |
نگارخانہ
ترمیم-
The building illuminated at night
-
The Darbar Mahal Mosque
-
Interior ceiling
حوالہ جات
ترمیمپیش نظر صفحہ پاکستان سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |