دوارکا پرساد چورسیا

دوارکا پرساد چورسیا ایک بھارتی موجد ہیں۔ انہوں نے ایسی سائیکل ایجاد کی ہے جس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ دوارکا اور ممبئی کی ندیوں کو عبور کر سکے۔

دوارکا پرساد چورسیا ایک بھارتی موجد ہیں۔ انھوں نے ایسی سائیکل ایجاد کی ہے جس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ دوارکا اور ممبئی کی ندیوں کو عبور کر سکے۔ یہ کامیابی انھوں نے 1980ء کے دہے میں حاصل کی تھی۔ اس وقت یہ کامیابی بھارتی اور مغربی ذرائع ابلاغ کے لیے خوش کن بھی تھا میں حیرت انگیز بھی۔ دورکا کی ایجاد کردہ سائیکل میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ طوفانوں اور بریجوں کے ٹوٹنے کے وقت مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کر سکے۔[1]

زندگی کا تعارف ترمیم

دوارکا پرساد کی پیدائش برطانوی ہند میں 1932ء کو گھوگھاٹ محلہ، الہ آباد میں ہوئی تھی۔ اب وہ مرزاپور، اتر پردیش میں آباد ہو چکے ہیں جہاں انھوں نے گذر بسر کی خاطر ایک پان کی دکان کھول رکھی ہے۔[2]

ایجاد کی ضرورت اور پہل ترمیم

1972ء میں جب وہ 40 سال کی عمر کو پہنچ چکے تھے، انھوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ تنہا کل ہند سائیکل دورے پر روانہ ہوں گے۔ جب وہ پنجاب کے جگدھاری مقام پر بارش کے موسم میں پہنچے، سڑکیں پانی سے بھری ہوئی تھی۔ وہ پھنس گئے تھے۔ یہیں سے انھیں یہ خیال آیا کہ وہ آب و زمین دونوں کے لیے یکساں طور پر کارگر سائیکل بنائیں۔ وہ گھی کے چار خالی کین لے کر آئے اور تین مہینے کی جد و جہد کے بعد اپنی مطلوبہ ضرورت کی سائیکل بنانے میں کامیاب ہوئے۔

دوارکا پرساد اپنی سائیکل کا عوامی مقامات پر مظاہرہ کرنے لگے۔ وہ جہاں جہاں پہنچے، مرجع الخلائق ثابت ہوئے۔ وہ دوارکا ندی میں پانچ کیلو میٹر پر محیط فاصلہ سائیکل پر عبور کیے۔ وہ احمد آباد گئے اور وہاں پر اپنی سائیکل کا مظاہر کنکاریہ جھیل پر کیے۔ وہ ممبئی میں جوہو سے نریمن پوائنٹ اور گیٹ وے آف انڈیا سے الیفینٹا گپھاؤں کا فاصلہ سمندری راستے سے عبور کیا۔[1]

ذیلی ایجاد - پانی پر چلنے والے جوتے ترمیم

دوارکا پرساد نے بڑے سائز کے خصوصی طور پر تیار کیے گئے جوتے استعمال کرتے ہیں جن میں تھرماکول پھرا ہوتا ہے۔ یہ جوتا ہر ایک قدم سے بندھا ہوتا ہے اور پتواریں تھرماکول سے بھری ہوتی ہیں تاکہ پانی میں آسانی سے چلا جا سکے۔[2]

انعامات و اعزازات ترمیم

دوارکا پرساد کو اپنی منفرد ایجاد کردہ آب و زمین سائیکل کے لیے 2007ء میں چوتھے نیشنل گراس روٹس انوویشن ایوارڈ (4th National Grassroots Innovation Awards) سے نوازا گیا تھا۔[2] ان کے انٹرویو بھارت کے کئی قومی اور مقامی چینلوں کے علاوہ بی بی سی کی جانب سے بھی لیے جا سکے ہیں۔[1]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم