انیسویں صدی میں تعمیر شدہ دینا ناتھ کا کنواں وزیر خان چوک، لاہور، پاکستان میں واقع ہے جو راجہ دینا ناتھ سے منسوب ہے۔

دینا ناتھ کا کنواں
Well of Dina Nath
دینا ناتھ کا کنواں
عمومی معلومات
حیثیتسلامت
قسمکنواں
مقاملاہور، پنجاب، پاکستان پاکستان کا پرچم پاکستان
متناسقات31°34′59.7″N 74°19′27.6″E / 31.583250°N 74.324333°E / 31.583250; 74.324333
تکمیلوسط انیسویں صدی
تکنیکی تفصیلات
مواداینٹ

تاریخ

ترمیم

اسے انیسویں صدی میں رنجیت سنگھ کے دور میں راجہ دینا ناتھ نے تعمیر کروایا۔ یہ ایک کھلا کنواں نہیں بلکہ اس کے ارد گرد ایک عمارت تعمیر کی گئی ہے۔ یہ کنواں مسجد وزیر خان کے باہر موجود ہے۔ یہ کنواں دینا ناتھ نے بنوایا تھا جو کے سکھ راج میں اہم عہدوں پر فائز رہے. سر لیپل گریفن نے دینا ناتھ کا "رئیسان پنجاب" میں بہت تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ سر گریفن لکھتے ہیں "سلطنت سکھاں کے پچھلے زمانہ میں جن لوگوں کو اقتدار حاصل ہوا اُن میں سب سے زیادہ مشہور آدمی راجا دینا ناتھ تھا۔ ان کی نسبت لقب "ٹیلی رینڈ" پنجاب کا خوب موزوں کیا گیا ہے...ان کی زیرکی اور دور اندیشی ایسی تھی کہ جب اور لوگوں کی نظروں میں مطلع امور مملکت صاف نظر آتا تھا ان کو علامات, طوفان آنے کی معلوم ہوجاتی تھیں... اس کو اپنے ملک سے محبت تھی مگر محبت نفس, محبت ملک کے تابع تھی. ان کو انگریزوں سے سخت قلبی نفرت اور عداوت تھی....اپنے ڈھنگ پر دینا ناتھ کو وفاداری بھی آتی تھی. راجا دینا ناتھ پکا دنیا کا آدمی تھا اور مزاج کا شائستہ اور تہذیب ان کی اچھی تھی. انگریزوں کے ساتھ گفتگو میں دلیری سے اور ظاہری صفائی سے تقریر کرتے....راجا دینا ناتھ کا خاندان ابتدا میں کشمیر سے آیا, شہاجہان کی سلطنت کے زمانے میں بعض اشحاص اس خاندان کے دربار میں ملازم تھے....دینا ناتھ کو جس کا باپ دہلی میں ایک چھوٹے عہدہ پر ملازم تھا, 1815ء میں دیوان گنگارام نے لاہور طلب کیا, یہ اس کا رشتہ دار تھا اور مہاراجا کی حکومت میں سر دفتر تھا دینا ناتھ کو بھی یہیں ملازم کیا گیا اور اسنے اپنے فہم اور کار گزار کے سبب فروغ پایا. اول رنجیت سنگھ کو اس کی طرف 1818ء بعد تسخیر ملتان کے توجہ ہوئی. 1822ء میں جب گنگارام کی وفات ہوئی تو دینا ناتھ کو مہر سپرد ہوئی اور 1834ء میں مال اور سول کا دفتر بھی اس کو مل گیا۔ 1838ء میں اس کو خطاب دیوانی ملا. رنجیت سنگھ کو دینا ناتھ کی عقل پر نہایت اعتبار تھا اور مہاراجا کی حیات کے پچھلے دنوں میں اس کو بہت اقتدار حاصل تھا ہر معاملہ عظیم میں اس سے مشورہ کیا جاتا اور اضلاع امرتسر و دنیانگر و قصور میں اس کو 9900 روپیہ کہ جاگیرات ملیں. مہاراجا کھڑک سنگھ اور نونہال سنگھ کے عہد میں دینا ناتھ اپنے منصب پر قائم رہا اور نئی جاگیریں اس کو ملیں اور مہاراجا شیر سنگھ بھی اس کے ساتھ ویسی مہربانی سے پیش آتے رہے...اور جب راجا ہیرا سنگھ کو حکومت حاصل ہوئی دیوان دینا ناتھ سے زیادہ کوئی اس کا سرگرم رفیق نہ تھا... ہیرا سنگھ کے بعد جواہر سنگھ و مہارانی جنداں کو حکومت ملی مگر دیوان ناتھ اس زمانہ میں بھی اپنے منصب پر قائم رہا...دیوان دینا ناتھ نے فوج کو انگریزوں سے لڑائی کی ترغیب دی...مہارجہ لعل سنگھ کی معزولی کے بعد اختیارات انتظام سلطنت بطور عارضی تیج سنگھ,شیر سنگھ, نور الدین و راجا دینا ناتھ کو دیے گے....نومبر 1847ء میں دیوان دینا ناتھ کو منصب جلیل راجگی کلانور مع خطاب ذیل یعنی امارت و ایالت دستگاہ خیر اندیش دولت عالیہ دیانت دار مشیر خاص مدار الہام اس وقت ان کو کلانور میں بیس ہزار روپے کی جاگیر بھی عطا ہوئی. ضبطی ملک پنجاب کے بعد راجا دینا ناتھ کی کل جاگیر جمع 46460 روپیہ کی واگذار رہے...راجا دینا ناتھ نے ایک شوالہ لاہور میں کوتوالی کے پاس بنوایا اور ایک شوالہ وزیر خان کی مسجد کے متصل بنایا تھا." دیوان دینا ناتھ کا فروری 1857ء میں لاہور میں جنگ سے ذرا پہلے انتقال ہوا. ان کی آخری رسومات بیرون موری دروازہ ادا کی گیں. دینا ناتھ کی سکھ راج کے لیے خدمات پر عبد المجید شیخ صاحب نے بھی ایک مضمون لکھا ہے۔ شیخ صاحب کے بقول لاہور میں کنجوس شحص کو لوگ " دینا ناتھ برہمن" کہتے تھے۔ شیخ صاحب نے دینا ناتھ سے منسوب ایک مقولہ بھی درج کیا ہے جو کچھ یوں ہے " طمع مدام بڑھتی رہتی ہے حتیٰ کہ طاقتور ترین شحص کو زوال آجاتا ہے۔ اس لیے لالچ کو لگام دو اور سادگی کی شانتی کے مزے اڑاؤ." دینا ناتھ کا کنواں کافی مشہور تھا۔ تانیا قریشی صاحبہ نے اپنے ایک مضمون میں اس کنویں سے متعلق ایک دلچسپ قصہ لکھا ہے۔ وہ لکھتی ہیں " دینا ناتھ, پیر سید صوف کے کنویں کے پاس ایک کنواں بنوانا چاہتا تھا۔ کیونکہ دینا ناتھ ,سید صوف کے کنویں کے مقابلے میں کنواں بنوا رہا تھا تو اس پر مقامی مسلم آبادی نے کافی احتجاج کیا. مگر دینا ناتھ نے مسلمانوں کے اعتراضات کی جانب کوئی توجہ نہ دی. مزدوروں نے کنویں کے لیے کافی کھدائی کی مگر پانی نہ نکلا اور آخرکار مزدوروں نے ہار مان لی اور یہ کنواں ہمیشہ خشک ہی رہا." اس کنویں کا ذکر نور احمد چشتی, سید لطیف, کہنیالال, ڈاکٹر عبد اللہ چغتائی و دیگر کئی مورخین نے کیا ہے, کافی جگہ اس کا تذکرہ پڑھا مگر ایسی کوئی روایت نہیں پڑھنے کو ملی. مولوی نور احمد چشتی نے اس کنویں کے متعلق لکھا ہے " مقبرہ (سید صوف)کے شمال کی طرف ایک چاہ راجا دینا ناتھ صاحب ہے۔ اس پر بھی گنبد پہاڑی دار ظاہراً ہم شکل مقبرہ ہے۔ گنبد اس چاہ کا سفید ہشت پہلو ہے۔ چاروں طرف چار در محرابی ہیں۔ گوشہ ککنی میں باہر ایک چوبچہ (ہے). تین زینہ چڑھ کے زیر کند چاہ چرخی دار ہے۔ وہاں سے صرف ہندو لوگ پانی بھرتے ہیں." سید لطیف لکھتے ہیں " (ایک) پینے کے پانی کا کنواں ہے جسے لوگوں کی کثیر تعداد استعمال کرتی ہے۔ اس عمارت کی جنوبی دیوار پر سنگ مرمر کی تختی نصب ہے جس پر مندرجہ ذیل عبارت درج ہے.

  • ترجمہ

"راجا دینا ناتھ, راجا کلانور نے صاحب بہادر میجر میکریگر صاحب ڈپٹی کمشنر ضلع لاہور کے مشورہ سے یہ کنواں 1908 سمت بمطابق 1851ء تعمیر کرایا." مفتی غلام سرور "تاریخ محزن پنجاب" میں راجا دینا ناتھ کے متعلق کہتے ہیں " ان کی سخاوت و مروت و قدربانی کا شہرہ تمام زمانہ میں ہے." ڈاکٹر عبد اللہ چغتائی نے تو اس کنویں کی تعمیر کو نامناسب کہا ہے۔ لاہور گزٹئیر 1883ء میں اس کنویں کی 1880ء کی ایک تصویر چھاپی گئی تھی. اس تصویر میں کنویں کے ارد گرد کوئی تعمیرات نظر نہیں آرہیں. تقسیم ہند کے بعد یہ کنواں کچھ عرصہ ویران رہا پھر کہا جاتا ہے یہاں دکانیں بن گئیں۔ مدثر بشیر صاحب نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے "یہ کنواں 1970ء کی دہائی تک پانی کی ترسیل کے لیے استعمال ہوتا رہا اس کے بعد یہ برسہا برس چوکیدار کی رہائش گاہ بنا رہا." دینا ناتھ کی لاہور میں اور بھی کئی عمارتیں تھیں. کہنیالال نے دینا ناتھ کی دو حویلیوں کے علاوہ اس کے بنواے ہوئے شوالے کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ نقوش "لاہور نمبر" میں بھی دینا ناتھ کے ایک وسیع باغ کا ذکر ہے۔ اب صرف دینا ناتھ کے اس کنویں کے علاوہ اس کی مسجد وزیر خان کے قریب تعمیر کردہ حویلی کے آثار ملتے ہیں۔ کنویں میں کافی عرصہ دکان رہنے کی وجہ سے اس کی عمارت کو کافی نقصان پہنچا. کنویں کی بحالی کا کام حال ہی میں مکمل ہوا ہے۔ یہاں کنویں سے متعلق ایک معلوماتی تختی بھی لگائی گئی ہے جسے دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی. آغا خان ٹرسٹ فار کلچر پاکستان اور یو ایس مشن پاکستان نے مل کر دہلی دروازے میں عمارتوں کی بحالی کا کام کیا. کام نہایت عمدہ کیا گیا ہے۔ بحالی کے وقت یہاں تجاوزات ختم کردی گئی تھیں مگر آہستہ آہستہ دوبارہ یہاں تجاوزات شروع ہو گئی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ محنت سے بحال کیے گے اس اثاثہ کو اب اسی حالت میں رکھے یعنی اس کو دوبارہ برباد ہونے سے بچانے کے لیے بھی اقدامات کرے. خیر آغا خان ٹرسٹ فار کلچر کا کام دیکھ کر دلی خوشی ہوئی مولا ان کو مزید کام کرنے کی توفیق دے اور اہلیان لاہور و لاہور کی سیر کرنے آنے والے سیاح حضرات سے گزارش ہے کہ وہ بحال کی گئی عمارتوں پر ضرور جائیں. یقیناً ان جگہوں کا حسن انھیں متاثر کرے گا اور یہ جگہیں بھی آباد رہیں گئیں. [1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. طلحہ شفیق