دیوان سید آل رسول علی خان
دیوان سید آل رسول علی خان اجمیری والی ہندوستان کے سجادہ نشین رہے ہیں۔
ولادت
ترمیمآپ کی ولادت 1893ء ضلع گڑگاؤں (ہندوستان) میں ہوئی۔ آپ خواجہ سید خورسند علی المعروف بہ ’’پیرجی‘‘ کے صاحبزادے ہیں۔
تعلیم
ترمیموالد گرامی اور مولانا عبدالمجید سے اکتساب علم کیا۔ اپنے والد سے بیعت کی اور انہی سے خرقۂ خلافت بھی عطا ہوا۔ اس کے علاوہ بسّی شریف کے میاں علی محمد خان چشتی نظامی(1881ء 1975ء) سے بھی خرقۂ خلافت پایا۔
سجادہ نشینی
ترمیم1922ء میں اجمیر شریف کے سجادہ نشین سید شرف الدین کے لاولد فوت ہو جانے پر آپ سلطان الہند خواجہ غریب نواز کے سجادہ نشین قرار پائے اور 1947ء تک حضور خواجہ غریب نواز کی درگاہ معلی کی سجادگی کے روحانی و مذہبی فرائض انجام دیتے رہے۔ علم و فضل اور روحانیات میں اپنی مثال آپ تھے۔
- تحریک پاکستان میں حصہ
- تحریک پاکستان میں آپ کی خدمات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ آپ شروع ہی سے مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کے زبردست حامی تھے۔
ہجرت
ترمیم1947ء کے بعد اگرچہ حکومت ہند نے ان پر بہت زور دیا کہ وہ بدستور خواجہ اجمیری کی درگاہ کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری انجام دیتے رہیں اور منہ مانگی مراعات دینے کی پیش کش کی لیکن انھوں نے غیر مسلم حکومت کے تحت رہنا قبول نہ کیا اورسنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں قیام پاکستان کے چند روز بعد اپنے پورے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان تشریف لے آئے یہاں انھوں نے پہلے سرگودھا میں قیام کیا اور پھر کچھ عرصہ بعد پشاور آ گئے اور یہاں چوک شادی پیر ہشت نگری میں قیام فرما ہو کر خلق خدا کی روحانی تربیت فرمانے لگے۔
سیرت
ترمیمآپ کی تمام زندگی تقوی اور پرہیز گاری سے مملو تھی چنانچہ وقت آخرعالم نزع میں بھی صاحبزادگان کو تسلی اور کلمہ حق کی تلقین کے سوا زبان مبارک پر کچھ نہ تھا اس وقت آپ کے چہرے پر سکون اس نفسِ مطمئن کو بشارتِ جنت کی علامت بن رہا تھا۔ درگاہ معلی اجمیر شریف کی سجادگی تو ایک بڑا اعزاز تھا لیکن آپ اپنے قیام اجمیر کے دوران میں اعزازی مجسٹریت اور وزیٹر سنٹرل جیل بھی رہے اعزازی مجسٹریٹ کی حیثیت سے خدمات کی انجام دہی میں یہ آپ کا معمول رہا کہ جب کوئی نادار شخص کسی قصور کی بنا پر آپ کے سامنے پیش کیا جاتا تو آپ اس پر کم از کم جرمانہ عائد فرماتے۔ بسا اوقات ان کا جرمانہ معاف بھی فرما دیتے۔ آپ کا فرمانا ہوتا کہ یہ شخص جتنی دیر اپنا روزگار چھوڑ کر یہاں موجود رہا یہ سزا بھی اس کے لیے کافی ہے۔ آپ کی خداخوفی اور غریب پروری کا یہ عالم تھا کہ آپ ان غریبوں کی اپنی جیب خاص سے اس طرح مدد فرمایا کرتے کہ اکثر غریب یہی دعا کیا کرتے کہ اللہ کرے ہمارا چالان صاحب کے سامنے پیش ہو۔ بطور سجادہ نشین آستانہ عالیہ اجمیر شریف، درگاہ معلی کی اصلاح کے لیے آپ نے ایک کمیٹی مقرر فرمائی اور 1936 ء میں ایک باقاعدہ ایکٹ کے تحت اس کمیٹی کے انتظامات چلانے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہاں بھی آپ کی بے غرضی کا یہ عالم تھا کہ باوجود اہل اجمیر کی شدید خواہش اور مطالبہ کے آپ نے اس کمیٹی کی صدارت خود قبول نہ فرمائی۔ مولانا معین الدین اجمیری اور راجا غضنفر علی خان ایڈووکیٹ نے اپنی تصانیف میں کے اس ایثار کو نمایاں طور پر بیان کیا ہے۔
وفات اور تدفین
ترمیمآپ کی وفات حسرت آیات 8/جمادی الاول 1393ھ بمطابق9/ جون 1973ء کو ہوئی اور بیری باغ بیرون یکہ توت دروازہ پشاورکے قبرستان میں امانتاً مدفون ہوئے۔
تابوت کی منتقلی اورتحصیل فتح جنگ ضلع اٹک میں تدفین : 1994ء میں آپ کا تابوت لاکر کر گلشن سلطان الہند بمقام راماں تحصیل فتح جنگ ضلع اٹک میں سپرد خاک کیا گیا۔
آپ کے بعد آپ کے بڑے صاحبزادے دیوان سید آل مجتبی علی خان سجادہ نشیں ہوئے ۔[1][2]