پشاور

خیبر پختونخواہ صوبے کا دارالحکومت

پشاور (پشتو: پېښور‎; (hnd: پشور)‏; انگریزی: Peshawar) پاکستان کا ایک قدیم شہر اور صوبہ خیبر پختونخوا کا صدر مقام ہے۔ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کا انتظامی مرکز بھی یہیں ہے۔ بڑی وادی میں بنا یہ شہر درہ خیبر کے مشرقی سرے پر واقع ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد اس کے پاس ہی ہے۔ وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا کی اہم گذرگاہوں پر واقع یہ شہر علاقے کے بڑے شہروں میں سے ایک اور ثقافتی لحاظ سے متنوع ہے۔ پشاور میں آب پاشی کے لیے دریائے کابل اور دریائے کنڑ سے نکلنے والی نہریں گذرتی ہیں۔


  • پېښور
  • پشاور
  • پشور
صوبائی دارالحکومت
عرفیت: پھولوں کا شہر
مردوں کا شہر
ایشیا کا ایمسٹرڈیم
پشاور Peshawar is located in خیبر پختونخوا
پشاور Peshawar
پشاور
Peshawar
پشاور Peshawar is located in پاکستان
پشاور Peshawar
پشاور
Peshawar
پاکستان میں مقام
متناسقات: 34°01′N 71°35′E / 34.017°N 71.583°E / 34.017; 71.583
ملک پاکستان
صوبہ خیبر پختونخوا
ضلعضلع پشاور
پاکستان کی یونین کونسلیں92
حکومت
 • قسممیٹروپولیٹن شہر
 • میئرارباب عاصم
 • نائب میئرسید قاسم علی شاہ
 • ڈپٹی کمیشنرثاقب رضا اسلم[1]
 • اسسٹنٹ کمشنر پشاورمحمد مغیث ثناء اللہ[2]
رقبہ
 • کل1,257 کلومیٹر2 (485 میل مربع)
بلندی359 میل (1,178 فٹ)
بلند ترین  مقام450 میل (1,480 فٹ)
آبادی (2017)[3]
 • کل1,970,042
 • درجہاول، خیبر پختونخوا
پاکستان میں چھٹا
 • کثافت1,600/کلومیٹر2 (4,100/میل مربع)
 پشاور شہری ہم بستگی
منطقۂ وقتپاکستان کا معیاری وقت (UTC+5)
ٹیلی فون کوڈ091
زبانیںہندکو، پشتو زبان
انسانی ترقیاتی اشاریہ0.55 (data for 2012–2013) Increase[4]
انسانی ترقیاتی اشاریہ زمرہاوسط
ویب سائٹCity District Government of Peshawar

پشاور پاکستان کے نسلی اور لسانی اعتبار سے متنوع ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ [5] اس کی شہری آبادی بڑھ رہی ہے جس کی وجوہات اردگرد کے دیہات اور خیبرپختونخوا کے دوسرے چھوٹے شہروں کی مقامی آبادی کا روزگار کے سلسلے میں بڑے شہر کو منتقلی، تعلیم اور دیگر خدمات شامل ہیں۔اس کے علاوہ آس پاس کے علاقوں میں فوجی کارروائیوں اور افغان مہاجرین کی آمد سے بھی یہاں کی آبادی بہت بڑھ گئی ہے۔ خیبر پختونخوا میں تعلیمی، سیاسی اور کاروباری اعتبار سے پشاور سب سے آگے ہے اور علاقے کے ترقی یافتہ ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ پاکستان میں طب اور تعلیم کے حوالے سے بہترین تعلیمی اداروں میں سے کئی پشاور میں قائم ہیں۔ خانہ و مردم شماری پاکستان 2017ء کے مطابق پشاور کی آبادی 1،970،042 ہے جو اسے خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا اور پاکستان کا چھٹا سب سے بڑا شہر بناتی ہے۔ [6]

ایک مفروضے کے مطابق علاقے کی ابتدائی آبادی کے وقت اس کا نام سنسکرت میں پرش پورہ (مردوں کا شہر) تھا جو بگڑ کر پشاور ہو گیا۔ [7]

دوسرے مفروضے کے مطابق یہ فارسی نام پیش شہر کا بگاڑ ہے۔ [8] اکبر کے کتابیات نگار اور مورخ نے اس کے دو نام پَرَشاوَر [9] اور پشاور [10] دونوں تحریر کیے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نام پشاور اکبر نے خود نام دیا تھا۔ [8]

دیگر نام

500 ق م میں میلٹس کے جغرافیہ دان ہیکائتس نے اس کا کسپاپوروس تحریر کیا ہے۔[11]

486 ق م میں یونانی مورخ ہیرودوت نے اس کا نام کسپاتوروس تحریر کیا ہے۔ [11]

شکاگو اورینٹلٹل انسٹی ٹیوٹ کو نقش رستم کس ملنے والے کتبے کے مطابق اس کا نام پشکبور ہے۔ [11]

ابو ریحان البیرونی نے اسے پرشاور لکھا ہے۔ [11]

پروفیسر دانی کے مطابق اس کا نام پارس پور ، کشان پور، پرشاپور، باگرام اور پارو پاراستہ بھی تھا۔ [11]

تاریخ

پشاور کو جنوبی ایشیا کے چند سب سے پرانے شہروں میں سے ایک مانا جاتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں 7 ہزار سال قبل کی تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں۔

قدیم پشاور

وسطی، جنوبی اور مغربی ایشیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہونے کی وجہ سے پشاور صدیوں سے افغانستان، جنوبی ایشیا، وسط ایشیا اور مشرق وسطی کے درمیان میں ایک مرکز کی حیثیت سے قائم چلا آیا ہے۔ قدیم تعلیمی مرکز ہونے کی وجہ سے دوسری صدی قبل مسیح میں بکھشالی طرزِ تحریر پر مشتمل ایک ریاضی کلیہ (جذر معلوم کرنا) اس کے نزدیک سے برآمد ہوئی ہے۔

وید دیومالا میں پشاور اور آس پاس کے علاقے کو "پشکلاوتی" کے نام سے جانا جاتا ہے جو "راماین" کے بادشاہ "بھارت" کے بیٹے "پشکل" کے نام سے منسوب ہے۔ تاہم اس بارے ابھی کوئی یقینی رائے موجود نہیں۔ مصدقہ تاریخ کے مطابق اس علاقے کا عمومی نام "پرش پورہ" (انسانوں کا شہر) تھا جو بگڑ کر پشاور بن گیا۔ دوسری صدی عیسوی میں مختصر عرصے کے لیے وسطی ایشیا کے توچاری قبیلے "کشان" نے پشاور پر قبضہ کر کے اسے اپنا دار الحکومت بنایا۔

اس کے بعد 170 تا 159 ق م اس علاقے پر یونانی باختر بادشاہوں نے حکمرانی کی اور اس کے بعد مملکتِ یونانی ہندکے مختلف بادشاہ یہاں قابض ہوتے رہے۔ ایک تاریخ دان کے مطابق پشاور کی آبادی 100 عیسوی میں 1،20،000 کے لگ بھگ تھی اور اس وقت آبادی کے اعتبار سے دنیا کا 7واں بڑا شہر تھا۔ بعد میں پارتھی، ہند پارتھی، ایرانی اور پھر کشان حکمرانوں نے قبضہ کیے رکھا۔

گندھارا پشاور

 
پشکلاوتی (موجودہ چارسدہ) کے نزدیک کھنڈر

کشان حکمران "کنیشکا" 127 عیسوی کے لگ بھگ بادشاہ بنا، نے اپنا دارلحکومت پشکلاوتی (موجودہ چارسدہ) سے منتقل کر کے پرش پورہ (موجودہ پشاور) قائم کیا۔ دوسری صدی عیسوی سے بدھ بھکشو، زرتشت، ہندو اور روحیت کے پشاور زرتشت مذہب کے کشان حکمرانوں سے مشاورت کر نے آتے رہے تھے۔ کشان حکمرانوں نے ان کی تعلیمات سے متائثر ہو کر بدھ مت قبول کر لیا اور بدھ مت کو شہر میں سرکاری درجہ مل گیا۔ حکمرانوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پشاور بدھ مت کی تعلیمات کا اہم مرکز بن گیا جبکہ آبادی کی اکثریت زرتشت اور روحیت کی پیروکار رہی۔

بدھ مت کے مخلص پجاری ہونے کی حیثیت سے کنشک نے اس دور کی دنیا کی بلند ترین عمارت بنوائی جو بدھ مت کا سٹوپا تھا اور جہاں بدھ مت سے متعلق مذہبی تبرکات جمع کیے گئے تھے۔ یہ سٹوپا پرانے پشاور کے گنج دروازے کے ساتھ باہر بنا ہوا تھا۔ اس سٹوپا کے بارے قدیم ترین روایت چینی سیاح اور بھکشو فاہیان کی تحریر سے ملتی ہے جو یہاں 400 عیسوی میں آیا تھا۔ اس کے مطابق سٹوپا کی بلندی 40 چانگ سے زیادہ یعنی اندازہً 120 میٹر تھی اور اس پر ہر طرح کے قیمتی پتھر جڑے ہوئے تھے۔ فاہیان کے مطابق اس نے آج تک جتنے مندر اور سٹوپا دیکھے تھے، کنشک سٹوپا ان سے کہیں زیادہ خوبصورت اور مضبوط تر تھا۔ آسمانی بجلی گرنے سے سٹوپا تباہ ہوا اور کئی بار اس کی مرمت کی گئی۔ ہیون سانگ کی 634 عیسوی میں آمد تک سٹوپا کا ذکر ملتا ہے۔ بدھا سے منسوب تبرکات جو ایک جواہرات جڑی ٹوکری میں رکھے تھے، کو 1909ء میں سٹوپا کے عین وسط میں ایک زیر زمین کمرے سے کھدائی کر کے ڈاکٹر ڈی بی سپونر نے نکالا۔

مسلم حملہ آور

خراسان پر عرب قبضے کے بعد پشتون اسلام لانے لگے۔ 1001 عیسوی میں ترک بادشاہ محمود غزنوی نے اپنی غزنوی سلطنت کو افغانستان سے آگے برصغیر تک پھیلایا۔ 997ء میں سبگتگین کی وفات کے بعد خراساں کا گورنر ان کا بیٹا محمود بنا جس نے بعد ازاں دولت سامانیہ سے علیحدگی اختیار کر کے اپنی سلطنت قائم کی اور 999 عیسوی میں سلطان کا لقب اختیار کیا۔

ابتدائی دور میں پشاور کے علاقے میں کئی خونریز جنگیں ہوئیں جن کا آغاز محمود اور ہندو بادشاہ جے پال کے درمیان میں جنگ سے ہوا۔ جے پال کی مستقل خواہش تھی کہ سبگتگین کے ہاتھوں چھینی گئی سلطنت کو واپس لیا جائے۔ جے پال کی مدد کے لیے کچھ پٹھان تو تھے لیکن ان کی حمایت زیادہ دیر تک نہ چل سکی۔

نومبر 1001ء میں جے پال کی شروع کی ہوئی جنگ میں اسے شکست ہوئی اور اس سمیت اس کی فوج قیدی بنی۔ آزاد ہونے پر اس نے اپنے بیٹے آنند پال کو بادشاہ بنایا۔ محمود نے پٹھانوں کو سزا دی اور مسلمان ہونے کے بعد وہ محمود کے ساتھ وفادار ہو گئے۔

پشتون، مغل اور مرہٹہ قبضے

 
مغلیہ دور کی سنہری مسجد
 
درانی دور کا قلعہ بالا حصار

افغان (پشتون) شہنشاہ شیر شاہ سوری نے پشاور کی تعمیر نو کو تیزی دی اور اس نے اپنی دہلی سے کابل کی شاہراہ درہ خیبر کے راستے سولہویں صدی میں بنوائی اور بعد میں مغلوں نے پشاور پرقبضہ کر لیا۔ مغل بادشاہت کا بانی بابر جب موجودہ دور کے ازبکستان سے پشاور پہنچا اور بگرام کا شہر آباد کرایا اور 1530ء میں قلعہ دوبارہ بنوایا۔ بابر کے پوتے اکبر نے اس کا نام بدل کر پشاوا کر دیا جس کا مطلب ہے "سرحد پر واقع جگہ"۔ دنیا بھر سے مسلمان صوفیا، مشائخ، استاد، معمار، سائنس دان، تاجر، سپاہی، افسرِ شاہی، ٹیکنو کریٹ وغیرہ غول در غول جنوبی ایشیا کی اسلامی سلطنت کو آن پہنچے۔ مغربی ایران کی طرح یہاں بھی شجر کاری اور باغات اگانے سے پشاور شہر "پھولوں کا شہر" بن گیا۔

خوشحال خان خٹک جو مشہور افغان/پشتون شاعر تھے، پشاور کے نزدیک پیدا ہوئے اور ان کی زندگی پشاور سے وابستہ رہی۔ افغان آزادی کی حمایت کرنے کی وجہ سے یہ مغل بادشاہوں بالخصوص اورنگزیب کے لیے مستقل سر درد بنے رہے۔ اٹھارویں صدی میں ناصر شاہ کے دورِ حکومت میں مغل سلطنت کے زوال کے بعد پشاور پر ایران نے قبضہ کر لیا۔

1747ء میں لوئیہ جرگہ نے پشاور کو افغان درانی سلطنت کا حصہ بنا دیا جس پر اس وقت احمد شاہ درانی کی حکومت تھی۔ 1776ء میں احمد شاہ کے بیٹے تیمور شاہ درانی نے پشاور کو اپنا سرمائی دارلحکومت بنایا اور بالا حصار کا قلعہ افغان بادشاہوں کی قیام گاہ بن گیا۔ درانی دورِ حکومت میں پشتونوں نے جنوبی ایشیا پر حملوں میں حصہ لیا۔ انیسویں صدی کے آغاز پر سکھوں کے قبضے تک پشاور درانیوں کے سرمائی دار الحکومت کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔

پشاور پر مختصر عرصے کے لیے مرہٹوں کا قبضہ بھی رہا جو ہندوستان کی سلطنت پر قابض تھے۔ انھوں نے 8 مئی 1758ء کو قبضہ کیا۔ بعد میں افغان درانیوں کے بڑے لشکر نے 1759ء میں پشاور پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔

سکھ حکمرانی

1802ء میں پشاور پر دوباره افغانستان کا قبضہ ہوا اس وقت کشمیر، سندھ، ملتان اور بلوچستان بھی افغانستان کے حدود میں شامل تھی۔ لیکن 1833ء میں سکھوں نے حملہ کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ برطانوی مہم جو اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے سابقہ ایجنٹ ولیم مور کرافٹ کی سربراہی میں ایک مہم پہنچی تو اسے کابل کی حکومت اور لاہور کے سکھ حکمرانوں سے تحفظ کے ایک ذریعے کے طور پر دیکھا گیا۔ مور کرافٹ کو پشاور کی گورنر کا عہدہ بھی پیش کیا گیا اور علاقے کی ایسٹ انڈیا کمپنی سے وفاداری پیش کی گئی جسے اس نے رد کر کے اپنا سفر پشاوری فوجیوں کے ساتھ ہندوکش کا سفر جاری رکھا اور کابل جا پہنچا۔ 1818ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پشاور پر قبضہ کر کے یہاں کا دورہ کیا اور 1834ء میں اسے سکھ ریاست میں شامل کر لیا اس کے بعد شہر کا زوال شروع ہو گیا۔ مغل دور کے بہت مشہور سارے باغات تباہ کر دیے گئے۔ سکھوں کے نمائندے کے طور پر اطالوی باشندے پاولو آویتابائل نے حکمرانی کی اور اس کے دور کو پھانسیوں اور سولیوں کا دور کہا جاتا ہے۔ پشاور کی مشہور مسجد مہابت خان جو 1630ء میں بنائی گئی تھی، کو سکھوں کے دور میں تباہ کر دیا گیا۔

سکھ مت کو قائم رکھنے کے لیے ہری سنگھ نلوہ نے گوردوارہ بھائی جوگا سنگھ اور گوردوارہ بھائی بیبا سنگھ بنوائے۔ اگرچہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد پشاور سے سکھوں کی آبادی انتہائی کم ہو گئی ہے لیکن پھر بھی افغانستان اور قبائلی علاقوں سے پناہ کی تلاش میں آنے والے 4000 سکھوں کی وجہ سے آبادی پھر کسی حد تک بڑھ گئی ہے۔ 2008ء میں پاکستان میں سکھوں کی سب سے بڑی تعداد پشاور میں ہی آباد تھی۔ پشاور کے سکھ خود کو پشتون کہلاتے اور بطور مادری زبان ہندکو بولتے ہیں۔

1835ء میں دوست محمد خان کو شہر پر قبضے میں اس وقت ناکامی ہوئی جب اس کی فوج نے دل خالصہ کا مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا۔ دوست محمد خان کا بیٹا محمد اکبر خان 1837ء کی جمرود کی جنگ میں پشاور پر قبضے میں تقریباً کامیاب ہو گیا تھا لیکن پھر اسے ناکامی ہوئی۔ سکھوں کی حکمرانی 1849ء میں اس وقت ختم ہوئی جب مہاراجا رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے سکھوں کے ساتھ دوسری جنگ جیت لی۔

پشاور پر برطانوی راج

 
برطانوی دور میں قائم اسلامیہ کالج

1849ء میں سکھوں کے ساتھ دوسری جنگ کے بعد پشاور انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 1857ء کی سپاہیوں کی بغاوت کے بعد مقامی فوجیوں کے 4000 افراد کو بغیر خون بہائے غیر مسلح کر دیا گیا۔ اس طرح 1857ء کی بغاوت کے بعد پورے ہندوستان میں ہونے والے خون خرابے سے پشاور بچ نکلا۔ مقامی سرداروں نے برطانوی راج کا ساتھ دیا۔ شہر کے باہر کے پہاڑوں کے نقشے 1893ء میں سر مورٹیمر ڈیورنڈ نے بنائے جو اس وقت برٹش انڈیا حکومت کا خارجہ سیکریٹری تھا۔ اس نے افغان حکمران عبدالرحمان خان کے ساتھ مل کر افغان سرحد کا نقشہ بنایا۔

1868ء میں شہر کے مغرب میں برطانیہ نے ایک بڑی چھاؤنی قائم کی اور پشاور کو اپنا سرحدی مرکزی مقام بنا دیا۔ مزید برآں پشاور میں انھوں نے کئی ترقیاتی منصوبے شروع کیے جن میں شہر کو بذریعہ ریل ملک کے دیگر حصوں سے ملانے اور مسجد مہابت خان کی تعمیر و تزئین شامل ہے۔ برطانیوں نے کننگہیم کلاک ٹاور بھی بنایا جو ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کی تقریباًت کے سلسلے میں بنایا گیا تھا۔ 1906ء میں ملکہ وکٹوریہ کی یاد میں وکٹوریہ ہال بنایا جہاں اب پشاور کا عجائب گھر قائم ہے۔ مغربی تعلیم دینے کے لیے برطانیہ نے ایڈورڈز کالج اور اسلامیہ کالج 1901ء اور 1913ء میں بالترتیب بنائے اور بہت سارے اسکولز بھی بنائے جن کو اینجلیکن چرچ چلاتا ہے۔

پشاور پشتون اور ہندکو مشاہرین کے مرکز کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ ہندکو بولنے والے افراد برطانوی راج میں یہاں کی ثقافت پر غالب اثر رکھتے تھے۔

پشاور میں ہی غفار خان کی چلائی ہوئی عدم تشدد کی تحریک سامنے آئی جو موہن داس گاندھی سے متائثر تھی۔ اپریل 1930ء میں مقامی افراد کے بڑے گروہ نے قصہ خوانی بازار میں پرامن مظاہرہ کیا کہ ان کے خلاف برطانیہ نے امتیازی قوانین بنائے ہیں۔ برطانوی افواج کی فائرنگ سے 400 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس واقعے اور ان 400 شہیدوں کی یاد میں ایک یادگار بھی یہاں موجود ہے جسے یادگار شہیداں کے نام سے جانا جاتا ہے۔

جدید پشاور

 
یونیورسٹی روڈ، پشاور

1947ء میں پشاور ڈومنین پاکستان کا حصہ بن گیا کہ مقامی سیاست دانوں نے پاکستان میں شمولیت کی منظوری دی۔ اگرچہ اکثریت اس الحاق کے حق میں تھی لیکن خان عبدالغفار خان کی قیادت میں ایک چھوٹے گروہ کا خیال تھا کہ جنوبی ایشیا میں ایک کنفیڈریشن بہتر ہوتی اور انھوں نے متحدہ ہندوستان کو بہتر سمجھا۔ تاہم عوام کی بھاری اکثریت متحدہ ہندوستان اور خود کو ہندوستانی کہلوانے کے سخت مخالف تھے۔ انتہائی قلیل تعداد پشاور کو افغانستان میں شامل دیکھنا چاہتی تھی۔ یہی خیال بعد ازاں پشتونستان کی بنیاد بنا جو پاکستان اور افغانستان، دونوں سے آزاد ریاست ہوتی۔

نئے پاکستان کی کمزوری کا فائدہ اٹھانے کی نیت سے افغانستان نے دو رخہ حکمت عملی تیار کی تاکہ شمال مغربی سرحدی صوبے کو عدم استحکام کا شکار بنا سکے۔ ایک طرف تو اس نے پاکستان کے مخالف بھارت سے دوستی کی تو دوسری طرف روس کے ساتھ بھی دوستی شروع کر دی جو بالآخر افغانستان پر روسی حملے پر منتج ہوئی۔ دوسری طرف اس نے 1960ء کی دہائی میں اپنی مرضی کے سیاست دانوں کو معاشی امداد مہیا کی۔ 1960ء کی دہائی سے 1970ء کی دہائی تک اس حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان پر بہت زیادہ دباؤ رہا تاہم بعد میں عوام کی اکثریت نے پاکستان کو قبول کر لیا، تاہم پنجابی طبقہ اشرافیہ کے خلاف ان کی ناپسندیدگی بڑھتی رہی۔ پشتونوں کو پاکستان میں شامل ہونے کے بعد پاکستانی سیاست اور قومی افسرِ شاہی میں بھی آنے کا موقع ملا جس کے نتیجے میں ایوب خان جو ایک پشتون تھے، پاکستان کے صدر بن گئے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے بھی پاکستان کا حصہ بننے کو قبول کر لیا اور ایک انتہائی چھوٹی اور غیر اہم سیاسی جماعت پختونخوا ملت پارٹی نے پاکستان اور افغانستان سے علیحدگی کی باتیں جاری رکھیں۔ اگرچہ علیحدگی کی تحریک بہت کمزور تھی لیکن پاک افغان تعلقات میں اس کی وجہ سے مستقل دراڑ پڑ گئی۔ آج پشاور کے پشتون خود کو فخریہ پاکستان کے رکھوالے اور پاکستانی کہلاتے ہیں۔

1950ء کی دہائی کے وسط تک پشاور دیواروں کے بیچ گھرا شہر تھا جس کے 16 دروازے تھے۔ ان میں کابلی دروازہ سب سے زیادہ مشہور تھا۔ جنوری 2012ء میں اس وقت کے ڈی سی او سراج احمد نے اعلان کیا کہ "وقت کے ساتھ ساتھ شہر کے تمام پرانے دروازے پرانی حالت میں بحال کر دیے جائیں گے"۔

شہری آبادی کے تناسب سے شہر کا حجم نہیں بڑھا اور اسی وجہ سے آلودگی اور آبادی کی گنجانی کی وجہ سے شہر پر برے اثرات ہور ہے ہیں۔ آبادی کے علاوہ بہت بڑی تعداد میں افغان گاڑیاں بھی شہر سے گذرتی ہیں جس سے شہر کی فضا مزید آلودہ ہو رہی ہے۔

گاڑیوں کے دھوئیں سے کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، دھواں، مٹی اور ٹیٹرا ایتھائل لیڈ پھیلتا ہے۔ ایندھن میں ملاوٹ اور غیر معیاری مرمت شدہ گاڑیوں کی وجہ سے مزید آلودگی بڑھ رہی ہے۔ بری حالت میں موجود سڑکوں اور سڑک کے کچے کناروں پر چلنے والی گاڑیوں سے بہت دھول اڑتی ہے۔ افغان سرحد پر ہونے کی وجہ سے پشاور میں بہت بڑی تعداد میں افغان ٹریفک بھی آتی ہے۔

1980ء میں افغان جنگ کی وجہ سے پشاور سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے تربیت یافتہ مجاہدین گروپوں کے سیاسی مرکز اور افغان مہاجر کیمپوں کا مرکز رہا۔ اکثر روسی جاسوس ان گروہوں میں گھس کر تشدد کو ہوا دیتے رہے اور روسی اور امریکی ایجنٹوں کے درمیان میدانِ جنگ پشاور میں بن گیا۔

1988ء کے انتخابات کے دوران میں تقریباً ایک لاکھ افغان مہاجرین یہاں آباد تھے اور غیر رجسٹر شدہ مہاجرین کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ بہت سارے نسلی پشتون افغان آسانی سے پشاور میں مقامی آبادی میں گھل مل گئے ہیں اور ابھی تک پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔

2012ء میں پشاور افغانستان اور وسطی ایشیا کے درمیان میں رابطے کا ذریعہ ہے۔ پشاور پاکستان کے اندر اہم شہر کی حیثیت رکھتا ہے اور پشتون ثقافت اور گندھارا آرٹ کا مرکز ہے۔ طالبان شدت پسندوں کا نشانہ ہونے کی وجہ سے یہاں پشتون تعمیرات کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ حتیٰ کہ پشتون شاعر رحمان بابا کے مزار کو 2009ء میں بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔

جغرافیہ

 
صوبہ خیبر پختونخوا میں ضلع پشاور کا محل وقوع

خیبر پختونخوا کی طرح درہ خیبر کے مشرقی سرے پر واقع پشاور سطح مرتفع ایران کا حصہ ہے۔

حالیہ جغرافیائی دوروں میں وادئ پشاور میں سلٹ، ریت اور پتھر جمع ہوتے رہے ہیں۔ دریائے کابل اور بدنی نالا کے درمیان میں سیلابی میدان ہیں جو شمال مغرب میں وارسک تک جاتے ہیں۔ پشاور کے میدان میں داخل ہوتے ہوئے دریائے کابل کئی شاخوں میں تقسیم ہو جاتا ہے جن میں دو زیادہ بڑی ہیں۔ مشرق کو جانے والی شاخ ادیزئی دریا کہلاتی ہے جو چارسدہ کو جاتی ہے اور شاہ عالم شاخ آگے جا کر دریائے نگومن میں مل جاتی ہے۔

موسم

پشاور کا موسم نیم بنجر ہے اور گرمیاں بہت سخت جبکہ سردیاں نسبتاً سرد ہوتی ہیں۔ سردیوں کا موسم نومبر سے شروع ہو کر مارچ کے اواخر تک اور کبھی کبھار اپریل کے وسط تک چلا جاتا ہے۔ گرمیاں وسط مئی سے وسط ستمبر تک جاتی ہیں۔ گرمیوں میں گرم ترین مہینوں کا اوسط درجہ حرارت 40 ڈگری سے اوپر چلا جاتا ہے اور کم سے کم اوسط 25 ڈگری ہے۔ سردیوں کا اوسط کم سے کم درجہ حرارت 2 ڈگری اور زیادہ سے زیادہ 15.35 ڈگری رہتا ہے۔ سردیوں میں اکثر یہاں درجہ حرارت 0 ڈگری کے قریب چلا جاتا ہے مگر 7 جنوری 1970 کے دن پشاور میں آج تک کی سب سے زیادہ سردی ریکارڈ کی گئی اور درجہ حرارت منفی 3.9 ڈگری تک چلا گیا۔

پشاور مون سون علاقے میں نہیں آتا تاہم بارش سردیوں اور گرمیوں میں بھی ہوتی رہتی ہے۔ مغربی اثرات کی وجہ سے فروری اور اپریل میں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں۔ سردیوں کی سب سے زیادہ بارش کی مقدار فروری 2007ء میں ریکارڈ کی گئی جو 236 ملی میٹر تھی۔ گرمیوں کی سب سے زیادہ بارش جولائی 2010ء میں 402 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی۔ اسی دوران میں 29 جولائی 2010ء کو چوبیس گھنٹے میں بارش کا نیا ریکارڈ قائم ہوا جو 274 ملی میٹر تھا۔ سردیوں میں ہونے والی بارش گرمیوں کی نسبت زیادہ رہتی ہے۔ 30 سال کے ریکارڈ کے مطابق سالانہ بارش کی اوسط مقدار 400 ملی میٹر ہے اور سب سے زیادہ ایک سال میں 904.5 ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی ہے جو 2003ء میں ہوئی تھی۔ ہوا کی رفتار دسمبر میں 5 ناٹ جبکہ جون میں 24 ناٹ تک ریکارڈ ہوئی ہے۔ جون میں ہوا میں اوسط نمی کا تناسب جون میں 46 فیصد جبکہ اگست میں 76 فیصد ہے۔ 18 جون 1995ء کو سب سے زیادہ 50 ڈگری جبکہ کم سے کم درجہ حرارت 7 جنوری 1970ء میں منفی 3.9 ڈگری ریکارڈ کیا گیا ہے۔

آب ہوا معلومات برائے پشاور (1961–1990)
مہینا جنوری فروری مارچ اپریل مئی جون جولائی اگست ستمبر اکتوبر نومبر دسمبر سال
بلند ترین °س (°ف) 27.0
(80.6)
30.0
(86)
36.0
(96.8)
42.2
(108)
45.2
(113.4)
48.0
(118.4)
46.6
(115.9)
46.0
(114.8)
42.0
(107.6)
38.5
(101.3)
35.0
(95)
29.0
(84.2)
48
(118.4)
اوسط بلند °س (°ف) 18.3
(64.9)
19.5
(67.1)
23.7
(74.7)
30.0
(86)
35.9
(96.6)
40.4
(104.7)
37.7
(99.9)
35.7
(96.3)
35.0
(95)
31.2
(88.2)
25.6
(78.1)
20.1
(68.2)
29.4
(84.9)
یومیہ اوسط °س (°ف) 11.2
(52.2)
12.9
(55.2)
17.4
(63.3)
23.2
(73.8)
28.6
(83.5)
33.1
(91.6)
32.2
(90)
30.7
(87.3)
28.9
(84)
23.7
(74.7)
17.6
(63.7)
12.5
(54.5)
22.7
(72.9)
اوسط کم °س (°ف) 4.0
(39.2)
6.3
(43.3)
11.2
(52.2)
16.4
(61.5)
21.3
(70.3)
25.7
(78.3)
26.6
(79.9)
25.7
(78.3)
22.7
(72.9)
16.1
(61)
7.6
(45.7)
4.9
(40.8)
15.9
(60.6)
ریکارڈ کم °س (°ف) −3.9
(25)
−1.0
(30.2)
1.7
(35.1)
6.7
(44.1)
11.7
(53.1)
13.3
(55.9)
18.0
(64.4)
19.4
(66.9)
12.0
(53.6)
8.3
(46.9)
1.1
(34)
−1.3
(29.7)
−3.9
(25)
اوسط عمل ترسیب مم (انچ) 26.0
(1.024)
42.7
(1.681)
78.4
(3.087)
48.9
(1.925)
27.0
(1.063)
7.7
(0.303)
42.3
(1.665)
67.7
(2.665)
17.9
(0.705)
9.7
(0.382)
12.3
(0.484)
23.3
(0.917)
403.9
(15.901)
ماہانہ اوسط دھوپ ساعات 195.5 189.5 194.5 231.3 297.1 299.5 273.8 263.2 257.3 266.1 234.8 184.4 2,887
ماخذ#1: NOAA (1961–1990) [12]
ماخذ #2: PMD[13]

آبادیات

آبادی

پشاور کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور 1998ء میں آبادی 982,816 تھی۔ آبادی میں اضافے کی شرح 3.29 فیصد ہے جو پاکستان کے دیگر شہروں کی اوسط سے زیادہ ہے۔ خانہ و مردم شماری پاکستان 2017ء کے مطابق پشاور شہر کی آبادی 1,970,042 نفوس پر مشتمل ہے۔ [14]

  • شہری آبادی: 51.32 فیصد ہے
  • دیہاتی آبادی: 48.68 فیصد
  • مرد اور عورت کا تناسب: 1.1:1

نسلی اور لسانی

2002ء میں آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح کی وجہ سے آبادی 20 سال میں دو گنا ہو گئی ہے۔ ضلع پشاورشمالاً جنوباً 50 کلومیٹر جبکہ شرقاً غرباً 30 کلومیٹر ہے۔ شہر سطح سمندر سے 359 میٹر بلند ہے۔ وادئ پشاور تقریباً گول ہے اور دریائے سندھ سے خیبر کی پہاڑیوں تک پھیلی ہے۔ اس کے شمال اور شمال مشرق میں پہاڑی سلسلہ ہے جو پشاور کو وادئ سوات سے الگ کرتا ہے۔ شمال مغرب میں خیبر کے سنگلاخ پہاڑ واقع ہیں اور جنوب میں سفید کوہ کی شاخ شروع ہو جاتی ہے اور یہی شاخ پشاور کو کوہاٹ سے جدا کرتی ہے۔ کوہ لقا کی بلندی 6600 فٹ ہے اور خیبر ایجنسی میں واقع ہے جو شہر کے وسط سے 25 کلومیٹر جبکہ حیات آباد سے 15 کلومیٹر دور ہے۔

مذہب

 
مسجد مہابت خان

پشاور کی آبادی کا 98.5 فیصد سے زیادہ حصہ مسلمان ہے جن کی اکثریت سنی ہے۔ شیعہ بھی اہم اقلیت ہیں۔ [15] موجودہ دو رکا پشاور اگرچہ مسلمان اکثریت پر مشتمل ہے تاہم ماضی میں یہاں ہندو، سکھ، یہودی، زرتشت اور بہائی مذہب کے لوگ بھی یہاں آباد تھے۔ موجودہ دور میں سکھوں کی آبادی کے علاوہ یہاں ہندو اور مسیحی بھی آباد ہیں۔

مسیحی شہر کا دوسرا بڑا نسلی گروہ ہیں جس کے پیروکار تقریباً 20,000 کی تعداد میں ہیں، جبکہ احمدیہ برادری کے 7,000 افراد بھی پشاور میں مقیم ہیں۔ [15]

ہندوستان کی تقسیم کے بعد پشاور سے سکھوں کی آبادی انتہائی کم ہو گئی ہے لیکن پھر بھی افغانستان اور قبائلی علاقوں سے پناہ کی تلاش میں آنے والے 4000 سکھوں کی وجہ سے آبادی پھر کسی حد تک بڑھ گئی۔ [16] 2008ء میں پاکستان میں سکھوں کی سب سے بڑی تعداد پشاور میں ہی آباد تھی۔ پشاور کے سکھ خود کو پشتون کہلاتے اور بطور مادری زبان ہندکو بولتے ہیں۔ [17][18]

1940ء کی دہائی کے اواخر تک یہاں ایک چھوٹی مگر فروغ پزیر یہودی برادری بھی موجود تھی، تاہم تقسیم ہند اور ریاست اسرائیل کے قیام کے بعد وہ بھارت اور اسرائیل منتقل ہو گئے۔ [19]

افغان مہاجرین

پشاور 1978ء میں افغان خانہ جنگی کے دور سے ہی افغان مہاجرین کا میزبان رہا ہے، تاہم 1979ء میں افغانستان پر سوویت حملے کے بعد اس میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ 1980ء تک 100،000 پناہ گزینوں فی ماہ صوبہ داخل ہو رہے تھے [20] جن میں سے 25 فیصد پناہ گزینوں ضلع پشاور مقیم ہوئے۔ [20]

افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کے پشاور میں مقیم ہونے کی وجہ سے شہر کے بنیادی ڈھانچے پر زور پڑا، [21] اور شہر کی آبادیات میں بہت تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ [21] 1988ء کے قومی انتخابات کے دوران میں پشاور میں ووٹ ڈالنے کے لیے تقریباً 100،000 افغان مہاجرین غیر قانونی طور پر مندرج تھے۔ [22]

افغان پناہ گزینوں پر اکثر انتہاپسند اسلامی گروہوں کے خلاف پاکستان کی جنگ کے دوران میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگتا رہا۔ [23] 2015ء میں پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کو وطن واپس بھیجنے کے لیے ایک پالیسی منظور کی، جن میں کئی ایسے لوگ بھی شامل تھے جنھوں نے اپنی پوری زندگی پاکستان میں گزاری تھی۔[23] افغانستان کی حکومت نے بھی وطن واپسی کی پالیسی کی حوصلہ افزائی کی، تاہم بہت سے مہاجرین نے پاکستان میں خود کو مندرج نہیں کروایا تھا۔ غیر مندرج افغان مہاجرین جن کے پاس رانی افغان شناختی دستاویزات بھی نہیں تھیں ان کی اب افغانستان میں کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہے۔ [24]

سیاست

قومی اسمبلی پاکستان

 
مجلس شوریٰ پاکستان

قومی اسمبلی پاکستان کی پارلیمان کا ایوان زیریں ہے۔ جس کی صدارت اسپیکر کرتا ہے جو صدر اور ایوان بالا سینیٹ کے چیئرمین کی عدم موجودگی میں ملک کے صدر کی حیثیت سے ذمہ داریاں انجام دیتا ہے۔ عام انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کا سربراہ عموماً وزیر اعظم منتخب ہوتا ہے جو قائد ایوان بھی ہوتا ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق قومی اسمبلی 342 نشستوں پر مشتمل ہے۔ پشاور سے قومی اسمبلی کی چار نشستیں ہیں جس کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔

  1. حلقہ این اے۔1
  2. حلقہ این اے۔2
  3. حلقہ این اے۔3
  4. حلقہ این اے۔4

حکومت خیبر پختونخوا

حکومت خیبر پختونخوا حکومت پاکستان کی ایک اکائی جس کی عملداری صوبہ خیبر پختونخوا میں محدود ہے۔ اس کے سرکاری دفاتر پشاور میں واقع ہیں جو صوبہ خیبر پختونخوا کا صدر مقام بھی ہے۔ [25]

عہدے دار

خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی

فائل:KPK Assembly 23.jpg
خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی

صوبہ خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی پاکستان میں خیبر پختونخوا کا قانون ساز ایوان ہے۔ یہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 106 کے تحت قائم کی گئی۔ اس ایوان کی 124 نشستیں ہیں جن میں سے 99 پر براہ راست انتخابات منعقد ہوتے ہیں جبکہ 22 نشستیں خواتین اور 3 نشستیں غیر مسلم اقلیتوں کے لیے مخصوص ہیں۔[28]

ضلع پشاور سے پنجاب صوبائی اسمبلی کے لیے گیارہ حلقے ہیں جن کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔ [29]

انتظامی تقسیم

پشاور ڈویژن

پشاور ڈویژن پاکستان کی انتظامی تقسیم میں خیبر پختونخوا کا ایک جز ہے۔ گو کہ مقامی حکومتوں کے 2000ء میں آئی اصلاحات میں اس کی حیثیت ختم کر دی گئی ہے۔ 1947ء میں آزادی کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا کو دو ڈویژن میں تقسیم کر دیا گیا تھا، یہ دو ڈویژن ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن اور پشاور ڈویژن تھے۔ 1976ء تک پشاور ڈویژن میں ہزارہ اور کوہاٹ کے اضلاع بھی شامل تھے جو بعد میں ڈویژن قرار دے دیے گئے۔

انتظامیہ

پشاور ڈویژن کے تین اضلاع مندرجہ ذیل ہیں۔ [30]

ضلع پشاور

ضلع پشاور پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ضلع ہے۔ اس کا مرکزی شہر پشاور ہے جو خیبر پختونخوا کا دار الحکومت ہے۔ 2017ء کے میں کی آبادی کا تخمینہ 4,269,079 ہے۔ [31] ضلع پشاور میں عمومی طور پر پشتو، ہندکو اور اردو وغیرہ بولی جاتی ہیں۔ اس کا رقبہ 1,257 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کی کثافتِ آبادی 3,400 افراد فی مربع کلو میڑ ہے۔

ثقافت

 
مسجد مہابت خان کا اندرونی منظر

پشاور کو صوبہ خیبر پختونخوا کے ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کی ثقافت طویل عرصے تک گندھارا ثقافت، پختون ثقافت اور ہندکو ثقافت سے متائثر ہوتی آئی ہے۔ پشاور جس صوبے میں ہے، اس کی اکثریت آبادی پختون ہے جبکہ پشاور میں 1980ء کی دہائی کے اوائل تک آبادی کی اکثریت ہندکو تھی جو یہاں کے مقامی ہیں۔ پختون اور ہندکو ثقافتوں میں کافی چیزیں مماثل ہیں اور جغرافیائی اعتبار سے کچھ اختلافات بھی ہیں۔ ہندکو افراد زیادہ تر شہری جبکہ پختون افراد کی اکثریت دیہاتی پس منظر رکھتی ہے۔ اسی طرح شادی بیاہ اور رہن سہن میں بھی واضح فرق دیکھا جا سکتا ہے۔

پشاوری چپل

فائل:Peshawarichappal.jpg
ایک روایتی پشاوری چپل

پشاوری چپل ایک قسم کی چپل ہے جو زیادہ تر پاکستان کے شمال مغربی اور وسطی علاقوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ یہ چپل شلوار قمیض کے ساتھ استعمال کی جاتی ہے۔ شروع میں یہ چپل چمڑے کی مددسے صرف کالے اور براؤن رنگ میں تیارکی جاتی تھی، اب یہ کئی دوسرے رنگوں میں بھی تیار کی جاتی ہے، لوگ چپل سازوں سے اپنے پسندیدہ رنگ کی پشاوری چپل بنواتے ہیں۔

مختلف مذہبی تہواروں اور تقریبات میں بھی پشاوری چپل پہنی جاتی ہے۔ ہر تہوار اور تقریب میں اسے کافی مقبول سمجھا جاتا ہے۔ ان ڈیزائنز میں ڈبل تلوے والی پشاوری چپل تیار کی جاتی ہے۔ مختلف تہواروں کے موقع پر نئے پشاوری چپل پہنا روایت کا حصہ رہتا ہے تاہم عیدین میں اسی خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ پشاوری چپل پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی تیزی سے مقبول ہو چکی ہے [32] خاص کر نوجوانوں میں اسے جینز کے ساتھ پہننے کا رجحان بن گیا ہے۔ [33]

2014ء میں پشاوری چپل عالمی سطح پر فیشن کی ایک علامت بنی۔ برطانوی فیشن ڈیزائنر پاول سمتھ نے پشاوری چپل کی نقل کر کے چپل بنائے اور 300 پاؤنڈز (50 ہزار پاکستانی روپیہ) پر ایک جوڑہ فروخت کیا، پاول سمتھ نے لوگوں کے سامنے اسے اس انداز میں پیش کیا کہ یہ ڈیزائن اسی نے تیار کیا ہے، اس پر ایک تعداد میں لوگوں نے مختلف جگہوں پر اس کے خلاف شکایت کی کہ پاکستانی ڈیزائنرز کی محنت کو ضائع کراکر سمتھ نے فنکاروں کے اس محنت پر اپنا نام لگایا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ لوگوں نے برطانوی برینڈز مالکان اور برطانوی حکومت سے بھی مطالبہ کیا کہ یہ چپل پاکستان کی ثقافت کا اہم جز ہے، ان کو اپنے اصلی نام سے ہی پکارا جائے اور جو لوگ فنکاروں کے محنت کو ضائع کر رہے ہیں ان کے خلاف قانونی کاراجوئی کی جائے۔ اس احتجاج کے بعد پاول سمتھ نے اپنی ویب سائٹ پر چپلوں کی ڈسکرپشن تبدیل کر کے یہ ٹیگ لگا لیا کہ "یہ چپل پشاوری چپل سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہے"۔"[34][35][36][37]

پشاوری پگڑی

 
امیر چند بھومبال نے پشاوری ٹوپی پہنی ہے

پشاوری پگڑی ایک پگڑی کی قسم ہے جو تربن کے انداز میں ہوتی ہے یہ پشاور میں زیادہ استعمال ہوتی ہے اس لیے نسبت سے یہ نام پڑا۔

قدیم شہر

ماضی میں پشاور کے گرد دیوار بنی ہوئی تھی جس کے اب آثار ہی باقی بچ گئے ہیں۔ زیادہ تر گھر کچی اینٹوں سے بنے ہیں اور اس میں لکڑی استعمال ہوئی ہے تاکہ زلزلے کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔ شہر کی پرانی عمارات سیٹھی محلہ، مسجد مہابت خان، کوٹلہ محسن خان، چوک یادگار اور قصہ خوانی بازار وغیرہ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ مسلسل تعمیر و ترقی کی وجہ سے پرانی عمارات کے تحفظ کی فوری ضرورت ہے۔ پشاور کے گرد دیوار میں آٹھ دروازے تھے جہاں سے مختلف علاقوں کو راستے جاتے تھے مثلاً ھشتنگری دروازہ، یہاں سے ھثتنگر (چارسدہ) کو سڑک جاتی تھی، لاھوری دروازہ، یہاں سے لاہور کو سڑک جاتی تھی۔ ان دروازوں کے آثار زمانے کی بے رحمی سے مٹ گئے تھے لیکن عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومت نے ان کو از سر نو علامتی طور پر بنا دیا ہے۔

قصہ خوانی بازار

 
قصہ خوانی بازار

قصہ خوانی بازار پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں پشاور کا ایک مشہور تاریخی بازار ہے۔ قصہ خوانی بازار تاریخی لحاظ سے ادبی اور سیاسی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس بازار کا نام دراصل یہاں کے روایتی قہوہ خانوں، تکہ کباب، چپلی کباب اور خشک میوہ جات کی دکانوں کے ساتھ جڑی اس تجارت سے منسوب ہے جہاں پہلے پہل دور دراز سے آئے تاجر یہاں کے مہمان خانوں میں قیام کرتے اور اپنے اپنے ملکوں کے حالات قصہ کی شکل میں بیاں کرتے۔ یہاں کے قصہ گو پورے علاقہ میں مشہور تھے۔ یہاں تاجروں کے علاوہ قافلوں کا بھی پڑاؤ ہوتا اور فوجی مہمات کا آغاز اور پھر اختتام جو تفصیلاً ہر مہم کے احوال کے ساتھ یہیں ہوا کرتا تھا۔ [38] یہاں کے پیشہ ور قصہ گو بہت مشہور تھے اور یہ تاجروں، مسافروں اور فوجیوں سے سنے قصوں کو نہایت خوبی سے بیاں کیا کرتے تھے۔ ایک وقت میں اس بازار کو غیر تحریر شدہ تاریخ کا مرکز کہا جاتا تھا۔ خیبر پختونخوا کے گزئٹیر کے سیاح لوئل تھامس اور پشاور کے برطانوی کمشنر ہربرٹ ایڈورڈز نے اپنی تصانیف میں اس بازار کو وسط ایشیا کا پکاڈلی قرار دیا ہے۔[39][40][41]

سیٹھی محلہ

 
سیٹھی محلہ کا ایک گھر

سیٹھی محلہ قدیم پشاور کے اندروں دیوار شہر کے مرکز میں ایک علاقہ ہے جو وسط ایشیائی طرز تعمیر کے گھروں کے لیے مشہور ہے۔ محلہ میں سیٹھی خاندان کے سات مکانات موجود ہیں جو فن کا ایک اعلیٰ نمونہ ہیں۔ [42]

موسیقی

افغان جنگ کی وجہ سے افغان مہاجرین پاکستان پہنچے اور پشاور میں افغان موسیقار اور فنکار بھی آن بسے۔ اس کے علاوہ پشتو موسیقی اور سینما، دری موسیقی جو تاجک افراد کی پسند ہے اور فارسی میں کتب کی چھپائی بھی پشاور میں اب جڑ پکڑ چکی ہیں۔ پشاور سے شیعہ مذہبی کتب قصہ خوانی بازار سے چھپتی ہیں۔

2002 میں متحدہ مجلس عمل کی انتخابی کامیابی کے بعد عوامی سطح پر موسیقی کی نمائش اور پبلک ٹرانسپورٹ پر موسیقی پر پابندی لگ گئی۔ تاہم زیر زمین استعمال بڑھ گیا۔ 2008 میں نسبتاً آزاد خیال عوامی نیشنل پارٹی کی جیت کے بعد ثقافتی سرگرمیوں کو جِلا ملی ہے لیکن طالبان کی وجہ سے ثقافت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔

عجائب گھر

 
پشاور عجائب گھر

پشاور عجائب گھر پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے تاریخی شہر پشاور میں ایک عجائب گھر ہے۔ ایک کی خصوصیت گندھارا تہذیب کے نوادرات ہے۔

زبانیں

شہر کی اکثر آبادی ایک یا ایک سے زیادہ زبانیں بولتی ہے:

  • اردو، قومی زبان اور عام رابطہ کے لیے استعمال ہوتی ہے
  • پختو، آس پاس اور افغانستان سے پختونوں کی اکثریت کی آمد کے بعد 1980 کی دہائی سے بڑی زبان بن گئی ہے
  • پشاور کے مقامی لوگ جو خود کو پشوری کہلوانا پسند کرتے ہیں وہ پشوری ھندکو بولتے ہیں۔
    • کھو ار، چترال کے لوگ بولتے ہیں
  • کوہستانی، مالا کنڈ اور ہزارہ ڈویژن کے لوگ بولتے ہیں
  • دری، ہزارگی، *فارسی اور تاجک، مختلف افغان مہاجرین بولتے ہیں

دیگر زبانوں میں گوجری، کشمیری، شینا، رومانی، برشسکی، واخی، بلتی، بلوچی، براہوی، سندھی اور انگریزی (سرکاری سطح پر اور سیاحت سے متعلق) بھی استعمال ہوتی ہیں۔

تحریری طور پر اردو اور انگریزی ہی پشاور میں استعمال ہوتی ہیں جبکہ پشتو اور فارسی انتہائی کم مقدار میں استعمال ہوتی ہیں۔

معیشت

 
درہ خيبر

پشاور کی معاشی اہمیت تاریخی طور پر درہ خيبر داخلے پر ہونے کی وجہ سے امتیازی حیثیت رہی ہے۔ یہ وسط ایشیا اور برصغیر کے درمیان میں تجارت کا سب سے اہم راستہ رہا ہے۔ بیسویں صدی کے وسط سے پشاور کی معیشت کو ہپی راہ میں ہونے کی وجہ سے بھی بہت فائدہ ہوا۔ پشاور کی متوقع ماہانہ فی کس آمدنی اسلام آباد 117،924 اور کراچی 66،2359 کے مقابلے میں 2015ء میں 55،246 تھی۔ [43]

صنعت

جمرود روڈ پر واقع پشاور کی صنعتی اسٹیٹ 868 ایکڑ پر محیط ہے جو 1960ء میں قائم کیا گیا ایک صنعتی زون ہے۔ [44] حیات آباد صنعتی اسٹیٹ پشاور کے مغرب کے مضافات میں واقع ہے جہاں 646 صنعتی یونٹس موجود ہیں۔ تاہم کئی یونٹس اب استعمال میں نہیں ہیں۔[45] پاک چین اقتصادی راہداری کا حصہ ہونے کی وجہ سے صوبے میں 4 خصوصی اقتصادی زون قائم کیے جائیں گے، سڑکوں، بجلی، گیس، پانی اور سیکورٹی حکومت کی طرف سے فراہم کی جائے گی۔[45]

روزگار

شہر میں پناہ گزین افراد کی بڑی تعداد میں ہونے کے نتیجے میں، پشاور کے رہائشیوں کا صرف 12 فیصد 2012ء میں رسمی معیشت میں روزگار حاصل کر سکا۔[46] 2012ء میں تقریباً 41 فیصد باشندوں کو ذاتی خدمات میں برسر روزگار ہوئے، [46] جبکہ 2012ء میں شہر میں 55 فیصد افغان مہاجرین روزانہ اجرت حاصل کرنے والے تھے۔ [46]

نقل و حمل

فضائی

 
باچا خان بین الاقوامی ہوائی اڈا

باچا خان بین الاقوامی ہوائی اڈا یا پشاور انٹرنیشنل ائرپورٹ (کوڈ: PEW|OPPS) پاکستان کے صوبہ سرحد میں پشاور کے مقام پر واقع بین الاقوامی ہوائی اڈا ہے۔ یہ پشاور شہر کے مرکز سے تقریباً 10 منٹ کی مسافت پر واقع ہے اور پاکستان میں چوتھا مصروف ترین ہوائی اڈا شمار ہوتا ہے۔ اس ہوائی اڈے کی غیر معمولی بات یہ ہے کہ اس کے رن وے کے ایک حصے پر ریل کی پٹری گزرتی ہے جو خیبر ٹرین سفاری کے استعمال میں ہے جو لنڈی کوتل تک سفر کرتی ہے۔

یہ ہوائی اڈا ایک لحاظ سے وادی پشاور کے مرکز میں واقع ہے۔ پشاور انٹرنیشنل ائرپورٹ پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد سے تقریباً 180 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، گاڑی پر یہ سفر تقریباً 2 گھنٹے میں طے کیا جا سکتا ہے۔ اس ہوائی اڈے کی تاریخی اہمیت ملک کے دوسرے ہوائی اڈوں کی نسبت ممتاز ہے۔ چونکہ پشاور صوبہ سرحد کا مرکز ہے اس لیے یہ ملک کے شمال مغربی حصے میں دنیا سے رابطے کا واحد ذریعہ ہے جو عالمی معیار پر پورا اترتا ہے۔

ریلوے

 
پشاور ریلوے اسٹیشن

پشاور چھاؤنی ریلوے اسٹیشن صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں کراچی - پشاور مرکزی ریلوے لائن پر واقع ہے۔ یہ پشاور شہر کا مرکزی اور پاکستان ریلویز کا ایک اہم ریلوے اسٹیشن ہے۔ یہاں عوام ایکسپریس، خوشحال خان خٹک ایکسپریس اور خیبر میل ریل گاڑیاں چلتی ہیں۔ اس اسٹیشن سے ریل گاڑیاں پاکستان کے مختلف شہروں کو جاتی ہیں جن میں کراچی، لاہور، راولپنڈی، گوجرانوالہ، گجرات، جہلم، خانیوال، ملتان، بہاولپور، رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان، سکھر، جیکب آباد، لاڑکانہ، کوئٹہ اور کوٹری شامل ہیں۔

جبکہ پشاور میں دوسرا ریلوے اسٹیشن پشاور شہر ریلوے اسٹیشن ہے۔

شاہراہیں

 
پشاور

پشاور تاریخی طور پر بہت اہمیت کا حامل رہا ہے جو مختلف راستوں سے وسط ایشیا، جنوبی ایشیا سے مربوط رہا ہے۔ شہر میں عمومی نقل و حمل کے لیے سڑکوں کا جال موجود ہے۔ مندرجہ ذیل بین صوبائی یا بین الاقوامی شاہراہوں کا ذکر ہے۔

گرینڈ ٹرنک روڈ

گرینڈ ٹرنک روڈ یا جسے مختصرًا جی ٹی روڈ بھی کہتے ہیں دراصل ایشیا کی طویل ترین اور قدیم ترین شاہراہوں میں سے ایک ہے۔ اس کی عمر 2000 سال ہے۔ یہ شاہراہ جنوبی ایشیا کو وسطی ایشیا سے ملاتی ہے جو بنگلہ دیش سے شروع ہوکر بھارتی علاقوں سے ہوتی ہوئی پاکستانی پنجاب پھر خیبر پختونخوا اور آخر میں افغان شہر کابل تک جاتی ہے۔

شاہراہ قراقرم

 
شاہراہ قراقرم

شاہراہ قراقرم پاکستان کو چین سے ملانے کا زمینی ذریعہ ہے۔ اسے قراقرم ہائی وے اور شاہراہ ریشم بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہے۔ درہ خنجراب کے مقام پر سطح سمندر سے اس کی بلندی 4693 میٹر ہے۔ یہ چین کے صوبہ سنکیانگ کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے ملاتی ہے۔ یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ ہے۔

قومی شاہراہ 55

قومی شاہراہ 55 یا این-55، جسے عام طور پر انڈس ہائی وے کہا جاتا ہے، پاکستان کے صوبہ سندھ، پنجاب اور سرحد کو منسلک کرنے والی ایک اہم شاہراہ ہے۔ اسے دریائے سندھ کے مشرقی کناروں پر واقع این-5 پر دباؤ کو کم کرنے اور کراچی اور پشاور کے درمیان میں ایک مختصر اور متبادل راستہ اختیار کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس شاہراہ کی تجویز 1980ء میں دی گئی اور کام کا آغاز 1981ء میں کراچی سے ہوا اور 7 سال کے بعد پشاور میں مکمل ہوئی۔

پشاور رنگ روڈ

 
ایم 1 موٹروے (پاکستان)

پشاور رنگ روڈ یا خیبر پختونخوا ہائی وے ایس-13 پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دار الحکومت پشاور میں واقع 35 کلومیٹر (22 میل) طویل ایک مداری شاہراہ ہے۔ [47]

موٹر وے

ایم 1 موٹروے (M1) پاکستان میں موٹروے ہے جو خیبر پختونخوا اور پنجاب کو ملاتی ہے۔ یہ 155 کلومیٹر طویل ہے، 88 کلومیٹر خیبر پختونخوا میں اور 67 کلومیٹر پنجاب میں واقع ہے۔یہ افغانستان اور وسطی ایشیا کے لیے ایک اہم رابطہ سڑک بن چکی ہے۔ یہ پاکستان موٹروے کا حصہ ہے۔[48]۔

درۂ خیبر

 
درہ خیبر میں موجود باب خیبر

درۂ خیبر پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر پشاور سے 33 میل طویل اونچے اونچے خشک اور دشوار گزار پہاڑوں میں گھرا ہوا ایک درہ ہے۔ چوڑائی ایک جگہ صرف دس فٹ ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان میں آمدورفت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ تاریخ میں اس کو بڑی اہمیت حاصل ہے برصغیر میں شمال مغرب کی طرف سے جتنے فاتح آئے۔ اسی راستے سے آئے۔ انگریزوں نے 1879ء میں اس پر قبضہ کیا۔ درہ خیبر جمرود سے شروع ہوتا ہے اور تورخم تک چلا گیا ہے۔ جو پاک افغان سرحد کی آخری چوکی ہے۔باب خیبر اور قلعہ جمرود پاس ہی واقع ہیں۔

تعلیم

 
اسلامیہ کالج یونیورسٹی
 
جامعۂ پشاور
 
نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنسز، پشاور کیمپس

پشاور میں بہت سارے تعلیمی ادارے ہیں جن میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نے پشاور یونیورسٹی اکتوبر 1950ء میں قائم کی۔ ایڈورڈز کالج 1900ء میں ہربرٹ ایڈورڈز نے بنایا اور اسے صوبے کا قدیم ترین کالج مانا جاتا ہے۔

ذیل میں پشاور کے سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیوں میں سے کچھ کے نام ہیں:

اخبارات و رسائل

  • ویکلی پیارا پاکستان

کھیل

 
پشاور زلمی پاکستان سپر لیگ کی موجودہ فاتح ٹیم

ارباب نیاز اسٹیڈیم پشاور میں ٹیسٹ کرکٹ کا اسٹیڈیم ہے، دیگر اسٹیڈیموں میں پشاور کلب گراؤنڈ اور قیوم اسٹیڈیم شامل ہیں۔[49] پشاور کی مقامی کرکٹ ٹیم پشاور پینتھرز ہے۔ جبکہ پاکستان سپر لیگ میں پشاور کی کرکٹ ٹیم پشاور زلمی ہے۔ [50] فیلڈ ہاکی اور اسکواش بھی پشاور میں بہت مقبول ہیں۔ پشاور گالف کورس پشاور، خیبر پختونخوا، پاکستان میں ایک بڑا گالف کورس ہے۔ یہ شہر کے مرکز میں گرینڈ ٹرنک روڈ اور شامی روڈ کے ساتھ واقع ہے۔ یہ برطانوی راج کے نو آبادی دور میں تعمیر گیا۔ [51][52] موجودہ دور میں یہ پاک فضائیہ کے زیر انتظام ہے۔ [53]

پشاور زلمی

پشاور زلمی پاکستان سپر لیگ میں ایک پاکستانی ٹوئنٹی/20 کرکٹ ٹیم ہے۔ ٹیم خیبرپختونخوا کے دار الحکومت پشاور پر مبنی ہے۔ یہ ٹیم پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے پاکستان سپر لیگ کے قیام کے نتیجے میں تشکیل پائی۔ ٹیم کے کپتان ڈیرن سیمی ہیں۔ یہ ٹیم ہائیر پاکستان کی ملکیت ہے۔[54] پشاور زلمی پاکستان سپر لیگ کی 2017ء کی موجودہ فاتح ہے۔ [55]

شماریات

ضلع کا کُل رقبہ 1257 مربع کلوميٹر ہے۔

یہاں فی مربع کلومیٹر 2040 افراد آباد ہيں

سال 2004-05 ميں ضلع کی آبادی 2564000 تھی

دیہی آبادی کا بڑا ذریعہ معاش زراعت ہے۔

کُل قابِل کاشت رقبہ78930 ہيکٹر ہے

اہم شخصیات

 
دلیپ کمار
 
پطرس بخاری

جڑواں شہر

نگار خانہ

مزید دیکھیے

پاکستان کے شہر

شہر نتائج

درجہ شہر آبادی (1998 مردم شماری) آبادی (2017 مردم شماری) اضافہ صوبہ
1 کراچی 9,856,318 16,051,521 [57] 62.86% سندھ
2 لاہور 5,143,495 11,126,285  116.32% پنجاب، پاکستان
3 فیصل آباد 2,008,861 3,203,846 59.49% پنجاب، پاکستان
4 راولپنڈی 1,409,768 2,098,231 48.84% پنجاب، پاکستان
5 گوجرانوالہ 1,132,509 2,027,001 78.98% پنجاب، پاکستان
6 پشاور 982,816 1,970,042 100.45% خیبر پختونخوا
7 ملتان 1,197,384 1,871,843  56.33% پنجاب، پاکستان
8 حیدرآباد، سندھ 1,166,894 1,732,693 48.49% سندھ
9 اسلام آباد 529,180 1,014,825 91.77% اسلام آباد وفاقی دارالحکومت علاقہ
10 کوئٹہ 565,137 1,001,205 77.16% بلوچستان

حوالہ جات

  1. "Peshawar gets new deputy commissioner"۔ Dawn (بزبان انگریزی)۔ Dawn Media Group۔ 1 مارچ 2017۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 جون 2017 
  2. "District admin observes 'World No Tobacco Day'"۔ Pakistan Today۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 جون 2017 
  3. http://www.demographia.com/db-worldua.pdf
  4. "SOCIAL DEVELOPMENT IN PAKISTAN ANNUAL REVIEW 2014–15" (PDF)۔ SOCIAL POLICY AND DEVELOPMENT CENTRE۔ 2016۔ 05 اپریل 2020 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مارچ 2017 
  5. Peshawar: Oldest continuously inhabited City in South Asia۔ DAWN.com. Retrieved 17 اکتوبر 2014.
  6. "Pakistan's 10 most populous cities revealed"۔ سماء ٹی وی۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 ستمبر 2017 
  7. Journal of the Royal Asiatic Society of Great Britain & Ireland۔ Royal Asiatic Society of Great Britain & Ireland.۔ 1834۔ صفحہ: 114–۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 دسمبر 2012 
  8. ^ ا ب Clifford Edmund Bosworth (2007)۔ Historic Cities of the Islamic World۔ BRILL۔ ISBN 9789004153882۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 مارچ 2017 
  9. Journal of the Research Society of Pakistan, Volume 2, Issue 1 – Volume 3, Issue 2۔ Research Society of Pakistan۔ 1965 
  10. "Journal of Central Asia"۔ Journal of Central Asia۔ Centre for the Study of the Civilizations of Central Asia, Quaid-i-Azam University,۔ 19۔ 1996 
  11. ^ ا ب پ ت ٹ History of Peshawar – Peshawar City Documentary Peshawar Beautiful Places – YouTube
  12. "Peshawar Climate Normals 1961–1990"۔ National Oceanic and Atmospheric Administration۔ اخذ شدہ بتاریخ جنوری 16, 2013 
  13. "Extremes of Peshawar"۔ محکمہ موسمیات پاکستان۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ فروری 2, 2015 
  14. "Pakistan Bureau of Statistics | 6th Population and Housing Census"۔ 15 اکتوبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2017 
  15. ^ ا ب Peshawar District: Socio-political Profile۔ Pattan Development Organization۔ 2006 
  16. M Zulqernain (10 فروری 2012)۔ "Historic Gurdwara in Peshawar to Reopen for Worship"۔ Outlook India.com۔ The Outlook Group۔ 25 اپریل 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 دسمبر 2012 
  17. Rania Abouzeid (22 نومبر 2010)۔ "Pakistan: The Embattled Sikhs in Taliban Territory"۔ Time World۔ Time Inc۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 دسمبر 2012 
  18. "Archived copy"۔ 11 اپریل 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اگست 2014 
  19. Jewish ghosts in Pakistan
  20. ^ ا ب Afghanistan Research and Evaluation Unit (جنوری 2006)۔ "AFGHANS IN PESHAWAR Migration, Settlements and Social Networks" (PDF)۔ Collective for Social Science Research۔ اقوام متحدہ کے اعلیٰ کمشنر برائے مہاجرین۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2017 
  21. ^ ا ب MURTAZA HAIDER (20 جون 2012)۔ "Of refugees, cities and cultures"۔ Dawn۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2017 
  22. Donatella Lorch (16 نومبر 1988)۔ "Pakistan Restricts Afghan. Refugees"۔ نیو یارک ٹائمز۔ نیو یارک ٹائمز Company۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 دسمبر 2012 
  23. ^ ا ب "Pakistan wants millions of Afghan refugees gone. It's a humanitarian crisis waiting to happen."۔ Public Radio International۔ Reuters۔ 30 مارچ 2017۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2017 
  24. Pamela Constable (19 مارچ 2017)۔ "c 'There is nothing here but dust': What Afghan deportees face after years as refugees in Pakistan"۔ واشنگٹن پوسٹ۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2017 
  25. Bureau Report۔ "KP govt creates new Kohistan district"۔ dawn.com۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جولائی 2015 
  26. 'Sardar Mehtab, a born-again politician: Dateline Peshawar' Dawn Newspaper، اپریل 10, 2003
  27. Pervez Khattak elected as SG of PTI
  28. "صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی اور حکومت: ایک جائزہ"۔ 20 نومبر 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2017 
  29. "آرکائیو کاپی"۔ 03 اگست 2003 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 دسمبر 2020 
  30. Divisions/Districts of Pakistan آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ecp.gov.pk (Error: unknown archive URL)
    Note: Although divisions as an administrative structure has been abolished, the election commission of Pakistan still groups districts under the division names
  31. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 29 اگست 2017 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2017 
  32. "Peshawar News :: Peshawari chappal becoming fade in high society"۔ Frontier Post۔ اگست 30, 2011۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ اکتوبر 22, 2011 
  33. "Peshawari Chappal with jeans becomes a youth cult"۔ Thenews.com.pk۔ نومبر 24, 2010۔ 06 جنوری 2019 میں مئی, 2011 اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ اکتوبر 22, 2011 
  34. "Paul Smith shoes and cultural appropriation"۔ tribune.com.pk۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 ستمبر 2017 
  35. "Outrage erupts over designer's take on classic Pakistani shoe"۔ The Globe and Mail۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 ستمبر 2017 
  36. Andrew Buncombe (مارچ 10, 2014)۔ "Pakistan vs Paul Smith: Sandal-wearers bemused by famed British designer's attempts to sell traditional Peshawari chappal-style shoes for the distinctly untraditional sum of £300"۔ The Independent۔ مارچ 10, 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  37. Madeeha Syed (مارچ 18, 2014)۔ "A chappal of two cities: The £300 Paul Smith surprise"۔ Dawn۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 ستمبر 2017 
  38. پشاور اور قصہ خوانی بازار
  39. حکومت صوبہ سرحد۔ صوبہ خیبر پختونخوا کا گزئٹیر۔ سرکار پاکستان 
  40. وکٹوریا سکاف فیلڈ۔ افغان سرحد: وسط ایشیا میں جنگ اور قبائل۔ ٹارس پارک پیپر بیک۔ صفحہ: 46 
  41. سید امجد حسین (اپریل 2003ء)۔ "پیکاڈلی اور قصہ خوانی بازار"۔ جیو سٹیز 
  42. Forgotten in the ‘lost-and-found’ of our heritage
  43. "SOCIAL DEVELOPMENT IN PAKISTAN ANNUAL REVIEW 2014–15" (PDF)۔ SOCIAL POLICY AND DEVELOPMENT CENTRE۔ 2016۔ 05 اپریل 2020 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 اپریل 2017 
  44. IBP, Inc. (Jun 1, 2015)۔ Pakistan: Doing Business and Investing in Pakistan: Strategic, Practical Information, Regulations, Contacts۔ Lulu۔ ISBN 978-1-5145-2747-4 
  45. ^ ا ب "CPEC-inspired economic zones"۔ Dawn۔ دسمبر 28, 2015۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 اپریل 2017 
  46. ^ ا ب پ "Fragile economy of Peshawar and policy failure"۔ The Tribune۔ جولائی 20, 2016۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 اپریل 2017 
  47. Pakhtunkhwa Highways Authority
  48. http://pakistaniat.com/2007/11/11/peshawar-islamabad-motorway-m1-is-now-open-for-traffic/
  49. Nazeer Ahmed (2-4-2020)۔ "PSL 2021: Arbab Niaz Stadium as Peshawar Zalmi home Ground"۔ Zerocric۔ 23 اپریل 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 مارچ 2020 
  50. "Peshawar Zalmi Home page"۔ Peshawar Zalmi۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2017 
  51. Peshawar Golf Course on Google Maps
  52. Peshawar Golf Club آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ golfworldmap.com (Error: unknown archive URL) at Golf World Map
  53. Peshawar Golf Club (Peshawar) at Wikimapia
  54. Pakistan Super League: Seven companies fight it out to buy franchises – The Express Tribune
  55. "Peshawar Zalmi | KHPAL TEAM"۔ 30 اگست 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 ستمبر 2017 
  56. Umer Farooq (6 جنوری 2012)۔ "Indonesia seeking to enhance trade with Khyber-Pakhtunkhwa"۔ دی ایکسپریس ٹریبیون۔ دی ایکسپریس ٹریبیون News Network۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 دسمبر 2012 
  57. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 16 جون 2020 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2022 

کتابیات

  • Ahmad, Aisha and Boase, Roger. 2003. "Pashtun Tales from the Pakistan-Afghan Frontier: From the Pakistan-Afghan Frontier." Saqi Books (1 مارچ 2003)۔ آئی ایس بی این 0-86356-438-0۔
  • Beal, Samuel. 1884. "Si-Yu-Ki: Buddhist Records of the Western World, by Hiuen Tsiang." 2 vols. Trans. by Samuel Beal. London. Reprint: Delhi. Oriental Books Reprint Corporation. 1969.
  • Beal, Samuel. 1911. "The Life of Hiuen-Tsiang by the Shaman Hwui Li, with an Introduction containing an account of the Works of I-Tsing"۔ Trans. by Samuel Beal. London. 1911. Reprint: Munshiram Manoharlal, New Delhi. 1973.
  • Dani, Ahmad Hasan۔ 1985. "Peshawar: Historic city of the Frontier" Sang-e-Meel Publications (1995)۔ آئی ایس بی این 969-35-0554-9۔
  • Dobbins, K. Walton. 1971. "The Stūpa and Vihāra of Kanishka I"۔ The Asiatic Society of Bengal Monograph Series, Vol. XVIII. Calcutta.
  • Elphinstone, Mountstuart. 1815. "An account of the Kingdom of Caubul and its dependencies in Persia, Tartary, and India; comprising a view of the Afghaun nation." Akadem. Druck- u. Verlagsanst (1969)۔
  • Foucher, M. A. 1901. "Notes sur la geographie ancienne du Gandhâra (commentaire à un chaptaire de Hiuen-Tsang)۔" BEFEO No. 4, Oct. 1901, pp. 322–369.
  • Hargreaves, H. (1910–11): "Excavations at Shāh-jī-kī Dhērī"; Archaeological Survey of India, 1910–11، pp. 25–32.
  • Hill, John E. 2003. "Annotated Translation of the Chapter on the Western Regions according to the Hou Hanshu۔" 2nd Draft Edition.
  • Hill, John E. 2004. "The Peoples of the West from the Weilue" 魏略 by Yu Huan 魚豢: A Third Century Chinese Account Composed between 239 and 265 CE. Draft annotated English translation.
  • Hopkirk, Peter۔ 1984. "The Great Game: The Struggle for Empire in Central Asia" Kodansha Globe; Reprint edition. آئی ایس بی این 1-56836-022-3۔
  • Moorcroft, William and Trebeck, George۔ 1841. "Travels in the Himalayan Provinces of Hindustan and the Panjab; in Ladakh and Kashmir, in Peshawar, Kabul, Kunduz, and Bokhara.۔. from 1819 to 1825"، Vol. II. Reprint: New Delhi, Sagar Publications, 1971.
  • Reeves, Richard. 1985. "Passage to Peshawar: Pakistan: Between the Hindu Kush and the Arabian Sea." Holiday House ستمبر 1985. آئی ایس بی این 0-671-60539-9۔
  • Imran, Imran Rashid. 2006. "Baghaat-i-Peshawar." Sarhad Conservation Network. جولائی 2006.
  • Imran, Imran Rashid. 2012. "Peshawar – Faseel-e-Shehr aur Darwazay." Sarhad Conservation Network. مارچ 2012.

دستاریزی فلمیں