دی لیزر اینٹرفیرومیٹر گریویٹیشنل ویو آبزرویٹری

لی گو دی لیزر اینٹرفیرومیٹر گریویٹیشنل ویو آبزرویٹری رصد گاہ بڑے پیمانے پر طبیعیات کے تجربات کرنے اور تجاذبی لہروں کے مشاہدے کی رصدگاہ ہے۔ اس کی بنیاد 1992ء میں کِپ تھارن اور رونلڈ ڈریور (کالٹیک) اور رائنر وائیز (ایم آئی ٹی) نے رکھی۔ لیگو ایم آئی ٹی، کالٹیک اور بہت ساری دیگر یونیورسٹیوں اور کالجوں کے سائنس دانوں کا مشترکہ منصوبہ ہے۔ اس منصوبے میں سائنس دانوں کی شمولیت اور ڈیٹا کے تجزیے کے لیے لیگو سائنسی تعاون نامی ادارہ ذمہ دار ہے۔ اس تعاون میں دنیا بھر سے 900 سے زیادہ سائنس دان اور 44٫000 متحرک Einstein@Home صارفین ہیں۔[1][2] لیگو کے اخراجات نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے ذمے ہیں اور دیگر معاونت کنندہ یو کے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فیسیلیٹیز کونسل، دی میکس پلانک سوسائٹی آف جرمنی اور آسٹریلین ریسرچ کونسل ہیں۔[3][4] ستمبر، 2015ء کے وسط تک دنیا کی اس سب سے بڑی تجاذبی لہروں کے مرکز کی 5 سالہ 20 کروڑ ڈالر کی مرمت کل 62 کروڑ ڈالر کی لاگت سے تکمیل پزیر ہوئی۔[2][5] نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کی طرف سے مالی معاونت پانے والا لی گو سب سے بڑا اور مہنگا منصوبہ ہے۔[6][7]

لی گو
Laser Interferometer Gravitational-wave Observatory
لی گو ہنفورڈ Control Room
تنظیملی گو سائنسی شراکت[*]
مقامموقع ہنفرڈ[*]، لیونگسٹن, ریاستہائے متحدہ امریکا
متناسقات46°27′18.52″N 119°24′27.56″W / 46.4551444°N 119.4076556°W / 46.4551444; -119.4076556 (LIGO Hanford Observatory)
30°33′46.42″N 90°46′27.27″W / 30.5628944°N 90.7742417°W / 30.5628944; -90.7742417 (LIGO Livingston Observatory)
طولِ موج43–10000 کلومیٹر
(30–7000 Hz)
تیار شدہ1994–2002ء (1994–2002ء)
پہلی بار استعمال23 اگست 2002
دوربین طرزgravitational-wave detector[*]، سہولت[*]، astronomical interferometer[*]
ویب سائٹwww.ligo.caltech.edu
Commons page Related media on Wikimedia Commons

لی گو کے ابتدائی دور میں 2002ء سے 2010ء تک تجاذبی لہریں نہیں شناخت ہو سکیں۔ اس کے بعد کئی سال تک اس بند رکھ کر ڈیٹکٹر کو جدید بنایا گیا اور اسے ترقی یافتہ لی گو کہا جاتا ہے۔[8] 18 ستمبر، 2015ء میں ترقی یافتہ لی گو نے اپنا پہلا باضابطہ مشاہدہ شروع کیا جو پرانے لی گو سے چار گنا زیادہ حساس نوعیت کا تھا۔ 2021ء تک اس کی حساسیت مزید بڑھا کر مطلوبہ سطح تک لائی جائے گی۔[9]

11 فروری، 2016ء کو لیگو سائنسی تعاون اور وِرگو تعاون نے تجاذبی لہروں کے مشاہدے پر ایک مقالہ چھاپا۔ یہ مشاہدہ 14 ستمبر، 2015ء کو 09.51 UTC کو سورج سے 30 گنا بڑے دو سیاہ شگافوں سے آئے سگنل پر مشتمل تھا۔ یہ دونوں سیاہ شگاف زمین سے لگ بھگ 1.3 ارب نوری سال دور ہیں۔[10][11][12]

مقصد

ترمیم

لی گو کا مقصد کائناتی نوعیت کی تجاذبی لہروں کا براہ راست مشاہدہ کرنا ہے۔ ان لہروں کے بارے پہلی مرتبہ 1916ء میں آئن سٹائن نے اضافیت کے عمومی نظریے میں پیشین گوئی کی تھی۔ اُس وقت ان کا مشاہدہ کرنے کی ٹیکنالوجی وجود میں نہیں آئی تھی۔ ان لہروں کے وجود کا بالواسطہ مشاہدہ پہلی بار 1974ء میں PSR 1913+16 نامی دہرے پلسار سے ہوا تھا جب تجاذبی ریڈی ایشن کی وجہ سے اس کے مداروی انحطاط کی مقدار آئن سٹائن کی پیشین گوئی کے عین مطابق تھی۔ 1993ء میں طبیعیات کا نوبل انعام اسی دریافت کی بنا پر ہلسی اور ٹیلر کو دیا گیا۔

تجاذبی لہروں کے براہ راست مشاہدے کا طویل عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ ان کی دریافت سے فلکیات کی نئی شاخ پیدا ہوتی جس سے برقناطیسی دوربینوں اور نیوٹرینو کی رصدگاہوں کو مدد ملتی۔ جوزف ویبر نے تجاذبی لہروں کے مشاہدے کے کام کی ابتدا 1960ء کی دہائی میں ریزوننٹ ماس بار ڈیٹکٹرز پر اپنے کام سے کی۔ یہ ڈیٹکٹرز دنیا بھر میں چھ مختلف جگہوں پراستعمال ہوتے رہے۔ 1970ء کی دہائی میں رائنر ویز اور دیگر سائنس دانوں نے اس کام کے لیے لیزر انٹرفیرومیٹری کی اہمیت کا احساس کیا۔

حقیقت میں 1960ء کی دہائی اور اس سے بھی قبل تجاذبی اور روشنی کی لہروں کی تھرتھراہٹ پر مقالے چھپ چکے تھے۔ 1971ء میں چھپنے والے ایک مقالے میں بتایا گیا تھا کہ اس تھرتھراہٹ کو کیسے استعمال کر کے زیادہ تعدد والی تجاذبی لہروں کا مشاہدہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ 1962ء میں چھپنے والے اپنی نوعیت کے پہلے مقالے میں بتایا گیا کہ انٹرفیرومیٹر کی مدد سے بہت لمبی طولِ موج والی تجاذبی لہروں کا مشاہدہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اس مقالے کے مصنفین کے مطابق اس طرح روایتی آلات سے 107 سے 1010 گنا زیادہ حساسیت سے مشاہدہ ہو سکتا ہے۔ 1965ء میں براگنسکی نے تفصیل سے تجاذبی لہروں کے منابع اور ان کے ممکنہ مشاہدے کے بارے بحث کی۔ 1962ء میں وہ یہ بھی بتا چکا تھا کہ اگر انٹرفیرومیٹرک ٹیکنالوجی اور پیمائش کے طریقے بہتر ہو جائیں تو ان لہروں کا مشاہدہ ہو سکتا ہے۔

اگست 2002ء میں لی گو نے کائناتی تجاذبی لہروں کی تلاش شروع کی۔ قابلِ پیمائش لہروں کے بارے امید تھی کہ وہ ثنائی نظاموں (نیوٹران ستاروں یا سیاہ شگافوں کے ٹکراؤ)، عظیم الجثہ ستاروں کے سپرنووا بننے کے دھماکوں، مادہ جمع کرتے نیوٹران ستاروں، بگڑی سطح والے نیوٹران ستاروں کے گردش اور کائنات کی ابتدا کے وقت خارج ہونے والی تجاذبی تابکاری سے خارج ہوں گی۔ اصولی طور پر ایسی رصدگاہ تھرتھراتی کائناتی لڑیوں سے یا دیگر ذرائع سے پیدا ہونے والی تجاذبی لہروں کا مشاہدہ بھی کر سکتی ہے۔ 1990ء کی دہائی میں طبیعیات دانوں کا خیال تھا کہ اب ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر گئی ہے کہ تجاذبی لہروں کا مشاہدہ کسی وقت بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ مشاہدہ فلکیاتی طبیعیات کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

رصدگاہیں

ترمیم

لی گو تجاذبی لہروں کی دو رصدگاہوں کو بیک وقت چلاتی ہے۔ ایک رصدگاہ لوئیزیانا میں لیونگ سٹون میں واقع ہے اور لی گو لیونگ سٹون رصدگاہ کہلاتی ہے۔ دوسری رصدگاہ واشنگٹن میں رچ لینڈ کے پاس ہے اور لی گو ہینفورڈ رصدگاہ کہلاتی ہے۔ دونوں جگہوں کا درمیانی فاصلہ 3٫002 کلومیٹر ہے۔ چونکہ تجاذبی لہریں روشنی کی رفتار سے حرکت کرتی ہیں، اس لیے ان کی وصول میں زیادہ سے زیادہ 10 ملی سیکنڈ جتنا فرق آ سکتا ہے۔ مثلث سازی کی تکنیک سے منبع معلوم کیا جا سکتا ہے۔

دونوں رصدگاہوں میں انگریزی کے حرف L کی شکل کا بہت بلند خلائی نظام موجود ہے جو دو اطراف کو 4، 4 کلومیٹر طویل ہے۔ ہر شاخ میں پانچ انٹرفیرومیٹر رکھے جا سکتے ہیں۔

لی گو لیونگ سٹون میں بنیادی آلہ ایک لیزر انٹرفیرومیٹر ہے جسے 2004ء میں جدیدکاری کے بعد نصب کیا گیا تھا۔

لی گو ہینفورڈ رصدگاہ میں نصب انٹرفیرومیٹر لیونگ سٹون والے آلے سے مشابہہ ہے۔ اس رصدگاہ کی ابتدائی اور پھر جدیدکاری کے مرحلے میں نصف طولِ موج کا انٹرفیرومیٹر بھی نصب کیا گیا جو دو کلومیٹر پر کام کرتا ہے۔

دونوں مقامات پر نصب بنیادی انٹرفیرومیٹر میں L کے کونوں پر لگے شیشوں پر مشتمل ہیں۔ پہلے سے مخصوص لیزر کی شعاع 200 واٹ جتنی روشنی کو Optical Mode Cleaner سے گزار کر تقسیم کرنے والے آلے کو بھیجی جاتی ہے جو اسے دو برابر حصوں میں بانٹ کر دونوں سمت بھیج دیتا ہے۔

جب تجاذبی لہر انٹرفیرومیٹر سے گزرتی ہے تو اس مقام پر زمان و مکان میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ اس لہر کے منبع اور سمت کی وجہ سے لیزر والی روشنی میں بہت معمولی سی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ اس طرح واپس موصول ہونے والی روشنی میں انتہائی معمولی سی مگر باقاعدہ اور قابلِ پیمائش تبدیلی واقع ہوتی ہے۔

4 کلومیٹر طویل بازو ؤں میں تقریباً 75 چکر لگانے کے بعد دونوں شعاعیں تقسیم کرنے و الے آلے پر آن جمع ہوتی ہیں۔ انھیں اس ترتیب سے جمع کیا جاتا ہے کہ اگر شعاعوں میں تجاذبی لہروں کی وجہ سے کوئی تبدیلی نہ آئی ہو تو دونوں شعاعیں ایک دوسرے کو غائب کر دیں گی۔ تاہم اگر تجاذبی لہریں گزریں اور ان کی وجہ سے شعاعوں میں انتہائی معمولی سی تبدیلی واقع ہو تو واپس جمع ہوتے وقت یہ ایک دوسرے کو غائب نہیں کر سکتیں اور کچھ نہ کچھ روشنی پہنچ جاتی ہے اور یہ سگنل کی علامت ہے۔ جب سگنل نہ آئے تو واپس آنے و الی روشنی کی شعاعوں کو طاقت کی تجدید کرنے و الے آئینے سے گزارا جاتا ہے اور شعاعوں کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔ اصل عمل میں شور کی وجہ سے بھی عدسوں میں ویسا خلل آ سکتا ہے جو تجاذبی لہروں سے مماثل ہو۔ اسے ختم کرنے کی خاطر انتہائی احتیاط اور فنکاری سے کام کرنا پڑتا ہے اور محققین دونوں جگہوں کے ڈیٹا کو جانچ کر ایسے شور کو رد کر سکتے ہیں۔

مشاہدات

ترمیم

موجودہ فلکیاتی واقعات کی بنیاد پر اور اضافیت کے عمومی نظریے کی روشنی میں کروڑوں نوری سال دور موجود منابع سے نکلنے و الی شعاعیں جب زمین پر پہنچتی ہیں تو 4 کلومیٹرکے فاصلے پر لگے عدسوں میں 10-18 میٹر یعنی پروٹان کے بار کے ایک ہزارویں حصے کے برابر گڑبڑ پیدا کرتی ہیں۔

2004ء میں چوتھی مرتبہ کام کرتے ہوئے لیگو کے ڈیٹکٹرز نے اپنے ڈیزائن کے تقریباً برابر کام کیا۔

لی گو نے 2005ء میں پانچویں مرتبہ کام کرتے ہوئے اپنے ڈیزائن کے عین مطابق کام کیا جو 100 ہرٹز طولِ موج کے 1021 کے ایک حصے کے برابر تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ سورج کے حجم کے دو نیوٹران ستاروں سے پیدا ہونے والی تجاذبی لہریں اس وقت قابلِ مشاہدہ ہوں گی جب وہ زمین سے 26X106 نوری سال دوری پر ہوں۔ یہ لوکل گروپ کے آس پاس کا علاقہ بنتا ہے۔ اس کے ساتھ لی گو اور جیو 600 نے بھی کام کیا اور ان کے ساتھ ورگو نے مئی 2007ء میں شمولیت اختیار کی۔ جب یہ کام ختم ہوا تو نتیجہ نکلا کہ ایسی کوئی تجاذبی لہروں کا مشاہدہ نہیں ہو پایا۔

فروری 2007ء میں گیما شعاعوں کی ایک بوچھاڑ اینڈرومیڈا کہکشاں کی جانب سے آئی۔ اس طرح کی شعاعوں کی بوچھاڑ کی عمومی وجہ یہ ہوتی ہے کہ نیوٹران ستارہ دوسرے نیوٹران ستارے یا سیاہ شگاف سے مل جاتا ہے۔ لی گو نے اس کا مشاہدہ نہیں کیا یعنی یہ ملاپ اینڈرومیڈا میں نہیں ہوا تھا۔

11 فروری، 2016ء کو لی گو اور ورگو نے مل کر اعلان کیا کہ انھوں نے پہلی بار تجاذبی لہر کا مشاہدہ کر لیا ہے۔ اس سگنل کو GW150914 کا نام دیا گیا۔ یہ سگنل 14 ستمبر، 2015ء کو موصول ہوا جب تجدید کاری کے بعد لیگو کو چلے ہوئے دو دن بھی نہیں ہوئے تھے۔ یہ سگنل اضافیت کے عمومی نظریے میں دو سیاہ شگافوں کے انضمام کے لیے بتائی گئی علامتوں کے عین مطابق تھے۔ ان مشاہدات سے سیاہ شگاف کے ثنائی نظاموں کی موجودگی کا ثبوت ملا اور ثنائی سیاہ شگافوں کے انضمام کا پہلا مشاہدہ بھی ہوا۔

تجدید شدہ لیگو

ترمیم

پانچویں بار چلائے جانے کے بعد لی گو میں مختلف ٹیکنالوجیوں کی تجدید کاری کی گئی۔ اس تجدید کاری کے نتیجے میں ہونے والی بہتری کی وجہ سے اسے ترقی یافتہ لی گو کہا گیا۔ مندرجہ ذیل چند اہم تجدیدکاریاں تھیں:

  • لیزر کی طاقت میں اضافہ
  • Homodyne کا مشاہدہ
  • آؤٹ پٹ موڈ کلینر
  • خلاء کو پڑھنے والا آلہ

لیگو کو چھٹی مرتبہ جولائی، 2009ء میں چلایا گیا۔ اکتوبر، 2010ء میں یہ بند ہوا اور اصل ڈیٹکٹر کو اکھاڑنے کا کام شروع ہوا۔ ستمبر، 2015ء کے وسط تک لی گو سائنسی تعاون میں دنیا بھر سے 900 سے زیادہ سائنس دان شامل ہو چکے تھے۔

تجدید شدہ لیگو

ترمیم

لیگو لیبارٹری کی مالی ذمہ داری نیشنل سائنس فاؤنڈیشن پر ہے اور اس کے ساتھ جیو 600، آسٹریلیا کی ایڈیلیڈ یونیورسٹیاں اور لی گو سائنسی تعاون نے لیگو رصدگاہ میں نئے ڈیٹکٹر نصب کیے ہیں۔ ان نئے ڈیٹکٹرز کی تنصیب مکمل ہو جانے پر اس کی صلاحیت دس گنا بڑھ جائے گی۔

لیگو رصدگاہ نے نئے ڈیٹکٹرز کی تنصیب کے بعد پہلی بار جب کام شروع کیا تو بعض منابع کے لیے اس کی حساسیت پہلے سے 4 گنا بڑھ گئی تھی۔

وقت کے ساتھ ساتھ اس کی حساسیت بڑھائی جاتی رہے گی اور امید ہے کہ 2021ء تک اس کی حساسیت ڈیزائن کے مطابق ہو جائے گی۔

مستقبل

ترمیم

لیگو انڈیا

ترمیم

لیگو انڈیا ایک مجوزہ منصوبہ ہے جس میں لی گو رصدگاہ اور انڈین IndiGO مل کر صفِ اول کا تجاذبی لہروں کا ڈیٹکٹر بنائیں گے۔ لیگو رصدگاہ امریکی نیشنل سائنس فاؤنڈیشن اور تجدید شدہ لیگو کے دیگر معاونین برطانیہ، جرمنی اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر تمام ضروری آلات اور تربیت انڈیا کو مہیا کرنے پر تیار ہو گئے ہیں۔ اس کے مطابق تین مجوزہ لی گو ڈیٹکٹرز میں سے ایک انڈیا میں نصب ہوگا اور اسے انڈین سائنس دان چلائیں گے۔

برسوں سے لی گو کا منصوبہ ہے کہ دنیا بھر میں ایسی رصدگاہوں کا جال بچھا دیا جائے۔ 2010 میں تجاذبی لہر کی بین الاقوامی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ عالمی سطح پر انٹرفیرومیٹروں کی تنصیب کو اولیت دی جانی چاہیے۔ اس طرح فلکیاتی طبیعیات دانوں کو تلاش کی زیادہ سہولیات ملیں گی اور بہتر نتائج حاصل ہوں گے۔

نیشنل سائنس فاؤنڈیشن ایسے تمام منصوبوں کی منظوری کو تیار ہے بشرطیکہ میزبان ملک ایسی رصدگاہ کی تیاری کے اخراجات اٹھانے کو تیار ہو جائے۔ پہلا امکان مغربی آسٹریلیا کا تھا مگر آسٹریلوی حکومت مقررہ میعاد تک رقم کی فراہمی پر تیار نہ ہو سکی۔

انڈیا میں یہ منصوبہ منظوری کی خاطر ایٹمی توانائی کے محکمے اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے محکمے کو پیش کیا گیا ہے مگر ابھی تک اس کی منظوری نہیں ہو پائی۔

حوالہ جات

ترمیم
  • Kip Thorne, ITP & Caltech. Spacetime Warps and the Quantum: A Glimpse of the Future. Lecture slides and audio
  • Rainer Weiss, Electromagnetically coupled broad-band gravitational wave antenna آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ligo.caltech.edu (Error: unknown archive URL), MIT RLE QPR 1972
  • On the detection of low frequency gravitational waves, M.E.Gertsenshtein and V.I.Pustovoit – JETP Vol.43 p. 605-607 (August 1962) Note: This is the first paper proposing the use of interferometers for the detection of gravitational waves.
  • Wave resonance of light and gravitational waves – M.E.Gertsenshtein – JETP Vol.41 p. 113-114 (July 1961)
  • Gravitational electromagnetic resonance, V.B.Braginskii, M.B.Mensky – GR.G. Vol.3 No.4 p. 401-402 (1972)
  • Gravitational radiation and the prospect of its experimental discovery, V.B.Braginsky – Soviet Physics Vol.86 p. 433-446 (July 1965)
  • On the electromagnetic detection of gravitational waves, V.B.Braginsky, L.P.Grishchuck, A.G.Dooshkevieh, M.B.Mensky, I.D.Novikov, M.V.Sazhin and Y.B.Zeldovisch – GR.G. Vol.11 No.6 p. 407-408 (1979)
  • On the propagation of electromagnetic radiation in the field of a plane gravitational wave, E.Montanari – gr-qc/9806054 (June 11, 1998)
  1. "LSC/Virgo Census"۔ myLIGO۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 نومبر 2015 
  2. ^ ا ب Davide Castelvecchi (15 September 2015)، Hunt for gravitational waves to resume after massive upgrade: LIGO experiment now has better chance of detecting ripples in space-time، Nature News، اخذ شدہ بتاریخ 12 جنوری 2016 
  3. "Major research project to detect gravitational waves is underway"۔ University of Birmingham News۔ جامعہ برمنگھم۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 نومبر 2015 
  4. David Shoemaker (2012)۔ "The evolution of Advanced LIGO" (PDF)۔ LIGO Magazine (1): 8۔ 16 نومبر 2017 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 فروری 2016 
  5. Sarah Zhang (15 September 2015)۔ "The Long Search for Elusive Ripples in Spacetime"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 فروری 2016 
  6. Larger physics projects in the United States, such as Fermilab, have traditionally been funded by the Department of Energy.
  7. "LIGO Fact Sheet at NSF"۔ 31 اکتوبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 فروری 2016 
  8. "Gravitational wave detection a step closer with Advanced LIGO"۔ SPIE Newsroom۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 جنوری 2016 
  9. "Planning for a bright tomorrow: prospects for gravitational-wave astronomy with Advanced LIGO and Advanced Virgo"۔ LIGO Scientific Collaboration۔ 23 December 2015۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 دسمبر 2015 
  10. B. P. Abbott LIGO Scientific Collaboration and Virgo Collaboration (February 11, 2016)۔ "Observation of Gravitational Waves from a Binary Black Hole Merger"۔ Physical Review Letter 116, 061102 (2016)۔ ISSN 0031-9007۔ doi:10.1103/PhysRevLett.116.061102۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2016 
  11. "Gravitational waves detected 100 years after Einstein's prediction" (PDF)۔ LIGO۔ February 11, 2016۔ 03 اپریل 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2016 

مزید بیرونی مطالعہ

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم