ذو الخویصرہ تمیمی

(ذوالخويصرہ سے رجوع مکرر)

ذوالخویصرہ تمیمی سعدی جس کا اصل نام حُرْقُوصْ بِنْ زُھَیْر ہے۔ صحابی تھا اور بیعت شجرہ والوں میں سے تھا۔ مگر یہ اندر سے منافق تھا۔ خوارج کی اصل بنیاد ہے اسے مفسرین نے اصل الخوارج راس الخوارج اوررئیس الخوارج تحریر کیا ہے۔

نام کی وجہ

ترمیم

یہ شخص پستہ قد تھا اسے اس وجہ سے ذوالخویصرہ کہا جاتا تھا ،یہ اس کا لقب تھا اس کا تعلق عرب کا مشہور قبیلہ بنوتمیم سے ہے یہ منافق تھا۔

تاریخی حیثیت

ترمیم

اس کی تاریخی حیثیت کے بارے احمد رضا خان تحریر کرتے ہیں
"وہابی ایک بے دین فرقہ ہے جو محبوبانِ خدا کی تعظیم سے جلتا ہے اور طرح طرح کے حیلوں سے ان کے ذکر و تعظیم کو مٹانا چاہتا ہے ابتدا اس کی ابلیس لعین سے ہے کہ اللہ عزوجل نے تعظیم سیدنا آدم علیہ الصلوۃ والسلام کا حکم دیا اور اس ملعون نے نہ مانا اور زمانہ اسلام میں اس کا ہادی ذوالخویصرہ تمیمی ہوا جس نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآل وسلم کی شانِ ارفع میں کلمہ توہین کہا اس کے بعد ایک پورا گروہ خوارج کا اس طریق پر چلا جن کو امیر المومنین مولٰی علی نے قتل فرمایا لوگوں نے کہا حمد ﷲ کو جس نے ان کی نجاستوں سے زمین کو پاک کیا امیر المومنین نے فرمایا یہ منقطع نہیں ہوئے ابھی ان میں کئی ماؤں کے پیٹوں میں ہیں باپوں کی پیٹھوں میں ہیں، کلما قطع قرن نشاءقرن جب ان میں کی ایک سنگت کاٹ دی جائے گی دوسری سر اٹھائے گی، حتی یکون اٰخرھم یخرج مع المسیح الدجال۔ یہاں تک کہ ان کا پچھلا گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا۔ اس حدیث کے مطابق ہر زمانہ میں یہ لوگ نئے نئے نام سے ظاہر ہوتے رہے"[1]

قرآن میں ذکر

ترمیم

وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّلْمِزُكَ فِي الصَّدَقٰتِ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْہَا رَضُوْا وَاِنْ لَّمْ يُعْطَوْا مِنْہَآ اِذَا ہُمْ يَسْخَطُوْنَ[2]
(اے پیغمبر) ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو صدقات (کی تقسیم) میں تم پر (بے انصافی کا) الزام لگاتے ہیں۔ لیکن اگر ان کو اس میں سے (ان کی خواہش کے مطابق) دے دیا جائے تو خوش ہوجائیں اور اگر (ان کی خواہش کے مطابق) نہ دیا جائے تو بس فوراً یہ بگڑ بیٹھتے ہیں۔
علامہ بغوی اس کا نام حرقوص بن زہیر تحریر کرتے ہیں
نَزَلَتْ فِي ذِي الْخُوَيْصِرَةِ التَّمِيمِيِّ وَاسْمُهُ حُرْقُوصُ بْنُ زُهَيْرٍ أَصْلُ الْخَوَارِجِ [3] یہ آیت کریمہ ذو الخویصرہ کے بارے میں نازل ہوئی اس کا نام حرقوص بن زہیر تھا جو خوارج کی بنیاد ہے۔
علامہ ابن جوزی ابو الخواصر اور ابن ذوالخویصر لکھتے ہیں۔
أنه ذو الخويصرة التّميمي، قال للنبيّ صلى الله عليہ وآلہ وسلم يوماً: اعدل يا رسول الله، فنزلت هذه الآية. ويقال: أبو الخواصر۔ ويقال: ابن ذي الخويصرة.[4] اسے ابو الخواصر اور ابن ذی الخویصر بھی کہا گیا۔
فخر الدین رازی کے بقول اس کا نام مقداد بن ذو الخویصرہ رکھا گیا تھا۔
إِذْ جَاءَهُ الْمِقْدَادُ بْنُ ذِي الْخُوَيْصِرَةِ التَّمِيمِيُّ، وَهُوَ حُرْقُوصُ بْنُ زُهَيْرٍ، أَصْلُ الْخَوَارِجِ۔[5] اسے مقداد بن ذو الخویصرہ کا نام دیا گیا تھا۔

حدیث میں ذکر

ترمیم

ابوسعید خدری فرماتے ہیں کہ جب ہم رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تھے آپ کچھ تقسیم فرما رہے تھے کہ آپ کے پاس چھوٹی کوکھ والا ایک شخص آیا جو بنی تمیم سے تھا، بولا یا رسول ﷲ انصاف کیجئے حضور نے فرمایا تیری خرابی ہو اگر میں انصاف نہ کروں تو کون کرے گا اگر میں انصاف نہ کروں تو تو خائب و خاسر ہو جاوے تو جناب عمر نے کہا مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن مار دوں فرمایا اسے چھوڑ دو کیونکہ اس کے کچھ ساتھی ہوں گے کہ تم میں سے ہر ایک اپنی نمازیں ان کی نمازوں کے مقابلہ میں اور اپنے روزے ان کے روزوں کے مقابلے میں حقیر جانے گا وہ لوگ قرآن پڑھیں گے قرآن ان کے گلوں سے نیچے نہ اترے گا دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے کہ اس کی نوک اس کے پر اس کی قدح یعنی لکڑی اس کے نوک کے نیچے کو دیکھو تو اس میں کچھ نہیں پا جاتا ہے حالانکہ وہ گوبر اور خون میں سے گذرا ہے ان کی نشانی ایک کالا آدمی ہے جس کے بازوں میں سے ایک بازو عورت کے پستان کی طرح ہوگا یا گوشت کی بوٹی کی طرح جو ہلتا ہو یہ لوگ مسلمانوں کے بہترین فرقے کے خلاف خروج کریں گے۔ ابو سعید نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی اور میں گواہی دیتا ہوں کہ جناب علی ابن ابی طالب نے ان لوگوں پر جہاد کیا میں آپ کے ساتھ تھا تو آپ نے اس شخص کے متعلق حکم دیا وہ ڈھونڈا گیا اسے لایا گیا حتی کہ میں نے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بتائی ہوئی علامت پر دیکھا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ ایک شخص آیا دھنسی ہوئی آنکھیں، ابھری پیشانی، گھنی داڑھی، اونچی کنپٹی والا اور سر منڈا ہوا، وہ بولا اے محمد ﷲ سے ڈرو تو فرمایا کہ اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو ﷲ کی اطاعت کون کرے گا مجھے ﷲ تعالٰی زمین والوں پر امین بنائے اور تم مجھے امین نہ جانو ایک شخص نے اس کے قتل کی اجازت مانگی حضور نے منع فرمادیا جب وہ چلا گیا تو حضور نے فرمایاکہ اس کی پشت سے ایک قوم ہوگی جو قرآن پڑھے گی قرآن ان کے گلے سے نہ اترے گا وہ اسلام سے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے اگر میں انھیں پاؤں تو قوم عاد کی طرح قتل کروں۔(مسلم،بخاری)[6]

خلفاء کا ساتھ

ترمیم

خلفاء کا ساتھ حضرت عمر نے اس کی سربراہی میں ایک لشکر ہرمزان کی طرف بھیجا۔

وفات

ترمیم

38ھ میں مولا علی کے نہروان میں بھیجے ہوئے سردار احنف بن قیس کے لشکر کے ہاتھوں مارا گیا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. فتاوی رضویہ احمد رضا خان بریلوی جلد 29 صفحہ 95رضا فاؤنڈیشن لاہور2005ء
  2. التوبہ:58
  3. (تفسير البغوی مؤلف ،أبو محمد الحسين الفراء البغوی،ناشردار إحياء التراث العربی بيروت)
  4. (زاد المسير في علم التفسير مؤلف: ابو الفرج عبد الرحمن جوزی ناشر: دار الكتاب العربی، بيروت)
  5. مفاتيح الغيب تفسير الكبير مؤلف: فخر الدين الرازي خطيب الری ناشر: دار إحياء التراث العربی بيروت
  6. مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، مفتی احمد یار خان، ج 8 ص 152 نعیمی کتب خانہ، گجرات