احنف بن قیس اپنے عہد کے بڑے عاقل،مدبر،حکیم اورحلیم تھے۔

احنف بن قیس
معلومات شخصیت
وفات سنہ 687  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوفہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ محدث  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسبترميم

ضحاک نام،ابو بحرکنیت،عرفی نام احنف ہے،اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ احنف کے پیروں میں خلقی کجی تھی،عربی میں اس کو حنف کہتے ہیں،اس لیے وہ احنف مشہور ہو گئے نسب نامہ یہ ہے احنف ابن قیس بن معاویہ بن حصین بن حفص بن عباد ہ بن نزال بن مرہ بن عبید بن مقاعس بن عمرو بن کعب ابن سعد بن زید مناۃ بن تمیم کے سرداروں میں تھے۔

عہد رسالتترميم

احنف عہد رسالت میں مشرف باسلام ہوئے اوران کا قبیلہ انہی کی تحریک پر اسلام لایا [1] ابن سعد نے ان کے حالات تابعین ہی کے زمرہ میں لکھے ہیں۔ جس روایت سے ان کے اسلام کا نتیجہ نکالا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی کو قبیلہ بنی سعد (احنف کا قبیلہ) میں تبلیغ اسلام کے لیے بھیجا،انہوں نے جاکر اسلام پیش کیا احنف بھی موجود تھے،انہوں نے اسلامی تعلیمات سن کر کہا کہ یہ شخص بھلائی کی طرف بلاتا ہے اوراچھی باتیں سناتا ہے،مبلغ صحابی نے جاکر یہ واقعہ آنحضرتﷺ سے بیان کیا آپ نے سن کر دعا فرمائی کہ خدایا احنف کی مغفرت فرما۔[2]

عہد فاروقیترميم

حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں مدینہ آئے،حضرت عمرؓ کو قبیلہ بنی تمیم کے ساتھ سوظن تھا، اس لیے آپ اکثر اس کی مذمت کیا کرتے تھے،ایک مرتبہ احنف کی موجودگی میں بنی تمیم کا کچھ تذکرہ آیا،آپ نے حسب معمول اس کی مذمت کی،احنف نے کہا آپ نے بلا استثنا پورے قبیلہ بنی تمیم کی برائی کی؛حالانکہ وہ بھی عام انسانوں کی طرح ہیں،ان میں اچھے برے ہر قسم کے لوگ ہیں،حضرت عمرؓ نے سچی بات سن کر فرمایا تم نے سچ کہا اورذکر خیر سے گذشتہ مذمت کی تلافی فرمائی،احنف کے بعد اسی قبیلہ کے ایک اورآدمی حتات نے کچھ کہنا چاہا،مگر حضرت عمرؓ نے روک دیا کہ تم بیٹھ جاؤ ،تمہاری جانب سے تمہارے سردار فرض ادا کرچکے۔

حضرت عمرؓ کی صحبتترميم

اگرچہ حضرت عمرؓ نے احنف کی اصولی بات کی وجہ سے اس کا اعتراف کر لیا تھا،لیکن ان کے قبیلہ کے ساتھ ان کو سؤ ظن تھا،اس لیے بہ تقاضائے احتیاط احنف کی سیرت کا اندازہ لگانے کے لیے اُن کو ایک سال تک اپنے ساتھ مدینہ میں رکھا اورتجربہ کے بعد ان سے کہا کہ میں نے ایک سال تک تمہارا تجربہ کیا،مجھ کو تم میں بھلائی کے سوا اورکوئی قابل اعتراض شے نظر نہ آئی تمہارا ظاہر اچھا ہے ،امید ہے کہ باطن بھی اچھا ہوگا،میں نے یہ اس لیے کیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نےہم لوگوں کو بتایا تھا کہ اس امت کی ہلاکت باخبر منافقین کے ہاتھوں ہوگی۔

ابوموسیٰ اشعریؓ والی بصرہ کو احنف کے بارہ میں حضرت عمرؓ کی ہدایتترميم

اس تجربہ کے بعد حضرت عمرؓ کو جب ان پر کامل اعتماد ہو گیا تو انہیں ان کے وطن بصرہ واپس کر دیا اور ابو موسیٰ اشعریؓ والی بصرہ کو ہدایت کردی کہ ان کو اپنے ساتھ رکھنا،ان سے مشورہ لینا اوران کے مشوروں اورہدایتوں پر عمل کرنا [3]احنف اہل بصرہ کے سردار تھے،حضرت عمرؓ کے اس حکم کے بعد سے احنف کے مراتب روز بروزبلند ہونے لگے۔ [4]

فارس کی مہم میں شرکتترميم

اس وقت ایران پر فوج کشی ہوچکی تھی،بصرہ واپس جانے کے بعد احنف اس میں شریک ہوئے؛چنانچہ 17ھ میں فارس کی مہم میں نظر آتے ہیں۔ [5]

اہل بصرہ کی نمائندگیترميم

احنف بڑے عاقل ومدبر تھے،اس لیے قومی وملکی مہمات میں ان کا نام سرفہرست ہوتاتھا اوراکثر قوم کی نمایندگی کی خدمت اُن کے سپرد ہوتی تھی؛چنانچہ اسی زمانہ میں وہ بصرہ کے وفد میں مدینہ آئے،حضرت عمرؓ نے وفد سے اہل بصرہ کی شکایتیں اورضرورتیں پوچھیں احنف نے جو ضروریات تھیں وہ پیش کیں،حضرت عمرؓ نے اُن کی تقریر بہت پسند کی اورخاندانِ کسری کی بعض مفتوحہ جاگیریں انہیں عطا کیں اور والی بصرہ کو لکھ بھیجا کہ وہ انتظامی امور میں احنف سے صلاح و مشورہ کیا کریں اوران پر عمل کیا کریں [6] پھرا ہواز کی فتح کے بعد مشہور ایرانی افسر ہرمزان کو جس نے خوزستان کی مہم میں سپرڈال دی تھی،لے کر مدینہ آئے۔

ایران پر عام فوج کشی کا مشورہترميم

اس وقت عراق فتح ہوچکا تھا،لیکن ایران پر عام فوج کشی نہ ہوئی تھی اور مفتوحہ علاقے بار بار باغی ہوجاتے تھے،اسی زمانہ میں مجاہدین کا وفد مدینہ آیا ،حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا کہ ایرانی بار بار باغی کیوں ہوجاتے ہیں، معلوم ہوتا ہے مسلمان انہیں ستاتے ہیں مسلمانوں نے اس کی تردید کی،لیکن کوئی حضرت عمرؓ کے سوال کا تشفی بخش جواب نہ دے سکا،احنف کا دماغ نہایت نکتہ رس تھا،یہ اصل تہ تک پہنچ گئے،انہوں نے کہا،اس کی وجہ یہ ہے کہ امیر المومنین نے مسلمانوں کو ایران کے اندرون ملک فوج کشی سے روک دیا ہے اورسلطنت کا وارث تاج وتخت ملک میں موجود ہے،جب تک وہ باقی رہے گا ایرانی اس کے سہارے پر برابر بغاوت کرتے رہیں گے؛کیونکہ ایک ملک میں دوحکومتیں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتیں، ایران کا بادشاہ ایرانیوں کوابھارتا رہتا ہے،اس لیے جب تک ہم لوگ ایران کے اندر فوج کشی کرکے اس کو ختم نہ کر دیں گے اس وقت تک ایرانیوں کی یہی روش رہے گی،جب وہ لوگ اپنی حکومت سے بالکل مایوس ہوجائیں گے اس وقت خاموش ہوں گے، حضرت عمرؓ نے ان کی تقریر کو سن کر فرمایا تم سچ کہتے ہو اوران کے مشورہ کے مطابق ایران پر عام فوج کشی کے انتظامات شروع کر دیے اور ہر ہر صوبے پر علاحدہ علاحدہ فوجیں روانہ کیں۔ [7]

یزدگرد کااستیصالترميم

چونکہ یزدگرد کے استیصال کا مشورہ احنف ہی نے دیا تھا اور وہ اپنے دل و دماغ کے لحاظ سے اس مہم کے لیے سب سے زیادہ موزوں تھے، اس لیے خراسان کی مہم جہاں یزد گرد پناہ گزیں تھا، حضرت عمرؓ نے انہی کے سپرد کی،یہ 22ھ میں خراسان کی طرف بڑھے اورطبسین ہوکر ہرات پہنچےاور اس کو فتح کرکے مرد شاہجہاں کا جہاں یزد گرد مقیم تھا رخ کیا،وہ ان کی پیش قدمی کی خبر سن کر مروالروز چلا گیا یہاں پہنچ کر خاقان چین اوردوسرے سرحد ی حکمرانوں کو مدد کے لیے خطوط لکھے،یزد گرد کے مروالروز جانے کے بعد احنف مرد شاہجہاں میں حارثہ بن نعمان باہلی کو چھوڑ کر مرد کی طرف بڑھے،ان کا رخ دیکھ کر یزد گردیہاں سے بھی بھاگا اوربلخ پہنچا،اس دوران میں کوفہ سے تازہ دم امداد ی فوجیں آگئیں،احنف نے انہیں لے کر بلخ پر حملہ کر دیا ،یزد گرد شکست کھاکر دریاپارخاقان کے حدود حکومت میں چلا گیا،اس کے بعد احنف نے خراسان کے تمام علاقوں میں فوجیں پھیلادیں خراسانی نہیں نہ روک سکے اور نیشا پور سے طخارستان تک کا پورا علاقہ صلحاً فتح ہو گیا اور احنف نے مروالروذواپس ہوکر حضرت عمرؓ کو فتح کا مژدہ لکھا، آپ فتوحات کا دائرہ ایران سے آگے نہیں بڑھانا چاہتے تھے،اس لیے دریا پار پیش قدمی کرنے سے روک دیا۔

یزد گرد کے حدود چین میں داخل ہونے کے بعد خاقان چین نے اس کی بڑی پزیرائی کی اورایک لشکر جرار کے ساتھ اس کی مد د کے لیے خراسان پہنچا اورسیدھا بلخ کی طرف بڑھا بلخ کی اسلامی فوجیں احنف کے ساتھ مروالروزواپس جاچکی تھیں اس لیے یزد گرد اورخاقان دونوں بلخ ہوتے ہوئے مرو کی طرف بڑھے،یزد گرد مروشاہجہاں جہاں اس کا خزانہ تھا،چلاگیا احنف اوریزدگرد کا مقابلہ ہوا،احنف نے پہاڑ کے دامن میں صف آرائی کی فریقین میں عرصے تک صبح شام معمولی جھڑپ ہوتی رہی،ایک دن احنف خود میدان میں نکلے،خاقان کی فوج سے ایک بہادر ترک طبل اوردمامہ بجاتا ہوا ،مقابل میں آیا، احنف نے اس کا کام تمام کر دیا ،اس کے بعد دو اوربہادر یکے بعد دیگرے مقابلہ میں آئے،مگر دونوں احنف کی تلوار کا لقمہ بنے،اس کے بعد ترکوں کا پورا لشکر آگے بڑھا،خاقان کی نظر لاشوں پر پڑی اس نے فال بدلی ،یزد گرد کی حمایت میں اس کا کوئی خاص فائدہ نہ تھا اورمسلمانوں کو زیر کرنا بھی آسان نہ تھا، اس لیے اس نے کہا ہم کو یہاں آئے ہوئے بہت دن ہو گئے ہیں،ہمارے بہت سے نامور بہادر قتل ہوچکے ہیں،ہم کو ان لوگوں سے لڑنے میں کوئی فائدہ نہیں نظر آتا اورفوج کو کوچ کا حکم دے دیا۔

اس وقت یزد گرد مروشاہجہاں میں تھا،اس کو خاقان کی واپسی کی خبر ملی تو اس کی ہمت چھوٹ گئی اوراس نے خزانہ لے کر ترکستان نکل جانا چاہا،ایرانیوں نے اس کو اس ارادہ سے روکا اورکہا کہ ترکوں کا کوئی دین و مذہب نہیں ہے اورنہ ان کے عہدو پیمان کا ہمیں کوئی تجربہ ہے مسلمان بہرحال صاحب مذہب اور عہد کے پابند ہیں،اس لیے اگر آپ کو ملک ہی چھوڑنا ہے تو مسلمانوں سے صلح کرلیجئے؛ لیکن یزدگرد نے اس مشورہ کو قبول کرنے سے انکار کیا ،ایرانیوں نےجب دیکھا کہ ان کے ملک کی دولت دوسرے ملک میں نکلی جارہی ہے،تو لڑکر یزدگردسے کل خزانہ چھین لیا اور وہ شکست کھا کر ترکستان چلا گیا اور حضرت عمرؓ کے زمانہ تک خاقان کے پاس مقیم رہا۔

یزدگرد کے ترکستان چلے جانے کے بعد ایرانیوں کا آخری سہارا بھی جاتا رہا اور انہوں نے مایوس ہوکر احنف سے صلح کرلی اوریزد گرد کا کل خزانہ ان کے حوالہ کر دیا،احنف نے اُن کے ساتھ ایسا شریفانہ برتاؤ کیا کہ انہیں اس کا افسوس ہوا کہ وہ اب تک مسلمانوں کی حکومت سے کیوں محروم رہے۔

ایک پر اثر تقریبترميم

اس مصالحت کے بعد احنف نے حضرت عمرؓ کو فتح کی اطلاع بھجوائی اور مسلمانوں کو جمع کرکے ایک پر اثر تقریر کی،جواپنی اثر پذیری کے اعتبار سے آج بھی مسلمانوں کے لیے درس بصیرت ہوسکتی ہے،تقریر یہ تھی۔ مسلمانو!آج مجوسیوں کی حکومت برباد ہو گئی اوراب ان کے قبضہ میں ان کے ملک کا ایک چپہ بھی باقی نہیں رہا کہ وہ مسلمانوں کو کسی قسم کا نقصان پہنچا سکیں،خدانے اب تم کو ان کی زمین،ان کے ملک اوران کے اہل ملک کا وارث بنایا ہے تاکہ تمہارا امتحان لے،اگر تم بدل گئے تو خدا بھی تمہاری جگہ دوسری قوم کو بدل دے گا،مجھے مسلمانوں ہی کے ہاتھوں سے ان کی بربادی کا خوف ہے۔ [8]

عہد عثمانیترميم

حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں جب ایران میں بغاوت ہوئی اورخراسان مسلمانوں کے قبضہ سے نکل گیا،اس وقت احنف ہی نے فوج کشی کرکے دوبارہ اس پر قبضہ کیا۔ [9]

خانہ جنگی سے اجتناب اورحضرت علیؓ کے ہاتھوں پر بیعتترميم

حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد جب مسلمانوں میں خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہوا اوراس وقت احنف نے اپنی تلوار میان میں کرلی؛چنانچہ جب حضرت علیؓ اورحضرت عائشہؓ میں اختلافات شروع ہوئے،اس وقت احنف نے جو مکہ میں تھےحضرت عائشہؓ،طلحہؓ اورزبیرؓ سے مل کر اصل حقیقت کا اندازہ کرکے حضرت علیؓ کے ہاتھوں پر بیعت کرلی [10] لیکن جنگ میں کسی جانب سے حصہ نہ لیا[11] حضرت عائشہؓ نے بھی انہیں اپنے ساتھ آنے کی دعوت دی لیکن اس وقت وہ بیعت کرچکے تھے۔

جنگ صفین میں شرکتترميم

البتہ جب حضرت علیؓ اورامیر معاویہؓ میں جنگ چھڑی ،اس وقت ان کی حق شناس تلوار میان میں نہ رہ سکی اورانہوں نے حضرت علیؓ کی حمایت میں نہایت پرجوش حصہ لیا اوراہل بصرہ کو ان کی امداد واعانت پر آمادہ کیا۔ [12] جنگ صفین کے التواء پر جب تحکیم کا مسئلہ پیش ہوا اورحضرت علیؓ کی جانب سے ابو موسیٰ اشعریؒ کا نام لیا گیا،اس وقت احنف نے سخت مخالفت کی اورکہا آپ کو عرب کے مدبر اعظم سے سابقہ پڑا ہے ،ابو موسیٰ کا مجھ کو خوب تجربہ ہے،وہ اس اہم کام کے اہل نہیں ہیں اس کے لیے نہایت چالاک اور عاقل شخص کی ضرورت ہے اگر ہو سکے تو آپ مجھے حکم بنائیے اوراگر اس کے لیے صحابی ہونا ضروری ہے تو آپ کسی اورصحابی کو منتخب کیجئے اور مجھ کو اس کا مشیر بنائیے لیکن عراقی قوم کا فیصلہ ابوموسیٰؓ کے حق میں تھا، اس لیے حضرت علیؓ احنف کے خیر خواہانہ اورزرین مشورہ پر عمل پیرا نہ ہو سکے (ایضاً:206) جنگِ صفین کے بعد خوارج پر فوج کشی میں بھی حضرت علیؓ کے ساتھ تھے اورکئی ہزار اہل بصرہ کو آپ کی مدد کے لیے لے گئے۔ [13]

امیر معاویہؓ کی اطاعت اورآزادی رائےترميم

حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد امیر معاویہ کی خلافت تسلیم کرلی،لیکن اس وقت بھی انہوں نے آزادی اورحق گوئی کا جوہر قائم رکھا اورامیر معاویہؓ کی ہر جائز و ناجائز خواہش کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے تھے؛بلکہ ان کے نزدیک ان کا جو فعل درست نہیں ہوتا تھا،اس پر نہایت جرأت کے ساتھ اپنی رائے ظاہر کرتے تھے،امیر معاویہؓ نے جب یزید کی ولیعہدی کے لیے تمام ممالک محروسہ سے وفود طلب کیے،تواحنف بھی بصرہ کے وفد کے ساتھ آئے ،امیر معاویہؓ نے ان سے بھی یزید کی ولیعہدی کے بارہ میں پوچھا انہوں نے کہا امیر المومنین آپ یزید کے شبانہ یوم کے مشاغل، اس کے ظاہر اورمخفی حالات،اس کے آنے جانے کے مقامات سے اچھی طرح واقف ہیں،اگر اس واقفیت کے بعد بھی آپ اس کو خدا اورامت محمدی کے لیے بہتر سمجھتے ہیں تو اس میں مشورہ کی ضرورت نہیں اور اگر بہتر نہیں سمجھتے ،تو ایسی حالت میں کہ آپ کو عنقریب آخرت کا سفر پیش آنے والا ہے یزید کو دنیا کا توشہ نہ دیجئے ،ورنہ یوں ہمارا فرض ہے کہ آپ جو کچھ فرمائیں ہم اُس کو بجالائیں۔ [14]

امیر معاویہؓ پر ان کا اثرترميم

لیکن ان کی حق پرستی اورصاف گوئی کے باوجود امیر معاویہؓ ان کی بڑی قدر ومنزلت کرتے تھے اوربڑے بڑے عمال کو ان کے اشارہ پر معزول کردیتے تھے،عبید اللہ بن زیاد امیر معاویہؓ کے نہایت معتمد علیہ اوران عمال میں تھا جنھوں نے اموی حکومت کی بنیاد مستحکم کی تھی، اس کا طرز عمل احنف کے ساتھ پسندیدہ نہ تھا،59ھ میں عبید اللہ چند عمائد کوفہ کے ساتھ جس میں احنف بھی تھے،امیر معاویہؓ کے پاس شام آیا،امیر معاویہؓ حسب معمول احنف کے ساتھ بڑے تپاک سے پیش آئے اور انہیں اپنے ساتھ تخت شاہی پر بٹھا دیا،عمائد بصرہ نے عبید اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے امیر معاویہ کے سامنے اُس کی بڑی تعریفیں کیں،احنف کی رائے ان سب کے خلاف تھی،اس لیے وہ خاموش رہے،امیر معاویہؓ نےپوچھا ابو بحر تم کیوں نہیں بولتے،انہوں نے جواب دیا، اگر میں بولوں گا تو قوم کی مخالفت ہوگی،ان کا خیال سن کر امیر معاویہ نے اسی وقت عبید اللہ کو معزول کر دیا اوراہل بصرہ سے کہا تم لوگ جس والی کو پسند کرتے ہو اس کو پیش کرو، ان لوگوں نے امیر معاویہؓ کی خوشامد میں اموی خاندان اورشامیوں میں سے انتخاب کیا،احنف اس وقت بھی خاموش رہے اورکسی کو پیش نہیں کیا امیر معاویہؓ نے پیش کرنے والوں سے پوچھا تم نے کسے منتخب کیا؛چونکہ ان میں سے ہر شخص کا انتخاب جداگانہ تھا، اس لیے کسی ایک شخص پر اتفاق نہ ہو سکا احنف بالکل خاموش تھے ،امیر معاویہؓ نے ان سے کہا تم کیوں نہیں بولتے یہ منتخب کرنے والوں کارنگ دیکھ چکے تھے،اس لیے انہوں نے کہا اگر آپ کو اپنے خاندان والوں میں سے کسی کو والی بنانا ہے،تو ایسی صورت میں ہم عبید اللہ ہی کو ترجیح دیں گے اوراگر کسی تیسرے شخص کو بنانا ہو اس میں جو آپ کی رائے ہو، ان کا منشا سن کر معاویہ نے عبید اللہ ہی کو برقرار رکھا اوراس کو احنف کے نظر انداز کرنے پر ملامت اورآیندہ ان کے ساتھ حسن عمل کی تاکید کی۔ [15]

یزید کی خلافتترميم

امیر معاویہؓ کی وفات کے بعد احنف نے یزید کی خلافت تسلیم کرلی ،حضرت امام حسینؓ جب یزید کے مقابلہ کے لیے اُٹھے تو احنف کو بھی امداد کے لیے خط لکھا [16] لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے آپ کا ساتھ نہیں دیا اور یزید کی بیعت پر قائم رہے۔ ابن زبیرؓ کی حمایت: یزید کی موت کے بعد جب اموی حکومت میں انقلاب برپا ہوا اورعراق سے اموی حکومت اُٹھ گئی ،اس وقت بصریوں کی رہنمائی کرتے رہے، اس سلسلہ میں ان کے قبیلہ بنی تمیم اوربعض دوسرے قبائل میں کچھ ہنگامہ آرائیاں ہوئیں،پھر جب عراق عبد اللہ بن زبیرؓ کے قبضہ میں آگیا،اس وقت احنف ان کے ساتھ ہو گئے،ان کے زمانہ میں بھی احنف کا قدیم اعزاز و وقار قائم رہا،ابن زبیرؓ کے حکام ان سے صلاح ومشورہ کرتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے؛چنانچہ جب عراق میں خوارج کا زور بڑھا اوراس کا اثر بصرہ تک پہنچا اس وقت احنف ہی کی تحریک سے مشہور سپہ سالار مہلب بن ابی صفرہ خوارج کے مقابلہ پر مامور کیے گئے۔ [17]

عبد اللہ بن زبیرؓ کے دورخلافت میں مختار ثقفی نے جب عراق پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اس وقت احنف نے ابن زبیرؓ کی حمایت میں مختار کے داعی مثنی کو عراق سے نکالا [18] لیکن رفتہ رفتہ جب عراق میں مختار کا اثر نفوذ کرنے لگا، اس وقت احنف نے ابن زبیر کے بھائی مصعب کے ساتھ مل کر مختار کے آدمیوں کا مقابلہ کیا۔ [19] اسی زمانہ میں عبد اللہ بن زبیرکے اصل حریف عبدالملک اموی نے احنف کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی؛لیکن گذشتہ تجربات کے بعد سے یہ امویوں کے سخت خلاف ہو گئے تھے اس لیے انہوں نے نہایت سخت جواب دیا کہ ابن زرقاء مجھے شامیوں کی دوستی کی دعوت دیتا ہے،خدا کی قسم میں چاہتا ہوں کہ میرے اوراس کے درمیان آگ کا پتھر حائل ہوجاتا کہ نہ اس کے آدمی ادھر آسکتے اورنہ میرے آدمی ادھر جاسکتے۔ [20]

وفاتترميم

عبد اللہ بن زبیرؓ کے بھائی مصعب والی کوفہ کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے،احنف ان سے ملنے کے لیے کوفہ گئے،یہیں انتقال ہو گیا (ایضاً:69) ابن عماد حنبلی کے بیان کے مطابق یہ 72 ھ تھا ۔ [21]

فضل وکمالترميم

علمی اعتبار سے احنف کوئی قابل ذکر شخصیت نہ رکھتے تھے،تاہم اکابر صحابہ کی صحبت اٹھائی تھی،اس لیے علم سے تہی دامن نہ تھے،حضرت عمرؓ،حضرت علیؓ،حضرت عثمانؓ،حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ،حضرت عبد اللہ بن سعدؓ اورحضرت ابوذرؓ جیسے اجلہ صحابہ سے انہوں نے سماع حدیث کیا تھا اوراُن سے ان کی روایات موجود ہیں،خود ان سے استفادہ کرنے والوں میں حسن بصری ابوالعلا بن شخیراورطلق بن حبیب وغیرہ لائق ذکر ہیں۔ [22]

عقل ودانشترميم

ان کی فضیلت کا میدان مسند علم کی بجائے خارزار سیاست تھا،وہ اپنے عہد کے بڑے عاقل،مدبر،حکیم اورحلیم تھے [23] ان کے بارہ میں لوگوں کی رائے تھی کہ کسی قوم میں احنف سے بہتر شریف نہیں دیکھا گیا [24] جب ان کی وفات ہوئی تو مصعب نے کہا آج سے حزم اور رائے کا خاتمہ ہو گیا۔ [25]

عبادت وریاضتترميم

عام طور سے غیر معمولی عقل ودانش اورتدبر کے ساتھ زہد وتقویٰ اورعبادت وریاضت کا اجتماع کم ہوتا ہے،لیکن احنف جس درجہ کے مدبر تھے،اسی درجہ کا اُن میں زہد و تقویٰ تھا،اُن کی عبادت کا خاص وقت پر دۂ شب تھا، جب دنیا خواب شیریں کے مزے لیتی تھی،اس وقت وہ اپنے رب کے حضور میں اظہار عبودیت کرتے تھے،اسی وقت وہ اپنے اعمال کا جائزہ بھی لیتے تھے،ابو منصور کا بیان ہے کہ احنف کی نماز کا وقت عموماً رات کو ہوتا تھا، وہ چراغ جلا کر اس کی لو پر انگلی رکھتے اورنفس سے خطاب کرکے کہتے تجھ کو فلاں فلاں دن فلاں فلاں کام کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا۔ [26] ضعف پیری میں جب کہ قویٰ روزے کے متحمل نہ رہ گئے تھے،سعید بن زید کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سنا کہ کسی نے احنف سے کہا کہ اب آپ کے قویٰ بہت ضعیف ہو گئے ہیں،روزے آپ کو اورزیادہ کمزور کر دیں گے جواب دیا میں اس کو ایک بہت لمبے سفر کے لیے تیار کرتا ہوں۔ [27]

قرآنترميم

قرآن کی تلاوت سے خاص شغف تھا، جب تنہائی ہوتی تو فوراً قرآن لے کر بیٹھ جاتے۔(ایضاً:67) ان عبادتوں پر بھی پورا اعتماد نہ تھا،خداسے عرض کیا کرتے تھے خدایا اگر تو میری مغفرت کر دے تو یہ تیری رحمت ہے اور اگر سزادے تو میں اس کا مستحق ہوں۔ [28]

طہارت میں غلوترميم

طہارت میں اتنا غلوتھا کہ سخت سے سخت موسم میں بھی تیمم نہ کرتے تھے اوربرف آلود پانی کی ٹھنڈک برداشت کرلیتے تھے،خراسان کی مہم کے زمانہ میں ایک شب کو نہانے کی حاجت ہو گئی،سردی کا موسم تھا، وہ بھی خراسان کی سردی،رات بھی ٹھنڈی تھی،احنف نے کسی خادم اورسپاہی تک کو نہ جگایا اوراسی وقت تن تنہا پانی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے راستہ میں کانٹے دار جھاڑیاں تھیں ان کو روندتے ہوئے آگے بڑھے کانٹوں کی خراش سے دونوں پاؤں لہو لہان ہو گئے بالآخر ایک برف کی تہ تک پہنچے اور اس کو توڑ کر برف آلودپانی سے غسل کیا۔ [29]

حق گوئیترميم

نہایت حق گو اور حق پرست تھے،سلاطین اور امرا کے سامنے بھی ان کی زبان اظہار حق میں باک نہ کرتی تھی،یزید کی ولیعہدی کے مسئلہ میں اظہار رائے کا واقعہ اوپر گزرچکا ہے ایک اورکسی موقع پر اسی قبیل کا کوئی اختلافی مسئلہ پیش آیا تھا اورلوگ اپنی اپنی رائے ظاہرکرتے تھے لیکن احنف خاموش تھے،امیر معاویہؓ نے ان سے کہا ابو بحر تم بھی کچھ بولو ،انہوں نے کہا کیا بولوں،اگر جھوٹ بولتا ہوں تو خدا کا خوف ہے اور اگر سچ بولتا ہوں تو تم لوگوں کا ڈر ہے۔ [30]

حلمترميم

ضبط وتحمل ان کاخاص وصف تھا،علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ ان کے مناقب بہ کثرت ہیں ان کا حلم ضرب المثل تھا[31] لیکن خود ہمیشہ انکسارا ً کہتے تھے کہ میں حقیقۃ حلیم نہیں ہوں؛بلکہ اپنے کو حلیم دکھانا چاہتا ہوں۔ [32]

بعض اصولترميم

احنف کے بعض اصول ایسے تھے کہ وہ ہر شخص کے لیے لائق عمل ہیں فرماتے تھے کہ میں تین کاموں کے کرنے میں زیادہ جلدی کرتا ہوں،نماز پڑھنے میں جب اس کا وقت آجائے،جنازہ دفن کرنے میں اور لڑکی کی شادی کرنے میں جب اُس کی نسبت ہوجائے۔ [33]

اجمالی تبصرہترميم

ابن عماد حنبلی لکھتے ہیں کہ وہ سادات تابعین میں تھے،ان کا حکم مثالاً پیش کیا جاتا تھا،حسن بصری فرماتے تھے کہ میں نے کسی قوم کے شریف کو احنف سے افضل نہیں پایا، انہوں نے متعدد خلفاء کا عہد پایا تھا،ان میں سے کسی خلیفہ نے ایک شخص سے ان کے اوصاف پوچھے اس نے کہا اگر آپ ایک وصف سننا چاہتے ہوں تو ایک بتاؤں،اگر دوچاہتے ہوں تو دوبتاؤں، اگر تین چاہتے ہوں تو تین بتاؤں، خلیفہ نے کہا دو بتاؤ،اس شخص نے کہا وہ بھلائی کرتے تھے اوربھلائی کو پسندکرتے تھے اور شر سے بچتے تھے اور اس سے بغض رکھتے تھے،خلیفہ نے کہا اچھا تین اوصاف بتاؤ اس شخص نے کہا کسی پر حسد نہیں کرتے تھے،کسی پر بیجا زیادتی اورظلم نہیں کرتے تھے اورکسی کو اس کے حق سے نہیں روکتے تھے،خلیفہ نے کہا ایک وصف بیان کرو اس شخص نے کہا کہ وہ اپنے نفس کے سب سے بڑے حکمران تھے۔ [34]

حوالہ جاتترميم

  1. شذرات الذہب :1/78
  2. ابن سعد،ق1:7/66
  3. (ابن سعد،ق1 ،:8/66)
  4. (اسد الغایہ:1/55)
  5. (ابن اثیر:2/440)
  6. (ایضاً:2/224،225)
  7. (ابن اثیر:2/439،440)
  8. (ابن اثیر :3/36،29 ملحضاً)
  9. (ایضاً:96،99)
  10. (ابن اثیر:2/195)
  11. (اخبار الطوال:157)
  12. (ایضاً:176)
  13. (ابن اثیر:3/414)
  14. (ابن اثیر:3/421)
  15. (ابن اثیر:3/431)
  16. (ابن اثیر:3/431)
  17. (ایضاً:281)
  18. (ابن ثیر:4/203)
  19. (اخبار الطوال:313)
  20. (ابن سعد،ق1،ص68)
  21. (شذرات الذہب :1/78)
  22. (تہذیب التہذیب :1/151)
  23. (استیعاب:1/55)
  24. (ابن سعد،جلد7ق1،ص:67)
  25. (تہذیب التہذیب :1/191)
  26. (ابن سعد،جلد7،ق اول،ص:67)
  27. (ایضاً:68)
  28. (ابن سعد،جلد7،ق1،ص:68)
  29. (ابن سعد،جلد7،ق 1ول:67)
  30. (ابن سعد،جلد7،ق ا،ص:67)
  31. (تہذیب التہذیب:1/91)
  32. (ابن سعد،ج،ق اول،ص:67)
  33. (ایضاً ،جلد7،ق اول:165)
  34. (شذرات الذہب :1/78)