منافق

ایک اسلامی اصطلاح

منافق۔ اسم فاعل نفاق کرنے والا مرد۔ دورخی کرنے والا۔ یعنی زبان و عمل سے بظاہر مسلمان اور دل سے اسلام کے خلاف عقیدہ رکھنے والا ۔

معنی ترمیم

یہ نافقاء ونفقۃ سے ہے۔ جس کے معنی ہیں گوہ (جنگلی چوہا) کا بھٹ۔۔ جس کے کم از کم دو منہ ہوتے ہیں ایک دہانے سے گوہ اس میں داخل ہوتی ہے شکاری اس طرف متوجہ ہوتا ہے تو دوسرے سوراخ سے باہر نکل جاتی ہے [1]۔

اصطلاحی معنی ترمیم

اصطلاح قرآنی میں نفاق اور منافقت اسی دورخی کا نام ہے بظاہر زبان سے آدمی مومن ہونے کا اقرار کرتا ہے اور دکھاوے کی نمازیں بھی پڑھتا ہے لیکن دل میں کافر رہتا ہے اسلام کے خلاف عقیدہ رکھتا ہے ایسے آدمی کو عرف شریعت میں منافق کہا جاتا ہے۔ لیکن اگر عقیدہ مؤمنانہ ہو اور عمل کافرانہ تو دورخی کی ایک یہ بھی شکل ہوتی ہے ایک دروازے سے آدمی اسلام کے دائرے میں داخل ہوتا ہے اور دوسرے راستہ سے خارج ہوتا ہوا نظر آتا ہے لیکن قرآنی اصطلاح میں ایسے آدمی کو منافق نہیں کہا جاتا بلکہ فاسق اور عاصی کہا جاتا ہے (شرح عقائد نسفی) [2]

مثال ترمیم

منافق نفق سے ماخوذ ہے، جس کا معنی سرنگ ہے۔ اور بعض نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ لومڑی اپنے بل کے دو منہ رکھتی۔ ایک کا نام نافقاء اور دوسرے کا نام قاصعاء ہے۔ ایک طرف سے وہ داخل ہوتی ہے۔ جب کوئی شکاری اس کا تعاقب کرتا ہے تو دوسری طرف سے نکل جاتی ہے۔ اور اگر دوسری جانب سے اس کا کوئی تعاقب کرتا ہے تو پہلے سوراخ سے نکل جاتی ہے۔ کیونکہ اس کے بل کی ایک طرف کا نام نافقاء ہے، اسی سے منافق ماخوذ ہے۔ اس کے بھی دو پہلو ہیں ایک کفر جو اس کے دل میں ہے دوسرا ایمان جو اس کی زبان پر ہے۔ اگر کفر سے اسے کسی نقصان کا اندیشہ ہو تو وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے لگتا ہے۔ اور اگر اسلام کے باعث اسے کوئی تکلیف پہنچ رہی ہو تو فوراً اپنے کافر ہونے کا اعلان کردیتا ہے۔ یعنی وہ حقیقت میں عقیدے کا نہیں، مفاد کا آدمی ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کی زبان اور دل میں ہم آ ہنگی نہیں ہوتی۔ وہ دل میں اپنے مفادات کی پرورش کرتا رہتا ہے اور زبان پر اس بات کو لاتا ہے جس سے اس کے دل میں اگنے والی فصل کی آبیاری ہو سکے۔[3]

نفاق کی قسمیں ترمیم

نفاق کی دو قسمیں ہیں : ( 1 ) نفاقِ عملی ( 2 ) نفاقِ اعتقادی

نفاق عملی ترمیم

نفاقِ عملی کی تعریف یہ ہے کہ آدمی اسلام میں دل سے داخل ہو لیکن عملِ اسلام میں کمزورہو نفاق عملی رکھنے والے کو فاسق بھی کہا جاتا ہے۔

نفاقِ عملی کی شکلیں ترمیم

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ’’ الفوزالکبیر فی اصول التفسیر ‘‘ میں نفاقِ عملی کی 6 شکلیں تحریر فرمائی ہیں :

  1. اپنی قوم کی موافقت کہ اگر و ہ اسلام پر باقی رہے تو یہ بھی باقی رہیں گے ورنہ یہ بھی اسلام ترک کر دیں گے ۔
  2. نفاقِ عملی کی ایک شکل یہ تھی کہ دل میں دنیا کی محبت پوری طرح بھری تھی ، اب اس میں محبتِ رسول اور محبتِ اسلام کے لیے کوئی جگہ باقی نہ تھی ۔
  3. ایسے لوگ بھی تھے جن کے سینوں میں حسد ، کینہ ، بغض اورمال کی حرص کی آگ ایسی بھڑ گ رہی تھی کہ توجہ الی اللہ اورمناجات کے لیے سینوں میں جگہ ہی نہ تھی ۔
  4. دنیاوی اورمعاشی کا موں میں مشغولیت اورآخرت سے غفلت بھی نفاقِ عملی کی ایک شکل تھی ۔
  5. ایسے بھی لوگ تھے جو کمزور مسلمان تھے ، ان کے دلوں میں رسالتِ محمدی کے بارے میں شک وشبہ آتا رہتا تھا ۔
  6. قبیلوں کی محبت اور تعصب بھی نفاقِ عملی کی ایک شکل میں داخل تھا ۔

نفاقِ عملی کا حکم ترمیم

نفاقِ عملی کا حکم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو توبہ کرنے سے معاف کر دیں گے ، اگر کوئی بغیر توبہ کیے مرگیا ، تو نفاقِ عملی کی سزا کے لیے دوزخ میں جائے گا ، پھر اس کی سزا پوری ہو کر اس کو جنت میں داخل کیاجائے گا ۔ نفاقِ عملی گناہ کبیرہ کے مثل ہے ۔

نفاقِ اعتقادی ترمیم

نفاقِ اعتقادی کی تعریف یہ ہے کہ آدمی اسلام میں دل سے نہ داخل ہو ، دل میں کفر رکھے اورظاہر میں اسلام ۔

نفاقِ اعتقادی کا حکم ترمیم

نفاقِ اعتقادی کا حکم یہ ہے کہ ایسے منافق کوجو نفاقِ اعتقادی رکھتا ہو ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ’’ ان المنا فقین فی الدرک الاسفل من النار ‘‘ نفاق اعتقادی والے منافق ہی کے بارے میں ہے ۔


حوالہ جات ترمیم

  1. تبریزی
  2. انوار البیان فی حل لغات القرآن جلد4 صفحہ303 ،علی محمد، سورہ المنافقون، آیت1،مکتبہ سید احمد شہید لاہور
  3. تفسیر روح القرآن، ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی، المنافقون، آیت1