ذکرِ خفی یاذکر قلب کا مطلب ہے اللہ کو دل کی دھڑکنوں کے ساتھ یاد کرنا۔ ذکرِ قلب کے حامل کو ذاکرِ قلبی کہا جاتا ہے۔[1]

ذکر خفی ترمیم

ذکر خفی سے مراد وہ ذکر جو مخفی اور پوشیدہ ہو حضرات نقشبندیہ کے ہاں ذکر خفی سب سے افضل ہے اسے ذکرقلب اوردوامی بھی کہا جاتا ہے۔ ذکر اللہ خواہ قلبی ہو یا زبانی انفرادی ہو خواہ اجتماعی، اس کی فضیلت و اہمیت مسلم ہے۔ لیکن قرآن و حدیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ذکرِ قلبی کی فضیلت بدرجہا ذکرِ زبانی سے زیادہ ہے۔ البتہ اگر اللہ تعالیٰ کسی بندے پر خصوصی فضل فرمانا چاہے اور اپنے حضور اسے خوش قسمت بندہ لکھ دے اور اس کو یہ توفیق دے کہ ہر وقت زبانی ذکر بھی کرتا رہے اور اس کا دل بھی اسی کے موافق ذکر میں شاغل رہے اور اسے زبانی ذکر سے قلبی ذکر کی طرف ترقی حاصل ہو جائے۔ یہاں تک کہ اگر زبان خاموش ہو پھر بھی دل خاموش نہ ہو، اسی کو ذکرِ کثیر کہا جاتا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جا رہے تھے۔ لوگ بلند آواز سے اللہ اکبر، اللہ اکبر کہنے لگے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرماا، اے لوگو ! اپنے اوپر نرمی کرو، تم کسی بہرے کو پکار رہے ہو نہ غائب کو تم سمیع اور قریب کو پکار رہے ہو اور وہ تمھارے ساتھ ہے۔[2]

ذکر خفی قرآن میں ترمیم

ذکر قلب قرآن و حدیث میں موجود ہے
تفسیر خزائن العرفان میں سورۃ البقرہ آیت152 کے ذیل میں لکھا ہے فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ ذکر تین طرح کا ہوتا ہے۔
# لسانی
# قلبی
# بالجوارح۔ ذکر لسانی تسبیح، تقدیس، ثناء وغیرہ بیان کرنا ہے خطبہ توبہ استغفار دعا وغیرہ اس میں داخل ہیں۔ ذکر قلبی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا یاد کرنا اس کی عظمت و کبریائی اور اس کے دلائل قدرت میں غور کرنا علما کا استنباط مسائل میں غور کرنا بھی اسی میں داخل ہیں۔ ذکر بالجوارح یہ ہے کہ اعضاء طاعت الہٰی میں مشغول ہوں جیسے حج کے لیے سفر کرنا یہ ذکر بالجوارح میں داخل ہے نماز تینوں قسم کے ذکر پر مشتمل ہے تسبیح و تکبیر ثناء و قراءت تو ذکر لسانی ہے اور خشوع و خضوع اخلاص ذکر قلبی اور قیام، رکوع و سجود وغیرہ ذکر بالجوارح ہے۔ ابن عباس نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم طاعت بجالا کر مجھے یاد کرو میں تمھیں اپنی امداد کے ساتھ یاد کروں گا صحیحین کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر بندہ مجھے تنہائی میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو ایسے ہی یاد فرماتا ہوں اور اگر وہ مجھے جماعت میں یاد کرتا ہے تو میں اس کو اس سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں۔ قرآن و حدیث میں ذکر کے بہت فضائل وارد ہیں اور یہ ہر طرح کے ذکر کو شامل ہیں ذکر بالجہر کو بھی اور بالاخفاء کو بھی۔[3]

ذکر خفی اور حدیث ترمیم

امام احمد بن حنبل، ابن حیان، بیہقی وغیرہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا:
خَيْرُ الذِّكْرِ الْخَفِيُّ، وَخَيْرُ الرِّزْقِ مَا يَكْفِي
”بہترین ذکر خفی ہے اور بہترین رزق وہ ہے جو انسان کے لیے کافی ہو جائے“
اذْكُرُوا اللَّهَ تَعَالَى ذِكْرًا خَامِلًا» قَالَ: فَقِيلَ: وَمَا الذِّكْرُ الْخَامِلُ؟ قَالَ:الذِّكْرُ الْخَفِيُّ
”اللہ کویاد ذکرخامل کے ساتھ کروپوچھا گیا ذکر خامل کیا ہے فرمایا ذکر خفی ہے“[4]
خاص خاص حالات اور اوقات میں جہر ہی مطلوب اور افضل ہے ان اوقات و حالت کی تفصیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے قول و عمل سے واضح فرما دی ہے، مثلاً اذان و اقامت کا بلند آواز سے کہنا، جہری نمازوں میں بلند آواز سے تلاوت قرآن کرنا، تکبیرات نماز، تکبیراتِ تشریق، حج میں تلبیہ بلند آواز سے کہنا وغیرہ، اسی لیے فقہا رحمہم اللہ نے فیصلہ اس باب میں یہ فرمایا ہے کہ کن خاص حالات اور مقامات میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے قولاً یا عملاً جہر کرنے کی تلقین فرمائی ہے وہاں تو جہر ہی کرنا چاہیے، اس کے علاوہ دوسرے حالات و مقامات میں ذکر خفی اولیٰ وانفع ہے۔[5]
اصل ذکر اور ذکر حقیقی وہ ذکر قلبی ہے اور ذکر لسانی کواس لیے ذکر کہاجاتا ہے کہ وہ ذکر قلبی کاترجمان ہے اس لے کہ اگر کوئی شخص دل سے کسی کی یاد میں محو ہو اور زبان سے ساکت ہوتو وہ ذاکر سمجھاجاتا ہے لیکن اگر زبان سے کسی کانام لے اور دل میں کوئی اور بساہوا ہو تو حقیقت شناس لوگوں کے نزدیک یاد کرنے والوں میں اس کاشمار نہیں ہو سکتا۔[6]
حدیث شریف میں منقول ہے کہ وہ ذکر خفی ستر درجہ افضل ہے جسے حفظہ (یعنی اعمال لکھنے والے فرشتے) بھی نہیں سنتے چنانچہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کو حساب کتاب کے لیے جمع کرے گا تو حفظہ (اعمال لکھنے والے فرشتے) وہ تمام ریکارڈ لے کر حاضر ہوں گے جنہیں انھوں نے اپنی نوشت اور یادداشت میں محفوظ کر رکھا ہو گا وہ تمام ریکارڈ دیکھ کر اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ دیکھو میرے بندوں کے اعمال میں اور کیا چیز باقی رہ گئی ہے (جو تمھارے اس ریکارڈ میں نہیں ہے) وہ عرض کریں گے! پروردگار!بندوں کے اعمال کے سلسلہ میں جو کچھ بھی ہمیں معلوم ہو اور جو کچھ بھی ہم نے یاد رکھا ہم نے اسے اس ریکارڈ میں جمع کر دیا ہے، اس ریکارڈ میں ہم نے ایسی کوئی چیز محفوظ کرنے سے نہیں چھوڑی جس کی ہمیں خبر ہوئی ہو تب اللہ تعالیٰ بندہ کو مخاطب کر کے فرمائے گا کہ میرے پاس تیری ایسی نیکی محفوظ ہے جسے کوئی نہیں جانتا اور وہ ذکر خفی ہے میں تجھے اس نیکی کا اجر عطا کروں گا۔[7]
محقق و محدث کبیرحضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث ابوالدرداء بیان کی ہے۔
عَنْ اَبِی الدَّرْدآءِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم اَلا اُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرِ اَعْمَالِکُمْ وَ اَزْکٰہَا عِنْدَ مَلیْککُمْ وَاَرْفَعِہَا فیْ دَرَجَاتِکُمْ وَ خَیْرٍ لَّکُمْ مِّنْ اِنْفَاقِ الذَّہَبِ وَالْوَرْقِ وَ خَیْرٍ لَّکُمْ مِّن اَنْ تَلْقُوْا عَدُوَّکُمْ فَتَضْرِبُوْا اَعْنَاقِہُمْ وَیَضْرِبُوْا اَعْنَاقَکُمْ قَالُوْا بَلیٰ قَالَ ذِکْرُ اللہ[8]
حضرت ابوالدرداء سے روایت ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمھیں تمھارے اعمال میں سے بہتر عمل کی خبر نہ دوں جو تمھارے رب کے نزدیک زیادہ پاکیزہ ہو، جو تمھارے اعمال میں سب سے بلند مرتبہ ہو، جو تمھارے سونا اور چاندی کے خیرات کرنے سے زیادہ اچھا عمل ہو، جو تمھارے لیے اس عمل سے بھی بہتر ہو کہ تم دشمنوں سے مقابلہ کرکے انھیں قتل کرو اور وہ تمھارے گردنوں پر وار کریں؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہاں یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔ حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
اَلْمُرَادُ الذِّکْرُ الْقَلْبِیُّ فَاِنَّہٗ ھُوَ الَّذِیْ لَہُ الْمَنْزِلَۃُ الزَّائِدَۃُ عَلیٰ بَذْلِ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ لِاَنَّہ عَمَلُ نَفْسِیُّ وَفِعْلُ الْقَلْبِ الَّذِیْ ھُوَ اَشَقُّ مِنْ عَمَلِ الْجَوَارِحِ بَلْ ھُوَ الْجِہَادُ الْاَکْبَرُ[9] اس ذکر سے ذکر قلبی مراد ہے۔ یہی وہ ذکر ہے جس کا مرتبہ جان و مال خرچ کرنے سے بھی زیادہ ہے۔ کیونکہ یہ باطنی عمل ہے اور دل کا عمل ہے جو دوسرے اعضاء کے اعمال سے نفس کے لیے زیادہ سخت ہے۔ بلکہ یہی جہاد اکبر ہے۔

مزید دیکھیے ترمیم

ذکر قلب* [1]

abualsarmad.com

حوالہ جات ترمیم

  1. ذکرِاللہ جلؤہ گاہ دوست سے ایک انتخاب، http://www.islahulmuslimeen.org/zikr-in-detail.asp آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ islahulmuslimeen.org (Error: unknown archive URL)
  2. صحیح البخاری رقم الحدیث :6409 صحیح مسلم رقم الحدیث، 2704، سنن ابوداؤد رقم الحدیث :1526، سنن الترمذی رقم الحدیث :3472)
  3. تفسیر خزائن العرفان نعیم الدین مراد آبادی،سورۃ البقرہ،آیت 152
  4. الزهد والرقائق حدیث155 المؤلف:عبد الله بن المبارك الناشر: دار الكتب العلميۃ- بيروت
  5. تفسیر معارف القرآن - مفتی محمد شفیع الاعراف آیت 55
  6. تفسیر معارف القرآن - مولاناادریس کاندہلوی سورۃ البقرہ 172
  7. مسند أبي يعلى، أحمد بن علي بن المثُنى،الموصلي، حدیث نمبر4738،الناشر: دار المأمون للتراث - دمشق
  8. مشکواۃ المصابیح صفحہ 198
  9. مرقاۃ المفاتیح صفحہ نمبر 22 جلد ثالث