رابرٹ گارڈنر کا شمار بلند پایہ اردو کے مسیحی شعرا میں ہوتا ہے۔ اس کا تعلق اس یورپی خاندان سے ہے جس نے مستقل سکونت ہندوستان میں اختیار کر لی تھی۔

تعارف ترمیم

رابرٹ گارڈنر کا تعلق یورپین خاندان سے تھا۔ اس کے دادا نے ہندوستان میں مستقل رہائش اختیار کر لی تھی۔ اس کے والد کا نام ہیری فرینگٹن گارڈنر اور والدہ کا نام کریم النسا تھا۔ والدہ مسلم خاندان سے مسیحی ہوئی تھی۔ رابرٹ کے والد پوپی کے ضلع ایٹہ کے قصبہ مراچی میں سکونت پزیر تھے۔ رابرٹ گارڈنر کی پیدائش اسی قصبہ میں 27 اگست 1877ء میں ہوئی۔

ابتدائی حالات ترمیم

رابرٹ گارڈنر کے والد بچپن میں ہی فوت ہو گئے۔ اس کے والد تیس سال کے تھے جب اس کی وفات ہوئی۔ اس کی تدفین گاونی میں گارڈنر خاندان کے قبرستان میں کی گئی۔ والد کی وفات کے بعد رابرٹ گارڈنر، اس کا بھائی بارتھلمیو گارڈنر اور ان کی بہن صوفیہ گارڈنر یہ تینوں ڈینیٹل سقراط نتھانی ایل گارڈنر کے پاس قصبہ گاونی چلے گئے۔ یہاں پر انھوں نے مستقل سکونت اختیار کر لی۔ نتھانی ایل اور اس کے والد سلیمان شکوہ نے ان تین بہن بھائیوں کی پرورش کی۔

ملازمت ترمیم

بدایوں کے ایک مشنری امریکن پادری ڈاکٹر رابرٹ ہاسکنز اکثر گاونی میں گارڈنر خاندان میں آیا کرتے تھے۔ رابرٹ گارڈنر ان کی خدمت اور زندگی سے بہت متاثر ہوئے اور اس نے بھی اپنی زندگی بھر مسیحی خدمت کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ خود کہتے ہے۔

حاصل عمر نثار رہ یارے کر دم شادم از زندگی خویش کہ کارے کر دم

تعلیم مکمل ہونے کے بعد رابرٹ گارڈنر نے کاسگنج میں پادری کا کام شروع کر دیا۔ جلد ہی 1891ء میں سرکاری طور پادری لگ گئے۔ 1895ء میں اس کا تبادلہ دہلی میں ہو گیا۔ 20 جون 1895ء میں رابرٹ نے امریکن مشنری کی بیٹی ایلن سے شادی کر لی۔ رابرٹ گارڈن ملازمت کے سلسلے میں میرٹھ، متھرا، علی گڑھ اور ایٹہ میں رہائش پزیر رہے۔ کچھ عرصہ رابرٹ لاہور میں پادری کی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ 1915ء میں ان کا تبادلہ ضلع سہارن پور و شاملی و تھانہ بھون میں ہو گیا۔ 1924 میں رابرٹ کو ترقی ملی اور وہ مشن سپرنٹنڈنٹ بن کر آگرہ اور بلند شہر آگئے۔ پانچ سال آگرہ اور بلند شہر میں مشن سپرنٹنڈنٹ کے فرائض سر انجام دینے کے بعد 1929ء میں ریٹائر ہو گئے۔

شاعری ترمیم

نتھانی ایل گارڈنر کا خاندان علم و ادب کا دلدادہ تھا۔ خاندان میں شعر و سخن کی محافل منعقد ہوتی رہتی تھی۔ اس ماحول کی وجہ سے رابرٹ گارڈنر اور اس کے دونوں بھائی بہن نے بھی شاعری میں دلچسپی لی۔ رابرٹ کا بھائی بارتھلمیو گارڈنر بھی ایک شاعر تھا اور وہ اپنا تخلص صبر استعمال کرتا تھا۔ رابرٹ کی بہن صوفیہ گارڈنر کو بھی شعر و شاعری کا شوق تھا۔ رابرٹ گارڈنر نے ابتدا میں جب شاعری کا آغاز کیا تو اپنے اشعار کی مرزا عباس حسین لکھنوی سے اصلاح لیا کرتے تھے۔ ملازمت کے دوران جب ایٹہ میں تبادلہ تو ان دنوں ایٹہ میں شاعروں کی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ ان سرگرمیوں میں رابرٹ گارڈنر بھی شریک ہوتے تھے۔ منور خان ساغر، احمد خان کیفی، شیخ حیات بخش رسا، داغ دہلوی، امیر حسن دلبر اور تپش جیسے شعرا کے اجتماع ہوتے تھے۔ ایٹہ کے بعد جب رابرٹ کا تبادلہ لاہور ہوا تو اس وقت رابرٹ کی شہرت بام عروج پر تھی۔ کئی ادبی انجمنیں ان کی قیادت میں چلتی تھی۔ 1915ء سے 1924 تک رابرٹ کی شاعرانہ زندگی پر جمود کا عالم طاری رہا۔ اس کے بعد بھر سے شاعرانہ زندگی جاری رہی۔ رابرٹ پہلے پہل اپنے لیے تخلص شمیم اس کے بعد نسیم استعمال کرتے تھے۔ اس کے بعد اپنے ماموں وحید الدین فلک کے مشورے سے اپنا تخلص شوق استعمال کیا جو 1905ء تک قائم رہا۔ اس کے بعد اسبق کا تخلص استعمال کیا اور آخر تک یہی رہا۔ رابرٹ قادر الکلام شاعر تھے۔ اس نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی۔ غزلیں، نظمیں، قصیدہ، تاریخ اور قطعے سب کچھ کہا ہے لیکن سب نعتیہ اور اخلاقی ہے۔ عشقیہ کلام میں مجازی اور عارفانہ دونوں رنگ موجود ہے۔ اشعار میں فصاحت و بلاغت موجود ہے۔ ان کی اکثر غزلیں مسیحی گیت کی کتاب میں شامل ہیں جو بوقت عبادت گائی جاتی ہیں۔

وفات ترمیم

رابرٹ گارڈنر ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد آگرہ سے کاسگنج میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ رابرٹ نے کاسگنج میں 1930ء میں وفات پائی۔ [1]

حوالہ جات ترمیم

  1. اردو کے مسیحی شعرا مولف ڈی اے ہیریسن قربان صفحہ 41 تا 43