مسلم لیگ کے رہنما۔ راجا امیر احمد خان آف محمود آباد یو۔ پی )بھارت کے بہت بڑے جاگیردار اور قائداعظم کے معتمد رفقا میں سے تھے۔ راجا صاحب محمود آباد نے سیاسی بصیرت انہی سے حاصل کی اور نوعمری ہی میں مسلم لیگ کے سرگرم رکن بن گئے۔ 1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سرگرم رکن بن گئے۔ 1937ء میں آل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈریشن کی تشکیل کی اور مسلم نوجوانوں کو تحریک پاکستان سے روشناس کرایا۔ قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد کراچی آ گئے۔ لیکن سیاسی انتشار سے دل برداشتہ ہو کر عراق چلے گئے اور پھر لندن میں سکونت اختیار کی۔ آپ لندن میں اسلام کلچر سینٹر کے ڈائریکٹر تھے۔ پاکستان کی تاریخ سے آشنا لوگ کہتے ہيں: پاکستان، سر سيد احمد خان کی تعليمی خدمات، قائد اعظم کي رہنمائي اور راجا صاحب محمود آباد کی دولت کے مرہونِ منت ہے۔

راجا صاحب محمود آباد ریاست محمود آباد کے والی تھے جو لکھنؤ سے 30 میل دور شیعہ اکثریتی ریاست تھی۔ آپ کے والد سرمحمد علی خان مایہ ناز شخصیت کے حامل تھے۔ ٓپ کے والد ’’مہاراجا علی محمد خاں‘‘، نے ايک دفعہ کانپورمسجد کے حادثے ميں گرفتار ہونے والے مسلمانوں کي ضمانت کے طور پر اپنی پوری رياست پيش کرديی تھی۔ لوگوں نے کہا بھی ’’آپ بلاامتياز سب کی ضمانت دے رہے ہيں، ان کی اکثريت سے آپ واقف بھی نہيں ہيں‘‘ تو آپ نے کہا ’’ايک مسلمان کو بچانے کے لیے ميری رياست ختم ہو جائے تو ميں اسے معمولی سمجھوں گا۔ اور يہ سينکڑوں کی تعداد ميں ہيں۔ ان کے تحفظ کے لیے ميں اپنی جان اور آن کے لیے بھی خطرہ مول لے سکتا ہوں، رياست کيا چيز ہے‘‘۔

آپ کی دريادلی

راجا صاحب نے جس طرح دل کھول کر تحريکِ پاکستان ميں اپنی دولت لٹائی، اس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔ گاندھي جي، جواہر لال نہرو، مولانا محمد علي، مولانا شوکت علي، مولانا حسرت موہاني، چودھري خليق الزماں، غرض کہ ہندوستان کا ہرشعلہ بياں مقرر آپ کي رہائش گاہ ’’قيصر باغ‘‘ لکھنؤ ميں محفلوں کو گرماتا۔ جب آپ نے مسلم ليگ ميں شموليت اختيار کي تویہ ایک قسم سے گورنر’’سرہنري ہيگ‘‘ کے ساتھ ٹکرکے مترادف تھا۔ اسی وجہ سے آپ کو بلاکردھمکي دي گئي کہ اگرآپ نے مسلم ليگ نہ چھوڑي تو رياست ضبط کرلي جائے گي۔ ليکن آپ پراس کا کوئی اثرنہ ہوا بلکہ شعلۂ آتش اورتيزہوگيا۔

لوگوں کي خدمت

راجا صاحب مخدوم ہونے کے باوجود خادم نظر آتے اورشايد خدمت کي يہ ميراث ان کو اپنے والد مہاراجا محمد علي خاں سے ملي تھي۔ یہی وجہ تھی کہ راجا صاحب ایک طرف سے مسلم ليگ کے تمام جلسوں کا خرچہ برداشت کرتے تو دوسري طرف ذاتي طورپرہربيکس و نادارکي مدد کے لے ہمہ وقت تيار رہتے۔ جب آپ کے بيٹے ’’سليمان مياں صاحب‘‘ کي ولاد ت ہوئي تو لوگوں نے جشن منانے کا مشورہ ديا۔ مگرآپ نے عجيب انداز سے اللہ کي اس نعمت کا شکرادا کيا۔ وہ اس طرح کہ رياست کي تمام 24 تحصيلوں سے کل ايسے آدميوں کي فہرست منگوائي جو موتيا کے مرض کا شکارتھے۔ چنانچہ انھوں نے گيارہ سو اٹھاون 1158 مريضوں کو اپنے علاقے کے کيمپ ميں ٹھہرايا اور تمام لوگوں کا مفت آپريشن ڈاکٹر ٹي پرشاد (جو اس وقت آنکھوں کے مشہور ڈاکٹر تھے) سے کروايا۔

قائد اعظم کی انسان شناسی

قیام پاکستان کی تحریک میں آپ کی خدمات جلی حروف میں درج ہیں۔ آپ قائد اعظم کے دست راست شمار ہوتے تھے۔ آپ نے قیام پاکستان کے سلسلہ میں مالی، اخلاقی مدد فراہم کرنے میں بہت زیادہ مثبت کردار ادا کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح متعدد مواقع پر آپ کے وجود کو باعث افتخار قراردیا۔ اور آپ کي صلاحيتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے آپ کومسلم ليگ کا خزانچي مقررکيا ليکن راجا صاحب اس اہم منصب کے ساتھ ساتھ اپني شعلہ بياني سے بھي نوجوانوں کے دلوں کو گرماتے رہے، يوں زباني خرچ کے ساتھ ساتھ جيبي خرچ کي ذمہ دارياں بھي انجام ديتے رہے۔

ليکن پاکستان بننے کے بعد آپ کو اپني رياست سے ہاتھ دھونا پڑا۔ جس کے بعد آپ کو پاکستان ميں تين فيکٹرياں لگانے کي پيشکش بھي ہوئي ليکن آپ نے اسے ٹھکرا ديا۔ اپني زندگي کے آخري ايام بڑي کسمپري کے ساتھ جو کي روٹي اور بسوں ميں سفرکرتے ہوئے گزارے۔ [1]

حوالہ جات ترمیم

  1. حوالہ- راجا صاحب محمود آباد حیات و خدمات۔ by حیدر، خواجہ رضی۔ Published by : Quaid-e-Azam Academy (Karachi) Physical details: 375 p. ; 21 cm. ISBN 969-413-072-7.