رادھکا بائی (4 جولائی 1745ء – 29 نومبر 1798ء) ناسک، مہاراشٹر کی مشہور شخصیت سردار گپتے کی دختر حسین، باجی راؤ اول اور پھر رگھوناتھ راؤ کی معتمد خاص تھیں۔ چھترپتی شاہو مہاراج کے اجینکیا تارا قلعہ میں بچپن ہی سے رادھکا بائی کو ملکی نظم و نسق کی تعلیم اور فنون حرب و ضرب کی خصوصی تربیت دی گئی تھی تاکہ بڑی ہو کر وہ اس میدان میں کارہائے نمایاں انجام دے سکے۔ رادھکا سداشو راؤ بھاؤ کی بیوی پاروتی بائی کی عزیزہ تھی اور ان سے بڑا تعلق خاطر رکھتی تھیں۔ وہ شریمنت وشواس راؤ پیشوا سے منسوب تھیں۔

بچپن اور منگنی

ترمیم

رادھکا بائی کا بچپن ستارا شہر میں پاروتی بائی کی زیر تربیت گذرا۔ پاروتی کی طرح انھوں نے بھی تیر اندازی کی مشق بہم پہنچائی، اسلحوں سے واقفیت حاصل کی اور درباری داری کے فرائض سیکھے۔ عنفوان شباب تک رادھکا ان فنون میں طاق ہو چکی تھی اور ان کا حسن بھی نکھر آیا تھا۔ چنانچہ جب نانا صاحب پیشوا نے رادھکا کی روشن دماغی، ذہانت و فطانت اور حسن و جمال کو دیکھا تو انھیں اپنی بہو بنانے کی خواہش ظاہر کی۔ ان کا بیٹا وشواس راؤ ان کے بعد پیشوا کے منصب کا وارث تھا۔ چھترپتی شاہو اول نے اس شادی کا انتظام کیا اور اسی موقع پر شاہو کی لے پالک بیٹی پاروتی بائی بھی سداشیو راؤ بھاؤ کی زوجیت میں آئی۔

پانی پت مہم

ترمیم

مئی 1758ء میں تیرہ برس کی عمر میں رادھکا اور پاروتی بائی دوسری خواتین کے ساتھ مذہبی سفر پر دکن سے کروکشیتر کے لیے روانہ ہوئیں۔ معاصر مآخذ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے اس سفر میں اجین، ورنداون، ہریدوار، راولپنڈی کے شیو مندر اور ملتان کے نرسنھ مندر کی زیارت کی۔ امرتسر کے گولڈن ٹمپل کو پاروتی بائی نے جو عطیات دیے وہ بڑی وضاحت کے ساتھ تاریخ میں درج ہیں اور یہ پانی پت کی تیسری لڑائی سے فقط چودہ مہینے پہلے کا واقعہ ہے۔ پانی پت کی مہم میں وہ پچیس مہینوں تک پاروتی بائی اور اپنے منگیتر وشواس راؤ کے ساتھ رہیں اور اس کے بعد حفاظتی نقطہ نظر سے انھیں ایک سکھ بادشاہ کے قریبی محل میں منتقل کر دیا گیا جہاں سے وہ گوالیار چلی گئیں۔ گوالیار میں ان کے والد آئے اور انھیں واپس گھر لے گئے۔

حوالہ جات

ترمیم