راہی فدائی
ظہیر احمد کا قلمی نام راہی فدائی ہے آپ کی پیدائش 9 نومبر 1949ء کڈپہ میں ہوئی آپ نے مولوی فاضل، ادیب فاضل، افضل العلماء کے علاوہ میسور یونیورسٹی سے ایم۔ اے (اردو) کی سند حاصل کی بعد ازیں ایس۔وی۔ یونیورسٹی سے پی ایچ۔ ڈی کی سند حاصل کی۔ آپ نے اپنی شاعری کا سفر غالباً سنہ 1965ء میں شروع کیا۔ فی الحال آپ اسلامک اسٹڈیز میں B.S.A کالج سے وظیفہ یاب پروفیسر ہیں۔ آپ نے شاعری کے فنی لوازات حاصل کرنے کے لیے مولانا فدوی باقوی کے آگے زانوئے ادب تہ کیا۔
راہی فدائی | |
---|---|
پیدائش | 9 اپریل 1949ء کڈپہ، آندھرا پردیش، انڈیا |
پیشہ | ادب سے وابستگی، |
وجہِ شہرت | شاعری |
مذہب | اسلام |
شاعری
ترمیمڈاکٹر راہی فدائی ایک نقاد، محققشاعرو ادیبکی حیثیت سے ادبی دنیا میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ابتدا ہی سے وہ جدید یت کے قائل ہیں۔ ان کے کلام میں جدید رجحانات کی عکاسی پائی جاتی ہے۔ سنہ 1974ء میں اشتراکی مجموعہ ’’لہجے‘‘ کے ذریعے انھوں نے جدیدیت میں ایک الگ پہچان بنائی ہے ان کی اب تک کئی نثری اور شعری کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ نثری کتابوں کی نوعیت تحقیقی و تنقیدی ہے ان کی تصانیف کی تفصیل درج ذیل ہے:
نثر
ترمیمانھوں نے علمی تحقیقی اورتنقیدی نثر لکھنے میں بھی کمال مہارت کا ثبوت پیش کیاہے۔ خاص کر باقیات الصالحات اور اس کے علمی کارنامے،کڈپہ میں اردو ان کی شخصیت کے شناخت نامے ہیں جن کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔
تصانیف
ترمیم- ’’لہجے (اشتراکی شعری مجموعہ) سنہ اشاعت 1974ء
- انتسللہ(اشتراکی شعری مجموعہ)سنہ اشاعت 1978ء
- باقیات ایک جہاں (تحقیق)سنہ اشاعت 1980ء
- تصنیف (شعری مجموعہ) سنہ اشاعت 1981ء
- انامل (شعری مجموعہ) سنہ اشاعت 1987ء
- تجزیہ (تحقیق) سنہ اشاعت 1988ء
- ترقیم (شعری مجموعہ) سنہ اشاعت 1990ء
- اکتساب نظر (تحقیق) سنہ اشاعت 1991ء
- مسلک باقیات (تحقیق) سنہ اشاعت 1991ء
- کڑپہ میں اردو (تحقیق) سنہ اشاعت 1992ء
- مصداق (شعری مجموعہ) سنہ اشاعت 1993ء
- اوراق جاویداں (مخطوطات کا مجموعہ)سنہ اشاعت 1994ء
- ویلور تاریخ کے آئینے میں (تحقیق) سنہ اشاعت 1996ء
- مدرسۂ باقیات کے علمی و ادبی کارنامے (تحقیق) سنہ اشاعت 1996ء
- دار العلوم لطیفہ کا ادبی منظر نامہ (تحقیق) سنہ اشاعت 1997ء
- اینھاس (شعری مجموعہ) سنہ اشاعت 1998ء
- جوئے شیر (شعری مجموعہ) سنہ اشاعت 2000ء
- نبراس (شعری مجموعہ) سنہ اشاعت 2003ء
- یاصاحب الجمال (منظوم سیرتِ نبی) سنہ اشاعت 2006ء
- قلم رو فکر تحقیقی (عمی، تحقیقی مضامین کا مجموعہ)سنہ اشاعت 2006ء
- فبیھا ( کلیات اول) (شعری مجموعہ) سنہ اشاعت 2008ء
- ناعت و منعوت ( کلیات اول) (شعری مجموعہ) سنہ اشاعت 2008ء
- محبت انوار (نعتیہ مجموعہ) سنہ اشاعت 2009ء
- قدیم ہندوستان میں علومِ دین کے سرچشمے (تحقیقی ) سنہ اشاعت2009ء
- استدراک (شعری مجموعہ) سنہ اشاعت 2011ء
- اسعجاب (شعری مجموعہ) سنہ اشاعت 2012ء
- استیعاب ( کلیات دوم) (شعری مجموعہ) سنہ اشاعت 2015ء[1]
شاعری کا تجزیہ
ترمیمموصوف نے فکر و احساس کو اپنے تجربے کے سانچے میں ڈھال کر فنی حسن و خوبی عطا کی ہے اس لیے ان کی شاعری کو ایک ذہنی تحریک کے طور پر اخذ کرسکتے ہیں ان کی شاعری میں آزادی اظہار کا عکس جابجا پایا جاتا ہے چند شعر ملاحظہ ہوں:
” | آج معکوس ہے آئینہ ایام جہاں
نیم میں رنگ حنا زور تپش بارش میں |
“ |
” | دیکھیں گے ہم تیرا کرشمہ
پانی میں انگارے بوجا |
“ |
” | رنگ و روغن سخاوت کرو گے راہیاؔ
آب کی مانند بے رنگ و بو ہو جاوگے |
“ |
” | کہاں ہر ہر قدم اس کو بچاتا
مرا سایہ مرے قبضے میں کب تھا |
“ |
موصوف کے شعری مجموعہ ’’ایھاالناس‘‘ میں پروفیسر شمس الرحمن فاروقی نے راہی فدائی کے کلام کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’راہی فدائی نے جدید غز ل کے ایک خاص رنگ کو اپنایا اور جس طرح وہ اس رنگ کو بے تکان برتتے چلے گئے ہیں اس کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ اس میں اب انھیں نفس مطمئنہ حاصل ہے۔ جو رنگ انھوں نے اپنایا وہ ہر کس و ناکس کے بس کا نہیں اور اس میں اخلاقی مضامین کی توقیر نے غزل گوئی کی منزلیں اور مشکل کر دیں۔۔۔ کہ راہی فدائی نے جدید غزل میں اپنی جگہ نمایاں کرلی ہے۔‘‘ (ایھاالناس، شعری مجموعہ از راہی فدائی، ص: 11) راہی فدائی نے علائم کے ذریعے اپنی مخصوص جذباتی کیفیات کو اجاگر کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ موصوف کی شاعری کی لفظیات میں نیا پن ہے و نیز تراکیب میں موصوف کو کماحقہ عبور حاصل ہے۔ بندہ بے دام و رعم، خواہ ازل، صبر کا سکہ، سوال کج، بانجھ تمنا، رونق زر، بنت عنکبوت، رونق زر، عابدانِ جدید جیسی تراکیب سے تجربوں کا ایک نگار خانہ سجایا ہے۔ چند شعر ملاحظہ ہوں:
” | رونق زر پہ اس نے جاں دے دی
تیرگی کا ہدف کہیں اس کو |
“ |
” | دست بستہ ہے سحر شب کی اجازت کے لیے
اب کے خوددار طبیعت نہ رہی تابش میں |
“ |
” | قتل خورشید کے آثار نمایاں ہر سمت
بحر و بر ہیں وہ کھرا رنگ شفق ہے یا شیخ |
“ |
روایتی الفاظ سے چھٹکارا پانے کے لیے نئے الفاظ خصوصاً کیڑوں، مکوڑوں، جانوروں اور پرندوں کے ناموں کو جدید شاعری میں استعمال کیا گیا ہے۔ موصوف نے بھی سمک بندر، بلی، اسد، مار، کژدم، چیل، سگ، روبا، زاغ، بلبل، کوئل وغیرہ نام کو اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے اورا س کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں لطیف طنز کی عکاسی بھی پائی جاتی ہے۔ دو شعر ملاحظہ ہوں:
” | اخلاق کی سند بھی چبا کر نگل گئے
جوع البقر ہے آج کے بندر ہیں بوالعجب |
“ |
” | گلے میں علم کے لکنت کا ایک طوق پہنا کر
وہ کون جہل کو حسنِ مقال دیتا ہے |
“ |
ڈاکٹر راہی فدائی کا نام شہر کڑپہکے جدید شعرا کی فہرست میں سرفہرست آتا ہے انھوں نے جدید اسلوب کو اپنا کر اردو ادب کی دنیا میں اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ ڈاکٹر ظہیر احمد راہی فدائی کی تصانیف ان کی ویب گاہ : /http://www.rahifidai.in آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ rahifidai.in (Error: unknown archive URL) سے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہیں۔
- یہ مضمون امام قاسم ساقی کا تیسرا مجموعہ ‘تاسیس‘ سے لیا گیا ہے صفہ 39 تا 43