رب الاربابیت (انگریزی: Henotheism) ایک مذہبی اور فلسفیانہ تصور کی وہ نوعیت ہے جب خیال کیا جاتا ہے کہ بہت سے خداؤں ميں ایک خدا سب سے بڑا ہے اور چھوٹے خداؤں کو اس کے ماتحت رہنا پڑتا ہے۔ یا مزید آسان لفظوں ميں اس تصور میں ایک ہی معبود کی عبادت یا اس پر اعتقاد کو ترجیح دی جاتی ہے لیکن دیگر معبودوں کی موجودگی کا بھی اعتراف کیا جاتا ہے۔[1] یہ تصور قدیم ہندومت، زرتشتیت اور یونانی مذہب کے ساتھ ساتھ متعدد قدیم مذاہب میں پایا جاتا ہے اور اسے اکثر توحید اور بت پرستی یا شرک کے درمیان ایک درمیانی مقام سمجھا جاتا ہے۔[2]

تعریف و مفہوم

ترمیم

رب الاربابیت کو انگریزی ميں ہینوتھیزم کہتے ہیں۔ ہینوتھیزم کا لفظ یونانی زبان کے دو الفاظ "hen" (یعنی ایک) اور "theos" (یعنی خدا) سے مل کر بنا ہے جس کا مطلب ہے "ایک خدا کی عبادت"۔ رب الاربابیت میں عمومی طور پر ایک ہی دیوتا کو بلند مقام دیا جاتا ہے جبکہ دوسرے دیوتاؤں کو اس دیوتا کے ماتحت یا اس کی خصوصیات کا حامل مانا جاتا ہے۔[3] اس نظریے کے تحت مختلف معبودوں کی حیثیت کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جاتا بلکہ ایک دیوتا کو مرکزیت دی جاتی ہے اور دوسرے دیوتاؤں کو اس کے زیریں درجہ یا مختلف صفات سے متصف سمجھا جاتا ہے۔[4]

رب الاربابیت کی خصوصیات

ترمیم

رب الاربابیت کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مخصوص دیوتا کی مرکزی عبادت شامل ہے جس میں باقی دیوتا معاون یا ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ عموماً یہ تصور تب پروان چڑھتا ہے جب ایک معاشرتی یا مذہبی گروہ کسی مخصوص دیوتا کو اپنے عقیدے کا مرکز بناتا ہے لیکن دوسروں دیوتاؤں کو بھی بالواسطہ تسلیم کرتا ہے۔[5]

دیگر دیوتاؤں کا احترام

ترمیم

رب الاربابیت کے پیروکار دیگر دیوتاؤں کو مکمل طور پر رد نہیں کرتے بلکہ ان کو ایک مخصوص دیوتا کے تابع مانا جاتا ہے یا ان کو دوسرے کاموں کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔ جیسے کہ قدیم ہندومت میں مختلف دیوتا مخصوص کاموں اور صفات کے لیے جانے جاتے تھے لیکن ان سب کو برہما یا وشنو کے تابع سمجھا جاتا تھا۔[6]

تاریخی پس منظر

ترمیم

رب الاربابیت کا تصور مختلف قدیم تہذیبوں اور مذاہب میں موجود رہا ہے۔ قدیم ہندوستان، مصر، یونان اور ایران میں اس تصور کی مثالیں ملتی ہیں۔ خاص طور پر ہندومت میں یہ تصور واضح طور پر موجود ہے جہاں رگ وید میں مختلف دیوتاؤں کا ذکر کیا گیا ہے لیکن ہر دیوتا کو اپنی جگہ اہمیت دی گئی ہے۔[7] اس کے علاوہ زرتشتیت میں بھی ایک خدا اہورا مژدہ کو بلند مقام دیا گیا ہے جبکہ دیگر مخلوقات کی حیثیت تسلیم کی گئی ہے۔[8]

رب الاربابیت اور توحید

ترمیم

رب الاربابیت اور توحید کے درمیان فرق یہ ہے کہ توحید میں صرف ایک ہی خدا کی عبادت کی جاتی ہے اور باقی دیوتاؤں یا خداؤں کے وجود کی نفی کی جاتی ہے، جبکہ رب الاربابیت میں ایک مخصوص خدا کو بلند مقام دیا جاتا ہے لیکن دیگر دیوتاؤں کی موجودگی کو بالواسطہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ رب الاربابیت کو ایک طرح کا توحیدی تصور کہا جا سکتا ہے جس میں دیگر دیوتاؤں کا احترام موجود ہے لیکن انھیں مرکزی حیثیت نہیں دی جاتی۔[9]

رب الاربابیت کی مثالیں

ترمیم
  • ہندومت: وشنو اور شیو کو مرکزی حیثیت دینا اور دیگر دیوتاؤں کو ان کے تابع سمجھنا۔
  • زرتشتیت: اہورا مژدہ کو واحد برتر دیوتا ماننا لیکن دیگر مخلوقات کو تسلیم کرنا۔
  • قدیم مصری مذہب: آمون-رع کو برتر خدا ماننا جبکہ دیگر دیوتاؤں کو اس کے ماتحت سمجھنا۔[10]

رب الاربابیت کا جدید تصور

ترمیم

آج کے دور میں رب الاربابیت کی شکلیں مختلف مذہبی نظریات میں نظر آتی ہیں، جن میں ایک برتر ہستی کی مرکزی حیثیت اور دیگر دیوتاؤں یا روحانی ہستیوں کی زیریں حیثیت شامل ہیں۔ یہ تصور مخصوص مذہبی عقائد میں بدل چکا ہے اور مختلف گروہوں میں مختلف انداز میں پروان چڑھتا ہے۔[11]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. David Leeming, "The Oxford Companion to World Mythology," Oxford University Press, 2005.
  2. Richard Dawkins, "The God Delusion," Houghton Mifflin Harcourt, 2006.
  3. William Paden, "Religious Worlds: The Comparative Study of Religion," Beacon Press, 1988.
  4. Jan Assmann, "Of God and Gods: Egypt, Israel, and the Rise of Monotheism," University of Wisconsin Press, 2008.
  5. Norman Geisler, "Baker Encyclopedia of Christian Apologetics," Baker Books, 1999.
  6. Paul Tillich, "A History of Christian Thought," Simon and Schuster, 1967.
  7. Mircea Eliade, "A History of Religious Ideas," University of Chicago Press, 1978.
  8. Mary Boyce, "Zoroastrians: Their Religious Beliefs and Practices," Routledge, 1979.
  9. Edwin Yamauchi, "Persia and the Bible," Baker Book House, 1990.
  10. Stephen Quirke, "Ancient Egyptian Religion," British Museum Press, 1992.
  11. Karen Armstrong, "A History of God," Knopf Doubleday Publishing Group, 1993.