رسول نگر
ضلع گوجرانوالہ ،تحصیل وزیر آباد میں واقع پاکستانی پنجاب کا ایک تاریخی قصبہ جو گوجرانوالہ سے 28 میل مغرب میں دریائے چناب کے بائیں کنارے واقع ہے۔ نور محمد چھٹہ نے سترھویں صدی عیسوی میں آباد کیا۔ سکھوں اور انگریزوں کی آخری لڑائی 1849ء میں یہیں لڑی گئی۔ یہاں رنجیت سنگھ کی ایک بارہ دری موجود ہے۔ کہتے ہیں کہ رنجیت سنگھ گرمیاں یہیں گزارتا تھا۔ نمک کی منڈی بھی ہے۔ قادر آباد بیراج اس شہر سے چھ میل کے فاصلے پر ہے۔ سکھوں سے لڑا ئی میں بر طا نو ی فو ج کے 4 جنر ل 2بر یگیڈیئر اور 2کرنل ہلا ک ہو ئے ،جن کی عمودی قبریں بھی سرکاری توجہ کی طالب جامکے چٹھہ (ڈاکٹر قمر زمان سے)مہا راجا رنجیت سنگھ پنجاب میں سکھ سلطنت کا بانی تھا ۔ پنجاب میں اس کا اقتدار 1799ء تا 1849ء تک رہا ۔ اس نے 1822ء میں دریائے چناب کے کنارے شہر رسول نگر سے 2 کلومیٹر مشرق کی جانب اپنے دور کی خوبصورت ترین بارہ دری تعمیر کی ۔ 25 ایکڑ پر پھلوں کے باغات اور 64 کنال کی چار دیواری کے علاوہ دریائے چناب میں اتر نے کے لیے زیر زمین سر نگ تعمیر کی جس میں اس کے اہل خانہ نہانے کے لیے اترتے تھے ۔ خوبصورت ترین اس بارہ دری کے بارہ دروازے بنائے گئے جو چاروں اطراف سے آنے جانے کے لیے تھے اس بارہ دری سے شہر رسول نگر تک 2کلو میٹر زیر زمین سر نگ بنا ئی گئی جو رنجیت سنگھ کے محل سے خواتین بارہ دری تک آنے کے لیے استعما ل کر تی تھیں ۔ مہا راجا رنجیت سنگھ ہر سا ل 3ما ہ کے لیے اس با ر ہ در ی میں قیا م کر تا تھا۔ اسی مقام پر خالصہ فو ج اور بر طا نو ی فو ج کے در میان لڑا ئی میں بر طا نو ی فو ج کے 4 جنرل 2 بریگیڈیئر اور 2 کرنل رینک کے آفیسر ہلاک ہو ئے جن کی قبر یں علا قہ بھر میں کھڑی قبروں کے نا م سے مشہور ہیں ، انگر یز فو ج کے جنر ل چا ر لس را بر ٹ ، لا ر ڈ کو چ ، ویلیم ہیولاک ، بر یگیڈیئر سی آ رکریٹون 1848ء میں خالصہ آرمی کے ساتھ جنگ کے دور ا ن ہلا ک ہو ئے جن کی قبر یں محفوظ ہیں اس جنگ میں انگر یز آرمی کے 16 آفیسرز ہلاک 64 زخمی اور 14 لاپتہ ہو ئے تھے جن کی عمودی قبریں بنائی گئیں۔علاوہ ازیں یہاں سکھوں کی مڑیاں بھی موجود ہیں۔قیام پاکستان کے بعد رنجیت سنگھ کے ما لی کو کچھ رقبہ آلاٹ کیا گیا آج یہ عالیشان بارہ دری ملکی اثاثہ ہونے کی بجا ئے عدم توجہ کا شکار ہے ۔[1]
شہر رسول نگر کے باسی محمد یونس مہر لکھتے ہیں، مہاراجا رنجیت سنگھ کی گوجرانوالہ میں دریائے کے کنارے تعمیر کردہ وسیع و عریض باردری کی عالیشان سحر انگیز عمارات محکمانہ عدم توجہی کی بدولت کھنڈر میں تبدیل ھورھی ہے انھوں نے 1822ء میں دریائے چناب کے کنارے شہر رسول نگر سے 2 کلومیٹر مشرق کی جانب اپنے دور کی خوبصورت ترین تاریخی بارہ دری تعمیر کروائی جو 25 ایکڑ پر مشتمل تھی جس میں ہر قسم کے پھل کے باغات اور64 کنال کی چاردیواری کے علاوہ دریائے چناب میں شہزادیوں اور اہل خانہ کے اشنان کے لیے زیر زمین سرنگ تعمیر کی گئی تھی جس کے ذریعے اس تاریخی حوض میں اہل خانہ نہانے کے لیے اتر تے تھے ۔ مہاراجا رنجیت سنگھ ہر سال 3 ماہ کے لیے اس بارہ دری میں قیام کرتا تھا۔مہاراجا رنجیت سنگھ نے اپنی زندگی کا آخری معرکہ 1838 میں برطانوی فوج کے خلاف اسی علاقہ میں لڑا اس بارہ دری میں ایک حصے پر انگریز فوج کے جنرل چارلس رابرٹ لارڈ کوچ ویلیم ہیولاک برگیڈیرسی آرکر ینون کی قبریں محفوظ ہیں اس جنگ میں انگریز آرمی کے 16 آفیسر ز ہلاک 64 زخمی اور 14 لاپتہ ھوئے تھے۔علاوہ ازیں سکھوں اور ہندوؤں کی مڑیاں بھی موجود ہیں ۔
رسول نگر سابقہ رام نگر
ترمیمضلع گجرانوالا تاریخی حوالے سے بڑا زرخیز ضلع ہے- اس کے بہت سے قصبے اور دیہات بشمول گجرانوالا شہر کافی تاریخی مقامات اور واقعات اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں- گجرانوالا کا معروف قصبہ رسول نگر جس کا سابقہ نام رام نگر تھا، بھی اپنی ایک شناخت رکھتا ہے- تاریخی حوالے سے اس کا نام پہلے بھی رسول نگر رہا، مہاراجا رنجیت سنگھ کے والد مہا سنگھ نے بھنگیوں والی توپ حاصل کرنے کے لیے جب اس پر حملہ کیا تو اسی دوران اسے رنجیت سنگھ کی پیدائش کی اطلاع ملی، اس قصبہ کو فتح کرنے کے بعد اس نے اس کا نام رام نگر رکھا- مہاراجا رنجیت سنگھ نے پنجاب پر اپنا مکمل قبضہ کرنے کے بعد رسول نگر میں باقاعدہ اپنی گرمیوں کے موسم کی رہائش تعمیر کروائی جو آج انتہائی خستہ حالت میں موجود ہے- سکھوں کے چھٹے گرو ہو گوبند بھی یہاں تشریف لائے جن کی یاد میں یہاں ایک گردوارہ بنایا گیا جس کی اب صرف دیواریں باقی ہیں- مہاراجا رنجیت سنگھ کی رہائش کے ساتھ ہی ان انگریز فوجیوں کی قبریں موجود ہیں جو دوسری انگریز سکھ جنگ جو کئی مقامات پر لڑی گئی اس میں رسول نگر میں مارے گئے- انگریزوں کی قبروں کی حالت تو بہت اچھی ہے مگر رنجیت سنگھ کی رہائس کی بچ جانے والے دیواریں اپلوں سے اٹی پڑی ہیں- رسول نگر میں ایک اور تاریخی چیز جین مندر ہے- تعمیر کا شاہکار یہ مندر رنجیت سنگھ کے دور میں ایک جین سادھو بدھی وجے یا بیدی وجے نے بنوایا تھا- کہا جاتا ہے کہ یہ سادھو ایک سکھ گرانے میں پیدا ہوا اور بعد میں اس نے جین مذہب قبول کر لیا- یہ مندر اپنے نقش و نگار اور شاہکار طرز تعمیر کے باعث اپنی مثال آپ ہے- 70 سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس کے نقش و نگار اور اس میں جین مذہب کی تصویری کہانیاں اپنی اصل حالت میں دیکھی جا سکتی ہیں- وقت کے ہاتھوں اس مندر کی خستہ حالی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے- اپنے تاریخی ورثہ کی دیکھ بھال کے ذمہ داران رسول نگر کے ان تاریخی آثار سے چشم پوشی برتے ہوئے ہیں- اگر ان آثار کی طرف توجہ نہ دی گئی تو وقت کے بے رحم ہاتھوں یہ آثار ماضی کا قصہ بن کر رہ جائیں گے-
مزارات
ترمیم- سید سجاد حسین شاہ المعروف گلاب شاہ
دیکھیے
ترمیم- مختصرتاریخ شہر رسولنگر گذرے وقت کا عظیم الشان شہر رسولنگر عظمت رفتہ کا آئینہ دار الحاق پنجاب کے وقت جو ایک تحصیل ہیڈ کوارٹر تھا موجودہ وقت میں تحصیل وزیر آباد کا ایک معمولی قصبہ ہے یہ گوجرانوالہ سے 26 میل شمال مغرب کی جانب دریاے چناب پر واقع ہے اس شہر کی قدامت ہزاروں سال پرانی ہے عام طور پر ایک ہی روایت بیان کی جاتی ہے کہ اس شہر کو منچر کے رہنے والے چھٹہ سردار نور محمد نے 1732ء کو آباد کیا تھا مگر یہ بات روایت اس شہر کی قدامت کو جانچتے ہوئے مصدقہ نہیں معلوم ہوتی۔چھٹے اس خطہ میں غالب اور حکمران ضرور رہے ہیں اور رسولنگر ان کی عملداری میں بھی رہا ہے اور یہ ضرور ہے کہ چھٹوں نے شہر رسولنگر کو ترقی کے عروج پر پہنچا دیا تھا۔اور سکھوں کی سکر چکیہ مسل کے ساتھ چھٹوں کی لڑائیوں کا یہ علاقہ مرکز بھی رہا ہے سکر چکیہ مسل کے اکابرین میں مہاراجا رنجیت سنگھ کا دادا چڑت سنگھ اور والد مہان سنگھ شامل تھے 1780ء میں مہاں سنگھ نے چھٹہ سردار پیر محمد کو شکست دے کر رسولنگر پر اپنا تسلط جما لیا تھا اور رسولنگر کا نام بدل کر رام نگر رکھ دیا تھا ۔ یاد رہے چھٹے عہد مغلیہ میں اس خطہ کے سرکاری جاگیر دار تھے سردار نور محمد چھٹہ اور پیر محمد چھٹہ کے عہد میں اس شہر کا نام کوٹ نور محمد بھی رہا ہے اور پھر سردار پیر محمد چھٹہ نے اپنے مرشد عبدالرسول کے نام پر اس کا نام رسولنگر رکھا اور اس شہر کو بہت ترقی دی اور اس شہر میں عالیشان حویلیاں اور اونچی عمارتیں اور گودام تعمیر کرواے چھٹوں کے عہد حکومت میں تجارتی لحاظ سے یہ شہر پنجاب میں بہت آگے تھا چھٹہ سرداروں نے مسلم تجار جو نو مسلم کھتری اور اروڑے تھے کو لالیاں ضلع جھنگ سے لا کر رسولنگر آباد کیا اور ان کے کاروبار اور تجارت کو تحفظ فراہم کیا اور چھٹوں کے دور میں ہندو اور مسلم تجار یہاں بڑے بڑے تجارتی گوداموں اور دوکانوں کے مالک تھے۔رسولنگر میں عہد مغلیہ بلکہ عرصہ قدیم سے ہی دریائی بندرگاہ رہی تھی یہاں سے دریاپار سلسہ ہاے کوہ نمک واقع تھے اور رسولنگر نمک کی بہت بڑی منڈی گنا جاتا تھا اور یہاں نمک کے بڑے گودام ہوتے تھے ۔ نمک کے علاوہ بھی رسولنگر میں بڑی تجارتی اشیاء کالین دین ہوتا تھا امرتسر لاہور سیالکوٹ کابل سے تاجر حضرات اپنا مال رسولنگر لاتے تھے رسولنگر اس وقت لکڑی کی تجارت کا مرکز تھا یہاں کے ترکھان کشتی سازی کے ماہر تھے اور کئی کئی منزلہ بہری جہاز تیار کرتے تھے یہاں کے دبگر بھی مشہور تھے رسولنگر سے دساور جانے اشیاء میں خالص چمڑا اور اس کی بنی اشیاء اون سوتی کپڑا نمک روغن زرد وشکر تری وقند کمبل چمڑے کے بنے کپے اور کٹلری کا سامان پوتا تھا یاد رہے کسی وقت میں رسولنگر میں تلوار سازی اور چھریاں چاقو کی صنعت پورے ہندوستان میں مشہور تھی رسولنگر کی دریائی بندرگاہ سے کئی منزلہ بحری جہاز مال لے کر پانی کے بہاو پر چلتے ہو ایک ماہ میں سکھر سندھ کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتے تھے سکھر میں رسولنگر کے تجار کی اپنی ذاتی تجارتی کھوٹھیاں اور گودام ہوتے تھے جہاں سے مال اندرون سندھ بلوچستان ایران اور افغانستان کے کئی علاقوں میں جا کر فروخت کیا جاتا تھا ۔ سکھر سے واپسی پر تجارتی بجرے 6 ماہ میں پانی کے مخالف سفر کرتے ہوئے رسولنگر واپس آتے تھے اور واپسی پر ان بجروں میں مصالحہ جات دساور کی دیگر اشیاء ہوتی تھیں جو رسولنگر کی تجارتی منڈی کے ذریعہ پورے ہندوستان میں پھیل جاتی تھیں ۔ رسولنگر کے ہندو اروڑے تاجر بہت خوش حال اور امیر تھے مسلمانوں میں کھوجے ہی خوش حال تھے اور ان میں چند ایک تجارت کے میدان میں ہندو اور سکھ تجار کا مقابلہ کرتے تھے چونکہ ہندو چمڑے کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے اور اس کے کاروبار کو نجس سمجھتے تھے اس لیے یہ کاروبار سارا کھوجوں کے پاس تھا ۔ رسولنگر کی ململ بھی بہت مشہور تھی۔رسولنگر کے موچی جولاہے چمرنگ وغیرہ کھوجوں کے اجرتی ہوتے تھے اور گرد و نواح کے زمینداروں کا لین دین شیخوں یعنی کھوجوں کے ساتھ تھا اروڑے بڑے بڑے تجارتی گوداموں کے مالک تھے کھتری ذات کے حسن والئے سکھ سردار رسولنگر کے ذیلدار اور بڑے مالک اراضی تھے کھتری زمیندار عسکری پیشہ اور ملازم پیشہ زیادہ تھے اور دوسرے الفاظ میں کھتری اس شہر کے سردار تھے قوم اروڑہ اور قوم آرائیں اپنی کافی ملکیت رکھتے تھے۔رسولنگر میں برہمن سید قاضی کھتری اروڑہ ارائیں شیخ (کھوجے) اکثریتی آباد تھے۔محنت کش دستکار اور پیداواری اقوام میں نائ رنگریز دھوبی درزی کمھار جولاہے لوہار ترکھان راج موچی بھروالے جوگی تیلی ماچھی بھرائ ملاح جنہور سقے ماشکی فقیر اور چوہڑے آباد تھے رسولنگر میں اروڑے بہت تھے جن میں لوٹھڑے چاولے سیٹھی پسریچے گھمبیر لاکھڑے کھربندے کھرانے دہمیجے وغیرہ شامل تھے کھوجے بھی اکثریتی انہی گوتوں سے تعلق رکھتے تھے کیونکہ کھوجے بھی اکثریتی اروڑہ ماخز کے تھے کھتریوں میں مگوں سہگل ودھاون گوئندی چوپڑہ کھنہ وغیرہ تھے اور کھتریوں کی یہی گوتیں مسلم کھتری کھوجوں کی تھیں۔1822ءتا 1840 ٹک کئی کشمیری خاندان بھی کشمیر کے سکھ حکمرانوں کے مظالم سے تنگ آکر ادھر آباد ہوئے۔رسولنگر میں بزرگ مجذوب بابا گلاب شاہ کا مزار ہے وہ یو پی ہندوستان سے تعلق رکھتے تھے اور 1855 کے لگ بھگ ادھر تشریف لاے تھے رسولنگر میں کچھ پٹھان گھرانے بھی آباد تھے خیال کیا جاتا ہے کہ وہ شیر شاہ سوری کے ساتھ ادھر آے تھے رسولنگر میں کچھ گھرانے بھاٹیوں اور آہلووالیوں کے بھی تھے ۔ رسولنگر میں سکھوں کا مشہور گوردوارہ صاحب چھٹی پادشاہی بھی ہے جہاں جہانگیر بادشاہ کے دور میں سکھ مذہب کے چھٹے گورو ہر گوبند جی نے قیام کیا تھا اور پھر وہ یہاں سے حافظ آباد تشریف لے گئے تھے ۔ یہاں ہندوؤں کا ایک بڑا مندر اور ایک جین مندر تھا یہاں بہت دیوی دیوارے ٹھاکر دوارے اور دھرم شالائیں تھیں مسلمانوں کی مساجد بھی تھیں۔رسولنگر میں مہاراجا رنجیت سنگھ کا عظیم االشان گرمائی محل تھا جس کے آثار ابھی بھی موجود ہیں اس محل کے ساتھ ایک وسیع وعریض باغ تھا جس کی دیکھ بال کے لیے مہاراجا باغبان جو ارائیں ذات کے تھے ان کو سوہدرہ سے ادھر لے کر آیا تھا۔ جب مغلیہ سلطنت ضعف کا شکار ہوئ تو پنجاب میں بھی افراتفری پھیل گئی تھی خاص کر سکھ مسلوں نے پنجاب میں لوٹ مار اور قتل وغارت کامیدان گرم کر دیا تھا ۔ اس وقت گوجرانوالہ کے گاؤں سکر چک کے جٹ گھرانے سے تعلق رکھنے والے سردار چڑت سنگھ کی قیادت میں سکر چکیہ مسل کی چھٹوں کے ساتھ لڑائی شروع ہو گئی کیونکہ ان سکھ سکر چکیوں نے رسولنگر کی خوش حالی کے قصے سن رکھے تھے اور چونکہ رسولنگر چھٹوں کے زیر تسلط تھا اس لیے چھٹے ان کے دشمن تھے ۔ چھٹے چونکہ مغلیہ سلطنت کے وقت سے منچر اور گرد و نواح کے باقاعدہ مغلیہ سلطنت کے نامزد جاگیر دار تھے اور فن حرب کے رموز سے بھی آشنا تھے اور اپنی خود مختاری اور خودداری کی حفاظت کرتے تھے اور خاص کر رسولنگر کی حفاظت کے لیے انھوں پیدل دستے گھوڑ سوار دستے اور باقاعدہ بھاری توپخانہ رکھا ہوا تھا اور جب بھی چھٹوں اور سکر چکیوں کی آپس میں لڑائی ہوتی تھی تو چھٹے فاتح رہتے تھے۔اور انھوں نے کامیابی سے چھٹہ علاقے کا دفاع کیا اور سکھوں کو اپنے علاقے خاص کر رسولنگر میں نہ گھسنے دیا۔ چڑت سنگھ کی موت کے بعد مہان سنگھ نے سکر چکیہ مسل کی کمان سنبھالی اور کئی مرتبہ رسولنگر پر حملہ کیا مگر ہر بار ناکام رہا مہان سنگھ بہت چالاک انسان تھا۔ اس نے اندازہ کر لیا تھا کہ جنگ کے میدان میں چھٹوں کو ہرانا مشکل ہے تو اس نے چھٹوں سے تعلقات بہتر کرنے شروع کیے ۔ اور چھٹہ سرداروں کو کہا کہ کیوں نہ ہم آپس میں مل جائیں اور صلح کر کے ایک اتحاد بنا کر مشترکہ سلطنت قائم کریں اور مہان سنگھ نے گرنتھ صاحب پے چھٹوں کو سچے دل کا حلف بھی دیا اور اس دوران میں سکر چکیوں اور چھٹوں نے مل کر بھنگیوں کھرلوں اور ورکوں کے خلاف لڑائیاں بھی لڑیں ۔ مہان سنگھ کسی موقع کی انتظار میں تھا کہ چھٹہ سرداروں کو اپنے قابو میں کرے اور رسولنگر پر قبضہ کر کے چھٹوں کی فوجی اور اقتصادی طاقت کو ختم کر دیا جاے وہ پنجاب میں اپنا سب سے طاقتور دشمن چھٹہ قبیلے کو ہی گردانتے تھے ۔ ایک دن سردار پیر محمد چھٹہ اپنے چھوٹے بھائی جان محمد کے ساتھ مہان سنگھ کو ملنے آیا تو اس نے دھوکا سے ان دونوں بھائیوں کو قید کر لیا ۔ ان دونوں چھٹہ سرداروں کی قید کا سن کر چھٹہ فوج تتر بتر ہو گئی اور یوں سکر چکیے سکھ رسولنگر پر قابض ہو گئے سکھ قابض فوج نے رسولنگر میں تباہی مچا دی عالیشان حویلیاں اور اونچی عمارتیں گرا دیں تجارتی گودام اور مال سے بھری دوکانیں لوٹ لیں خاص کر اس وقت کے رسولنگر کے مشہور تجار کے گھروں کے خزانوں کی تلاش میں فرش بھی کھود ڈالے اور عام لوگوں کے کھانے پینے کے برتن بھی سکھ قابض فوج نے چھین لیے پھر اس وقت مہان سنگھ نے حکم جاری کیا کہ آج سے کوئی بھی رسولنگر کو رسولنگر نہیں کہے گا اور نہ ہی لکھے گا آج سے اس شہر کا نام رام نگر ہے اور یوں چھٹہ عہد کا یہ ترقی یافتہ تجارتی شہر دوبارہ کبھی بھی اہمیت نہ حاصل کر سکا رہی سہی کسر انگریز دور حکومت میں وزیر آباد سے حافظ آباد کی طرف براستہ علی پور چھٹہ ریلوے لائن جو بچھائی گئی تھی نے نکال دی کیونکہ ریلوے لائن بچھنے سے دریائی راستہ سے تجارت ختم ہو گئی اور رسولنگر کی اہمیت بالکل ختم ہو گئی تھی ۔ سکھ دور حکومت میں رسولنگر تعلقہ تھا 1906 بکرمی (1849ء) میں چتر سنگھ شیر سنگھ اٹاری والے کی قیادت میں سکھ فوج کی انگریز فوج کے ساتھ رسولنگر میں ایک خوفناک اور خونریز لڑائی ہوئی اور فریقین کے ہزاروں فوجی اس لڑائی میں کام آے جو انگریز فوجی افسران اس جنگ میں کام آے آج بھی ان کی قبور مہاراجا رنجیت سنگھ کے گرمائی محل کی باقیات کے ساتھ موجود ہیں ان انگریز فوجی افسران میں برطانوی شاہی خاندان کا ایک فرد بھی شامل تھا ۔ انگریز عملداری میں جب شیخوپورہ ضلع تھا تو اس وقت کا رسولنگر ایک تحصیل ہیڈ کوارٹر تھا پھر 1856ء میں وزیر آباد کو تحصیل کادرجہ دے دیا گیا اور رسولنگر کی تحصیل کو ختم کر دیا گیا ۔ 68 ۔ 1867 میں رسولنگر کی آبادی آٹھ ہزار کے لگ بھگ تھی مخلوط معاشرہ تھا ہندو مسلمان اور سکھ اکھٹے مل جل کر آپس می پر امن طریقے سے رہتے تھے ان کے درمیان آپس میں کبھی بھی مذہبی تکرار نہ ہوئی تھی سارے مذاہب کا باہمی احترام تھا سب لوگ ایک دوسرے کے خاندانوں اور نسلوں تک کے واقف تھے تقسیم سے قبل یہاں مسیحی فرقے کا بھی اضافہ ہو گیا تھا عزاداری اس شہر کی مشہور تھی پانی اس شہر کا گھی سے اعلی گنا جاتا تھا تربوز شریں اور ذائقہ میں بے مثال تھا خالص کھوے کی بنی برفی شہر رسولنگر کی خاص سوغات گنی جاتی تھی ۔ شہرہ آفاق بھنگیوں والی توپ ایک عرصہ تک رسولنگر رہی ۔ مہاراجا رنجیت سنگھ نے رسولنگر پر حملے کے وقت اس مشہور زمانہ توپ کو اپنے ساتھ رکھا یہی وہ توپ ہے جس کو زمزمہ توپ اور بھنگیوں والی توپ کہتے ہیں یہ توپ 1757ء میں احمد شاہ ابدالی نے بنوائی تھی اور یہ توپ احمد شاہ ابدالی نے پانی پت کی جنگ میں مرہٹوں کے خلاف بھی استعمال کی تھی۔بعد میں سکھوں نے لاہور کے افغان گورنر خواجہ عبد خاں کو قتل کر کے اس توپ کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا ۔ یہ توپ چار فٹ ساڑھے چار انچ لمبی ہے اور آج کل لاہور عجائب گھر کے باہر مال روڈ پر ایک چبوترے پر نصب ہے ۔ رسولنگر دور قدیم میں مسلمان حملہ آوروں کی راہ میں پڑتا تھا اسکندر اعظم سے لے کر احمد شاہ ابدالی تک تمام بیرونی حملہ آوروں نے رسولنگر سے گذر کر حافظ آباد جنڈیالہ شیر خاں کے راستے لاہور اور دہلی پر یلغاریں کیں۔مغل بادشاہوں شاہ جہاں اور جہانگیر کا کابل و کشمیر آنے جانے کا یہ پسندیدہ راستہ تھا۔اس نے ہرن منیار جہانگیر آباد سے کشمیر اور کابل کی طرف جب بھی کوچ کیا رسولنگر کے راستے گیا ۔ گجرات سے جہانگیر آتے جاتے وہ دریائی راستہ اختیار کر کے کشتی کے ذریعہ رسولنگر کے شاہی گذر پتن پر لنگر انداز ہوتا اور پھر یہاں سے ہاتھی پر سوار ہو کر علی پور چھٹہ سید نگر حافظ آباد اجنیانوالہ جنڈیالہ شیر خاں بیگم کوٹ کے راستہ جہانگیر آباد سے ہوتا ہوا شیخ پور (شیخوپورہ) کے پرگنہ سے گزرتا ہوا دولت آباد (قلعہ شاہی لاہور) میں وارد ہوتا اور وہاں سے سراے امانت خاں فتح آباد سلطان پور لودھی نکودر اور نور محل کے راستہ دہلی آتا جاتا تھا۔چونکہ شمال سے آنے والے ہر حملہ آور کی راہ میں رسولنگر پڑتا تھا اس لیے رسولنگر کی ہر زمانے میں عسکری اور دفاعی اہمیت تھی۔اسکندر اعظم سے لے کر مہاراجا دلیپ سنگھ ولد مہاراجا رنجیت سنگھ تک رسولنگر کی فوجی اہمیت مسلمہ رہی ہے یہاں ایک بہت بڑا فوجی پڑاؤ یا چھاونی ہوتی تھی ۔ یہاں تاریخ کے کئی فیصلہ کن معرکے اور جنگیں لڑی گئیں ۔ جغرافیائی لحاظ سے رسولنگر کو پنجاب کے ایسے دروازے کی حثیت حاصل تھی جہاں سے تقریباہر حملہ آور گذر کر لاہور اور دہلی حملہ آور ہوا۔ شیر شاہ سوری نے جب ہمایوں بادشاہ کو شکست سے دوچار کر کے اس سے دہلی کا تاج وتخت چھین کر پنجاب کی طرف ہمایوں کے تعاقب میں پیشں قدمی کی تو اس نے لاہور اور حافظ آباد سے گزرتے ہوئے دریائے چناب کے پار اپنی مضبوطی کے لیے رسولنگر کو اہم فوجی چوکی کی حثیت میں ترقی دے کر اس علاقے پر اپنے قبضہ کو مستحکم کیا۔ازاں بعد میانی بھیرہ خوشاب کے علاقوں کو اپنی قلمرو میں شامل کرنے کے بعد رسولنگر کے شمال مغرب میں کوہ سفید پر شیر شاہ نے حصار اعظم یعنی قلعہ روہتاس کی بنا ڈالی۔ شیر شاہ سوری کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مغل حکمرانوں نے وادی جہلم کو کابل اور قندھار تک اپنی مہم جوئ کے دوراں رسد رسانی کے لیے رسولنگر کے راستہ کو اپنایا ۔ کیونکہ لاہور اور روہتاس کے درمیاں یہی علاقہ سرسبزوشاداب اور وسیع تر آباد تھا۔ جو ایک طرف شاہراہ اعظم اور دوسری طرف غزنی لاہور روڈ کے وسطی حصہ میں تھااور شہر رسولنگر ان علاقوں کے عین قلب میں مرکزی نقطہ پر واقع تھا۔ اس کی مرکزی اہمیت کے لیے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کوہستان نمک سے امرتسر کے راستہ دہلی تک نمک کی ترسیل کے لیے شہر رسولنگر دریائے چناب کے کنارے جنوب میں بنیادی پڑاؤ کا حامل تھا۔ یہاں سے امرتسر پٹھانکوٹ سیالکوٹ کشمیر دہلی لاہور ملتان روہتاس بھکر چنیوٹ تک فوجی اور تجارتی اہمیت کی شاہرائیں جاتی تھیں ۔ جو زمانہ جنگ میں فوجی نقل و حرکت اور امن کے زمانہ میں تجارتی سامان کی نقل وحمل میں بہترین ذرائع آمدورفت میں شمار کی جاتی تھیں ۔ شیر شاہ سوری نے پنجاب پر قبضہ کے بعد رسولنگر کو اہم جنگی اہمیت کا مقام گردانتے ہوئے اسے اپنا دفاعی عسکری مرکز قرار دیا۔اور اپنے پہلے سرکاری بندوبست میں اپنی فوجی ضرورتوں کے پیش نظر دفاعی اہمیت کی حامل شاہراہوں کی تعمر و ترتیب دی۔ان ہی عسکری اور تجارتی اہمیت کی شاہراہوں میں کشمیر لاہور سے پٹھانکوٹ سیالکوٹ جموں روڈ دہلی امرتسر رسولنگر بھیرہ کابل روڈ لاہور جنڈیالہ شیر خاں حافظ آباد رسولنگر روہتاس روڈ شیر شاہ سوری کی فوجی بصیرت کے شاہکار راستے ہیں جب شیر شاہ سوری شاہراہ اعظم کی تخلیق تشکیل میں مصروف تھا ۔ تو لاہور پشاور اور کابل کے دمیان شیخوپورہ جنڈیالہ شیر خاں اجنیانوالہ حافظ آباد اور رسولنگر کے راستہ ہی آمدورفت ہوتی تھی۔رسولنگر سے تعلق رکھنے والے خاندان پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں نامور اداکار اسد بخاری ماہر تعلیم میر احمد دین شیخ محمد اکرام آئ سی ایس لفٹنیٹ جنرل قاضی جسٹس ایس اے رحممن حکیم شیخ غلام حسین اور حافظ آباد کے ایم پی اے ڈاکٹر مظفر علی شیخ آبائی طور پر رسولنگری ہیں (تاریخ کے گمشدہ اوراق از عزیز علی شیخ)
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 03 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 جنوری 2020